(مرفوع) حدثنا ابو الوليد، حدثنا سلم بن زرير، سمعت ابا رجاء، قال: حدثنا عمران بن حصين انهم كانوا مع النبي صلى الله عليه وسلم"في مسير فادلجوا ليلتهم حتى إذا كان وجه الصبح عرسوا، فغلبتهم اعينهم حتى ارتفعت الشمس فكان اول من استيقظ من منامه ابو بكر، وكان لا يوقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم من منامه حتى يستيقظ فاستيقظ عمر فقعد ابو بكر عند راسه فجعل يكبر، ويرفع صوته حتى استيقظ النبي صلى الله عليه وسلم فنزل وصلى بنا الغداة فاعتزل رجل من القوم لم يصل معنا فلما انصرف، قال: يا فلان ما يمنعك ان تصلي معنا، قال: اصابتني جنابة فامره ان يتيمم بالصعيد، ثم صلى وجعلني رسول الله صلى الله عليه وسلم في ركوب بين يديه وقد عطشنا عطشا شديدا، فبينما نحن نسير إذا نحن بامراة سادلة رجليها بين مزادتين، فقلنا لها: اين الماء، فقالت: إنه لا ماء، فقلنا: كم بين اهلك وبين الماء، قالت: يوم وليلة، فقلنا: انطلقي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: وما رسول الله فلم نملكها من امرها حتى استقبلنا بها النبي صلى الله عليه وسلم فحدثته بمثل الذي حدثتنا غير انها حدثته، انها مؤتمة فامر بمزادتيها فمسح في العزلاوين فشربنا عطاشا اربعين رجلا حتى روينا فملانا كل قربة معنا وإداوة غير، انه لم نسق بعيرا وهي تكاد تنض من الملء ثم، قال: هاتوا ما عندكم فجمع لها من الكسر والتمر حتى اتت اهلها، قالت: لقيت اسحر الناس او هو نبي كما زعموا فهدى الله ذاك الصرم بتلك المراة فاسلمت واسلموا".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ زَرِيرٍ، سَمِعْتُ أَبَا رَجَاءٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ أَنَّهُمْ كَانُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"فِي مَسِيرٍ فَأَدْلَجُوا لَيْلَتَهُمْ حَتَّى إِذَا كَانَ وَجْهُ الصُّبْحِ عَرَّسُوا، فَغَلَبَتْهُمْ أَعْيُنُهُمْ حَتَّى ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ فَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَيْقَظَ مِنْ مَنَامِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَكَانَ لَا يُوقَظُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَنَامِهِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ فَاسْتَيْقَظَ عُمَرُ فَقَعَدَ أَبُو بَكْرٍ عِنْدَ رَأْسِهِ فَجَعَلَ يُكَبِّرُ، وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ حَتَّى اسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَ وَصَلَّى بِنَا الْغَدَاةَ فَاعْتَزَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ لَمْ يُصَلِّ مَعَنَا فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ: يَا فُلَانُ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَنَا، قَالَ: أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَيَمَّمَ بِالصَّعِيدِ، ثُمَّ صَلَّى وَجَعَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَكُوبٍ بَيْنَ يَدَيْهِ وَقَدْ عَطِشْنَا عَطَشًا شَدِيدًا، فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَسِيرُ إِذَا نَحْنُ بِامْرَأَةٍ سَادِلَةٍ رِجْلَيْهَا بَيْنَ مَزَادَتَيْنِ، فَقُلْنَا لَهَا: أَيْنَ الْمَاءُ، فَقَالَتْ: إِنَّهُ لَا مَاءَ، فَقُلْنَا: كَمْ بَيْنَ أَهْلِكِ وَبَيْنَ الْمَاءِ، قَالَتْ: يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، فَقُلْنَا: انْطَلِقِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: وَمَا رَسُولُ اللَّهِ فَلَمْ نُمَلِّكْهَا مِنْ أَمْرِهَا حَتَّى اسْتَقْبَلْنَا بِهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثَتْهُ بِمِثْلِ الَّذِي حَدَّثَتْنَا غَيْرَ أَنَّهَا حَدَّثَتْهُ، أَنَّهَا مُؤْتِمَةٌ فَأَمَرَ بِمَزَادَتَيْهَا فَمَسَحَ فِي الْعَزْلَاوَيْنِ فَشَرِبْنَا عِطَاشًا أَرْبَعِينَ رَجُلًا حَتَّى رَوِينَا فَمَلَأْنَا كُلَّ قِرْبَةٍ مَعَنَا وَإِدَاوَةٍ غَيْرَ، أَنَّهُ لَمْ نَسْقِ بَعِيرًا وَهِيَ تَكَادُ تَنِضُّ مِنَ الْمِلْءِ ثُمَّ، قَالَ: هَاتُوا مَا عِنْدَكُمْ فَجُمِعَ لَهَا مِنَ الْكِسَرِ وَالتَّمْرِ حَتَّى أَتَتْ أَهْلَهَا، قَالَتْ: لَقِيتُ أَسْحَرَ النَّاسِ أَوْ هُوَ نَبِيٌّ كَمَا زَعَمُوا فَهَدَى اللَّهُ ذَاكَ الصِّرْمَ بِتِلْكَ الْمَرْأَةِ فَأَسْلَمَتْ وَأَسْلَمُوا".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے سلم بن زریر نے بیان کیا، انہوں نے ابورجاء سے سنا کہ ہم سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، رات بھر سب لوگ چلتے رہے جب صبح کا وقت قریب ہوا تو پڑاؤ کیا (چونکہ ہم تھکے ہوئے تھے) اس لیے سب لوگ اتنی گہری نیند سو گئے کہ سورج پوری طرح نکل آیا۔ سب سے پہلے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جاگے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو، جب آپ سوتے ہوتے تو جگاتے نہیں تھے تاآنکہ آپ خود ہی جاگتے، پھر عمر رضی اللہ عنہ بھی جاگ گئے۔ آخر ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے سر مبارک کے قریب بیٹھ گئے اور بلند آواز سے اللہ اکبر کہنے لگے۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جاگ گئے اور وہاں سے کوچ کا حکم دے دیا۔ (پھر کچھ فاصلے پر تشریف لائے) اور یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور آپ نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ ایک شخص ہم سے دور کونے میں بیٹھا رہا۔ اس نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اے فلاں! ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے تجھے کس چیز نے روکا؟ اس نے عرض کیا کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ پاک مٹی سے تیمم کر لو (پھر اس نے بھی تیمم کے بعد) نماز پڑھی۔ عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چند سواروں کے ساتھ آگے بھیج دیا۔ (تاکہ پانی تلاش کریں کیونکہ) ہمیں سخت پیاس لگی ہوئی تھی، اب ہم اسی حالت میں چل رہے تھے کہ ہمیں ایک عورت ملی جو دو مشکوں کے درمیان (سواری پر) اپنے پاؤں لٹکائے ہوئے جا رہی تھی۔ ہم نے اس سے کہا کہ پانی کہاں ملتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یہاں پانی نہیں ہے۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ تمہارے گھر سے پانی کتنے فاصلے پر ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ایک دن ایک رات کا فاصلہ ہے، ہم نے اس سے کہا کہ اچھا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چلو، وہ بولی رسول اللہ کے کیا معنی ہیں؟ عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، آخر ہم اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے، اس نے آپ سے بھی وہی کہا جو ہم سے کہہ چکی تھی۔ ہاں اتنا اور کہا کہ وہ یتیم بچوں کی ماں ہے (اس لیے واجب الرحم ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اس کے دونوں مشکیزوں کو اتارا گیا اور آپ نے ان کے دہانوں پر دست مبارک پھیرا۔ ہم چالیس پیاسے آدمیوں نے اس میں سے خوب سیراب ہو کر پیا اور اپنے تمام مشکیزے اور بالٹیاں بھی بھر لیں صرف ہم نے اونٹوں کو پانی نہیں پلایا، اس کے باوجود اس کی مشکیں پانی سے اتنی بھری ہوئی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا ابھی بہہ پڑیں گی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے (کھانے کی چیزوں میں سے) میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ اس عورت کے لیے روٹی کے ٹکڑے اور کھجوریں لا کر جمع کر دیں گئیں۔ پھر جب وہ اپنے قبیلے میں آئی تو اپنے آدمیوں سے اس نے کہا کہ آج میں سب سے بڑے جادوگر سے مل کر آئی ہوں یا پھر جیسا کہ (اس کے ماننے والے) لوگ کہتے ہیں، وہ واقعی نبی ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس کے قبیلے کو اسی عورت کی وجہ سے ہدایت دی، وہ خود بھی اسلام لائی اور تمام قبیلے والوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔
Narrated `Imran bin Husain: That they were with the Prophet on a journey. They travelled the whole night, and when dawn approached, they took a rest and sleep overwhelmed them till the sun rose high in the sky. The first to get up was Abu Bakr. Allah's Apostles used not to be awakened from his sleep, but he would wake up by himself. `Umar woke up and then Abu Bakr sat by the side of the Prophet's head and started saying: Allahu-Akbar raising his voice till the Prophet woke up, (and after traveling for a while) he dismounted and led us in the morning prayer. A man amongst the people failed to join us in the prayer. When the Prophet had finished the prayer, he asked (the man), "O so-and-so! What prevented you from offering the prayer with us?" He replied, "I am Junub," Alllah's Apostle ordered him to perform Tayammam with clean earth. The man then offered the prayer. Allah's Apostle ordered me and a few others to go ahead of him. We had become very thirsty. While we were on our way (looking for water), we came across a lady (riding an animal), hanging her legs between two water-skins. We asked her, "Where can we get water?" She replied, "Oh ! There is no water." We asked, "how far is your house from the water?" She replied, "A distance of a day and a night travel." We said, "Come on to Allah's Apostle, "She asked, "What is Allah's Apostle ?" So we brought her to Allah's Apostle against her will, and she told him what she had told us before and added that she was the mother of orphans. So the Prophet ordered that