سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک قوم پر گزرے جن کے پاس بھنی ہوئی بکری تھی، انھوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو بھی کھانے کے لیے بلایا لیکن انھوں نے کھانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے لیکن کبھی ”جو“ کی روٹی بھی پیٹ بھر کے نہ کھائی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز اپنے صحابہ میں کھجوریں تقسیم کیں اور ہر ایک آدمی کو سات (سات) کھجوریں، مجھے بھی سات کھجوریں دیں، ان میں سے ایک خراب (سخت) تھی لیکن ان میں سے کوئی کھجور مجھے اس سے زیادہ پسند نہ تھی کیونکہ وہ میرے چبانے میں دیر تک رہی۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل و عیال نے، جب سے مدینہ میں آئے تین روز متواتر گیہوں کی روٹی پیٹ بھر کے کبھی نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب ان کا کوئی رشتہ دار فوت ہو جاتا اور عورتیں اکٹھی ہوتیں پھر وہ اپنے اپنے گھر چلی جاتیں مگر گھر والے اور قریب کی عورتیں رہ جاتیں تو تلبینہ کی ہنڈیاں پکواتیں پھر ثرید بنایا جاتا اور تلبینہ پر ثرید ڈال دیا جاتا پھر کہتی تھیں کہ اسے کھاؤ کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”تلبینہ مریض کے دل کو آرام دیتا ہے اور غم کو دور کرتا ہے۔“
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ریشم اور دیباج نہ پہنو اور نہ سونے چاندی کے برتنوں میں پانی پپو (مثلا جگ، گلاس، جام، پیالے وغیرہ) اور نہ سونے چاندی کی رکابی (پلٹ، ڈش وغیرہ) میں کھانا کھاؤ کیونکہ یہ سامان کفار کے واسطے دنیا میں ہے اور ہمارے واسطے آخرت میں ہو گا۔
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قوم انصار میں ایک شخص تھا جسے ابوشعیب رضی اللہ عنہ کہتے تھے، اس کا ایک غلام قصائی تھا، انھوں نے اسے کہا کہ میرے واسطے کھانا تیار کر، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت پانچ آدمیوں کی دعوت کروں گا۔ پھر انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت پانچ آدمیوں کو بلایا تو ایک اور شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہو لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے ہم پانچ آدمیوں کو بلایا ہے اور یہ شخص ہمارے پیچھے چلا آیا۔ اب تجھے اختیار ہے چاہے اسے اجازت دے یا نہ دے۔“(انھوں نے) کہا کہ میں نے اسے بھی اجازت دی (یعنی اسے بھی آنے دیجئیے)۔
سیدنا عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور اور ککڑی ملا کر کھا رہے تھے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک یہودی تھا جو میری کھجوریں کٹنے تک مجھے قرض دیا کرتا تھا، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے پاس وہ زمین تھی جو بئررومہ کے راستہ میں تھی۔ ایک سال خالی گزرا، اس زمین میں کھجوریں کم ہوئیں اور وہ سال گزر گیا۔ کٹائی کے وقت یہودی میرے پاس آیا اور میں اس میں سے کچھ نہ کاٹنے پایا تھا (میوہ بہت کم تھا) اس میں سے آئندہ سال تک مہلت مانگنے لگا لیکن وہ نہ مانا۔ یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے کہا کہ چلو جابر رضی اللہ عنہ کو یہودی سے مہلت دلا دیں۔ وہ سب میرے باغ میں تشریف لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہودی سے گفتگو کرنے لگے، وہ کہنے لگا کہ اے ابوالقاسم! میں جابر کو مہلت نہیں دوں گا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کو دیکھا (کہ نہیں مانتا) تو کھڑے ہو کے باغ کے چاروں طرف پھرے اور یہودی سے دوبارہ گفتگو کی لیکن وہ راضی نہ ہوا تو میں کھڑا ہوا اور تھوڑی سی تر کھجوریں لایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کھائیں پھر فرمایا: ”اے جابر! تیرے باغ کی جھونپڑی کہاں ہے؟“ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگہ بتائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہاں میرے لیے بچھونا کر دے۔“ میں نے (فوراً) بستر بچھا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں جا کر سو گئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو میں مٹھی بھر کھجوریں اور لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کھا لیں پھر کھڑے ہوئے اور یہودی سے گفتگو کی مگر وہ پھر بھی نہ مانا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسری مرتبہ کھجوروں کے درختوں میں جا کھڑے ہوئے پھر فرمایا: ”اے جابر! کاٹتا جا اور دیتا جا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاٹنے کی جگہ بیٹھ گئے میں نے اتنی کھجوریں کاٹیں کہ اس کا قرض ادا ہو گیا اور اسی قدر اور بچ گئیں۔ میں نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خوشخبری سنائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (خوش ہو کے) فرمایا: ”میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا سچا رسول ہوں۔“
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ہر روز صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھا لیا کرے، اس دن اسے زہر اور جادو ضرر نہ پہنچا سکے گا۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی کھائے تو اپنے ہاتھ کو نہ پونچھے جب تک (انگلیاں) خود نہ چاٹ لے یا کسی دوسرے کو چٹا نہ دے۔“