سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی ایسا خواب دیکھے جو اس کو اچھا معلوم ہو تو وہ اللہ کی طرف سے ہے، اس پر اس کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس کو (اپنے دوستوں سے) بیان بھی کرے اور جو اس کے سوا ایسا خواب دیکھے جو برا معلوم ہو تو وہ شیطان کی طرف سے ہے، اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے اور کسی سے اس کا ذکر نہ کرے کیونکہ پھر وہ اس کو نقصان نہ دے گا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نبوت میں سے فقط مبشرات (بشارتیں) باقی رہ گئی ہیں۔“ صحابہ نے عرض کی کہ مبشرات (خوشخبریاں) کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھے خواب۔“(مبشرات یعنی خوشخبری اور بشارتیں ہیں)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے مجھ کو خواب میں دیکھا، وہ عنقریب مجھ کو جاگتے میں بھی دیکھے گا اور شیطان میرا ہم شکل نہیں بن سکتا۔“
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے مجھ کو (خواب میں) دیکھا (تو تحقیق) اس نے مجھ کو ہی دیکھا کیونکہ شیطان میرے مشابہ نہیں ہو سکتا۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے اور یہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کو اس طرح دیکھنے لگیں جیسے جوئیں دیکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور پھر جب اٹھے تو ہنستے ہوئے اٹھے۔ ام حرام نے عرض کی یا رسول اللہ! کس سبب سے آپ ہنس رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے چند لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے مجھ کو دکھائے گئے، سمندر کے درمیان (جہازوں پر) سوار بادشاہوں کی طرح یا مثل بادشاہوں کے تختوں پر بیٹھے ہوئے۔“ یہ شک اسحاق راوی کو ہوا ہے۔ ام حرام رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہ! اللہ سے دعا کیجئیے کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو ان لوگوں میں سے کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا مانگی اور پھر سر رکھ کر سو گئے۔ پھر ہنستے ہوئے جاگے۔ ام حرام رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہ! (اب) کس وجہ سے آپ ہنس رہے ہیں؟ فرمایا: ”میری امت کے چند لوگ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے میرے سامنے پیش کیے گئے۔“ جیسا کہ پہلی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ یہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کی کہ آپ اللہ سے دعا کیجئیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان لوگوں میں سے کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پہلوں میں سے ہو۔“ چنانچہ ام حرام (رضی اللہ عنہا) سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں (پہلی اسلامی) سمندر میں کشتی پر سوار ہوئیں اور سمندر سے نکلنے کے وقت اپنی سواری کے جانور سے گر کر فوت ہو گئیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب قیامت قریب ہو گی تو مومن کا خواب جھوٹا نہیں ہو گا (بلکہ بالکل سچ ہو گا) اور مومن کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے اور جو بات نبوت میں سے ہوتی ہے وہ کبھی بھی جھوٹ نہیں ہو سکتی۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے دیکھا، گویا ایک کالی عورت بکھرے ہوئے بالوں والی مدینہ سے نکل کر حجفہ میں جا ٹھہری ہے۔“(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ)”میں نے اس کی یہ تعبیر لی کہ مدینہ کی وبا وہاں منتقل کی گئی ہے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے وہ خواب بیان کیا جو نہیں دیکھا (یعنی جھوٹا تو) اس کو قیامت کے دن دو جو (کے دانوں) میں گرہ لگانے کی تکلیف دی جائے گی لیکن وہ شخص اس کو نہ لگا سکے گا اور جس نے ان لوگوں کی بات سنی جو اس کے بات سننے کو اچھا نہ سمجھتے تھے اور اس سے بچتے تھے تو اس کے کانوں میں قیامت کے دن سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا اور جس نے تصویر بنائی، اس کو عذاب دیا جائے گا اور تکلیف (اس بات کی) دی جائے گی کہ اس تصویر میں روح پھونکے لیکن وہ پھونک نہ سکے گا۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ انسان اپنی آنکھوں کو وہ چیز (یعنی خواب) دکھائے جو انھوں نے دیکھی نہ ہو۔“