her two water-skins be brought and he rubbed the mouths of the water-skins. As we were thirsty, we drank till we quenched our thirst and we were forty men. We also filled all our waterskins and other utensils with water, but we did not water the camels. The waterskin was so full that it was almost about to burst. The Prophet then said, "Bring what (foodstuff) you have." So some dates and pieces of bread were collected for the lady, and when she went to her people, she said, "I have met either the greatest magician or a prophet as the people claim." So Allah guided the people of that village through that lady. She embraced Islam and they all embraced Islam.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 771
(مرفوع) حدثني محمد بن بشار، حدثنا ابن ابي عدي، عن سعيد، عن قتادة، عن انس رضي الله عنه، قال:" اتي النبي صلى الله عليه وسلم بإناء وهو بالزوراء فوضع يده في الإناء فجعل الماء ينبع من بين اصابعه فتوضا القوم، قال قتادة: قلت لانس: كم كنتم؟، قال: ثلاث مائة او زهاء ثلاث مائة".(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِنَاءٍ وَهُوَ بِالزَّوْرَاءِ فَوَضَعَ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ فَجَعَلَ الْمَاءُ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ، قَالَ قَتَادَةُ: قُلْتُ لِأَنَسٍ: كَمْ كُنْتُمْ؟، قَالَ: ثَلَاثَ مِائَةٍ أَوْ زُهَاءَ ثَلَاثِ مِائَةٍ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی عروبہ نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک برتن حاضر کیا گیا (پانی کا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت (مدینہ کے نزدیک) مقام زوراء میں تشریف رکھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برتن میں ہاتھ رکھا تو اس میں سے پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان سے پھوٹنے لگا اور اسی پانی سے پوری جماعت نے وضو کیا۔ قتادہ نے کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ لوگ کتنی تعداد میں تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ تین سو رہے ہوں گے یا تین سو کے قریب رہے ہوں گے۔
Narrated Anas: A bowl of water was brought to the Prophet while he was at Az-Zawra. He placed his hand in it and the water started flowing among his fingers. All the people performed ablution (with that water). Qatada asked Anas, "How many people were you?" Anas replied, "Three hundred or nearly three hundred."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 772
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، عن انس بن مالك رضي الله عنه انه، قال:" رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم وحانت صلاة العصر فالتمس الوضوء فلم يجدوه، فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بوضوء فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده في ذلك الإناء، فامر الناس ان يتوضئوا منه فرايت الماء ينبع من تحت اصابعه فتوضا الناس حتى توضئوا من عند آخرهم".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَانَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ فَالْتُمِسَ الْوَضُوءُ فَلَمْ يَجِدُوهُ، فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَضُوءٍ فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ فِي ذَلِكَ الْإِنَاءِ، فَأَمَرَ النَّاسَ أَنْ يَتَوَضَّئُوا مِنْهُ فَرَأَيْتُ الْمَاءَ يَنْبُعُ مِنْ تَحْتِ أَصَابِعِهِ فَتَوَضَّأَ النَّاسُ حَتَّى تَوَضَّئُوا مِنْ عِنْدِ آخِرِهِمْ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے اسحٰق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ عصر کی نماز کا وقت ہو گیا تھا، اور لوگ وضو کا پانی تلاش کر رہے تھے لیکن پانی کا کہیں پتہ نہیں تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (ایک برتن کے اندر) وضو کا پانی لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس برتن میں رکھا اور لوگوں سے فرمایا کہ اسی پانی سے وضو کریں۔ میں نے دیکھا کہ پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے نیچے سے ابل رہا تھا چنانچہ لوگوں نے وضو کیا یہاں تک کہ ہر شخص نے وضو کر لیا۔
Narrated Anas bin Malik: I saw Allah's Apostle at the 'time when the `Asr prayer was due. Then the people were searching for water for ablution but they could not find any. Then some water was brought to Allah's Apostle and he placed his hand in the pot and ordered the people to perform the ablution with the water. I saw water flowing from underneath his fingers and the people started performing the ablution till all of them did it.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 773
(مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن مبارك، حدثنا حزم، قال: سمعت الحسن، قال: حدثنا انس بن مالك رضي الله عنه، قال: خرج النبي صلى الله عليه وسلم في بعض مخارجه ومعه ناس من اصحابه فانطلقوا يسيرون، فحضرت الصلاة فلم يجدوا ماء يتوضئون فانطلق رجل من القوم فجاء بقدح من ماء يسير فاخذه النبي صلى الله عليه وسلم فتوضا ثم مد اصابعه الاربع على القدح ثم، قال:" قوموا فتوضئوا فتوضا القوم حتى بلغوا فيما يريدون من الوضوء وكانوا سبعين او نحوه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُبَارَكٍ، حَدَّثَنَا حَزْمٌ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ مَخَارِجِهِ وَمَعَهُ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ فَانْطَلَقُوا يَسِيرُونَ، فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلَمْ يَجِدُوا مَاءً يَتَوَضَّئُونَ فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ فَجَاءَ بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ يَسِيرٍ فَأَخَذَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ مَدَّ أَصَابِعَهُ الْأَرْبَعَ عَلَى الْقَدَحِ ثُمَّ، قَالَ:" قُومُوا فَتَوَضَّئُوا فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ حَتَّى بَلَغُوا فِيمَا يُرِيدُونَ مِنَ الْوَضُوءِ وَكَانُوا سَبْعِينَ أَوْ نَحْوَهُ".
ہم سے عبدالرحمٰن بن مبارک نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حزم بن مہران نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے امام حسن بصری سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہم سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر میں تھے اور آپ کے ساتھ کچھ صحابہ کرام بھی تھے، چلتے چلتے نماز کا وقت ہو گیا تو وضو کے لیے کہیں پانی نہیں ملا۔ آخر جماعت میں سے ایک صاحب اٹھے اور ایک بڑے سے پیالے میں تھوڑا سا پانی لے کر حاضر خدمت ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لیا اور اس کے پانی سے وضو کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ پیالے پر رکھا اور فرمایا کہ آؤ وضو کرو، پوری جماعت نے وضو کیا اور تمام آداب و سنن کے ساتھ پوری طرح کر لیا۔ ہم تعداد میں ستر یا اسی کے لگ بھگ تھے۔
Narrated Anas bin Malik: The Prophet went out on one of his journeys with some of his companions. They went on walking till the time of the prayer became due. They could not find water to perform the ablution. One of them went away and brought a little amount of water in a pot. The Prophet took it and performed the ablution, and then stretched his four fingers on to the pot and said (to the people), "Get up to perform the ablution." They started performing the ablution till all of them did it, and they were seventy or so persons.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 774
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن منير، سمع يزيد، اخبرنا حميد، عن انس رضي الله عنه، قال:" حضرت الصلاة فقام من كان قريب الدار من المسجد يتوضا وبقي قوم فاتي النبي صلى الله عليه وسلم بمخضب من حجارة فيه ماء فوضع كفه فصغر المخضب ان يبسط فيه كفه فضم اصابعه فوضعها في المخضب فتوضا القوم كلهم جميعا، قلت: كم كانوا؟ قال: ثمانون رجلا".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ، سَمِعَ يَزِيدَ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَقَامَ مَنْ كَانَ قَرِيبَ الدَّارِ مِنَ الْمَسْجِدِ يَتَوَضَّأُ وَبَقِيَ قَوْمٌ فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِخْضَبٍ مِنْ حِجَارَةٍ فِيهِ مَاءٌ فَوَضَعَ كَفَّهُ فَصَغُرَ الْمِخْضَبُ أَنْ يَبْسُطَ فِيهِ كَفَّهُ فَضَمَّ أَصَابِعَهُ فَوَضَعَهَا فِي الْمِخْضَبِ فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ جَمِيعًا، قُلْتُ: كَمْ كَانُوا؟ قَالَ: ثَمَانُونَ رَجُلًا".
ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، انہوں نے یزید بن ہارون سے سنا، کہا کہ مجھ کو حمید نے خبر دی اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نماز کا وقت ہو چکا تھا، مسجد نبوی سے جن کے گھر قریب تھے انہوں نے تو وضو کر لیا لیکن بہت سے لوگ باقی رہ گئے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پتھر کی بنی ہوئی ایک لگن لائی گئی۔ اس میں پانی تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس پر رکھا لیکن اس کا منہ اتنا تنگ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اندر اپنا ہاتھ پھیلا کر نہیں رکھ سکتے تھے، چنانچہ آپ نے انگلیاں ملا لیں اور لگن کے اندر ہاتھ کو ