1. اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو (ایسے وقت) طلاق دے دو کہ ان کی عدت کا وقت (آنے والا) ہو اور عدت شمار کرو“ (سورۃ الطلاق: 1)۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی جبکہ وہ حائضہ تھی۔ (میرے والد) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے حکم کرو کہ اس سے رجوع کر لے پھر اسے پاک ہونے تک روکے رہے پھر جب اسے ایام حیض آئیں اور پاک ہو جائے اس وقت چاہے اسے روکے اور چاہے تو اس سے ہمبستری سے پہلے طلاق دیدے، یہ ہے وقت عدت جس کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے: ”عورتوں کو اس وقت طلاق دی جائے۔“
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جون کی بیٹی (نکاح کے بعد) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب گئے تو وہ کہنے لگی میں تجھ سے اللہ کی امان چاہتی ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”تو نے بہت بڑے کی امان مانگی۔ (جا) اپنے رشتہ داروں میں مل جا۔“
ایک دوسری روایت میں سیدنا ابواسید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس (عورت دختر جون) کے پاس گئے اور اس کے ہمراہ اس کی دایہ اس کی دودھ پلانے والی بھی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا کہ اپنا نفس تو میرے حوالے کر دے۔“ اس نے جواب دیا کہ کہیں ملکہ بھی بازاری لوگوں کو اپنا نفس ہبہ کر سکتی ہے؟ (پھر) کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا کہ اپنا ہاتھ اس پر رکھ کر اسے تسکین دیں وہ بولی کہ میں تجھ سے اللہ کی امان مانگتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے بڑے پناہ دینے والے کی امان مانگی۔“ پھر ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”اے ابواسید! اپنے دو کپڑے رازقی پہنا کر اس کے کنبہ والوں کے پاس پہنچا دے۔“
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ یا رسول اللہ! مجھے رفاعہ نے طلاق دی پھر طلاق بائنہ (غیر رجعی) ہو گئی۔ اس کے بعد میں نے عبدالرحمن بن زبیر قرظی سے نکاح کیا (مگر) وہ نامرد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید تو رفاعہ کے پاس لوٹنا چاہتی ہے، تو نہیں (لوٹ سکتی) جب تک وہ (عبدالرحمن) تیرا مزہ نہ چکھ لے اور تو اس کا مزہ نہ چکھ لے۔“
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حلوہ اور شہد بہت مرغوب تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ عصر کی نماز پڑھ کر اپنی بیویوں کے پاس جاتے تھے اور ان میں سے کسی سے بوس و کنار بھی کرتے۔ (ایک دن) ام المؤمنین حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور معمول سے زیادہ ٹھہرے رہے۔ (اس سے) مجھے غیرت آئی اور میں نے اس کا سبب دریافت کیا تو کسی نے مجھ سے کہا کہ ان (ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا) کو ان کی قوم کی کسی عورت نے شہد کا ایک ڈبہ بطور تحفہ بھیجا تھا۔ انہوں نے وہ شہد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پلایا (اس وجہ سے دیر ہو گئی)۔ میں نے کہا واللہ! میں تو کچھ حیلہ کروں گی۔ میں نے ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس آئیں تو تم کہنا کہ شاید آپ نے مغافیر کھایا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تجھ سے انکار کریں گے پھر تو یہ کہنا کہ یہ بدبو آپ کے منہ سے مجھے کیسی آتی ہے؟ جب وہ تجھ سے کہیں کہ میں نے حفصہ (رضی اللہ عنہا) کے پاس شہد پیا ہے تو تم کہنا کہ شاید اس (شہد) کی مکھیوں نے درخت عرفط کا رس چوسا ہو گا اور میں بھی یہی کہوں گی اور اے صفیہ! تم بھی یہی کہنا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سودہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (آ کر) دروازہ پر کھڑے ہی ہوئے تھے کہ میں نے تیرے خوف کے باعث اس بات کے کہنے کا جو تو نے مجھ سے کہی تھی ارادہ کر لیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سودہ رضی اللہ عنہا کے قریب پہنچے اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“ وہ بولی پھر آپ کے منہ سے مجھے بدبو کیسی آتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ مجھے حفصہ نے تھوڑا سا شہد پلایا ہے، وہ بولی شاید اس کی مکھی نے عرفط کا رس چوسا ہو گا۔ جب آپ میرے پاس آئے تو میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی کہا اور جب صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے تو انھوں نے بھی یہی کہا اور جب آپ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس دوبارہ تشریف لے گئے تو حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں آپ کے پینے کے لیے شہد لاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے شہد کی حاجت نہیں“۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سودہ رضی اللہ عنہا نے کہا واللہ! ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد پینے سے محروم کر دیا ہے۔ میں نے کہا ارے چپ رہو (کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ خبر ہو جائے)۔
6. خلع (کا کیا حکم ہے) اور اس میں طلاق کیسے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول ”اور تمہیں حلال نہیں کہ تم نے انھیں جو دے دیا ہے اس میں سے کچھ بھی لو، ہاں یہ اور بات ہے کہ دونوں کو اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو“ (سورۃ البقرہ: 229)۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا ثابت قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں (اپنے شوہر) ثابت سے قیس سے (جو ناراض ہوں تو) کسی بری عادت یا دینی برائی سے ناراض نہیں ہوں لیکن میں یہ برا سمجھتی ہوں (جبکہ اس سے میری طبیعت بیزار ہے) کہ کہیں میں حالت اسلام میں کفران (نعمت) میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو اس کا باغ واپس دیدے گی (جو اس نے تجھے حق مہر میں دیا ہے)“ وہ بولی جی ہاں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اے ثابت!) اپنا باغ لے لے اور اسے ایک طلاق دیدے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بریرہ کا شوہر غلام تھا جس کا نام مغیث تھا گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں وہ (بیچارہ) اس کے پیچھے روتا پھر رہا ہے اور اس کے آنسو ڈاڑھی پر ٹپ ٹپ گر رہے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”اے عباس! کیا تم کو مغیث کی بریرہ سے محبت اور بریرہ کی مغیث سے عداوت پر تعجب نہیں آتا؟“ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بریرہ! تو اس کے پاس چلی جا (تو اچھا ہے)۔“ وہ بولی کہ یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے یہ حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(نہیں)! میں تو صرف سفارش کرتا ہوں۔“ تو اس (بریرہ) نے جواب دیا کہ مجھے اس کی حاجت نہیں ہے۔
سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں اس طرح (قریب قریب) ہوں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھے کے ساتھ والی (شہادت کی) انگلی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑا سا فرق باقی رکھا۔ (فائدہ: امام بخاری نے اس حدیث سے ان لوگوں کا رد کیا ہے جو طلاق وغیرہ میں تو اشارے کو روا مانتے ہیں مگر لعان میں نہیں تو یہاں سے واضح کیا کہ اشارے کو لعان وغیرہ میں بھی روا رکھا جائے گا۔ دوسری بات کہ لعان کی مکمل احادیث پہلے گزر چکی ہیں اس لیے یہاں ان کو تکرار کے ڈر سے دوبارہ نہیں لکھا گیا۔“)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! میرے ہاں ایک کالا بچہ ہوا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟“ وہ بولا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ان کا رنگ کیسا ہے؟“ وہ بولا سرخ رنگ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا ان میں کوئی خاکستری (خاکی) رنگ کا بھی ہے؟“ اس نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کہاں سے ہو گیا؟“ وہ بولا شاید مادہ کی کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے بیٹے کا رنگ بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو گا (چنانچہ وہ خود ہی قائل ہو گیا کہ اس کا شبہ غلط تھا)۔“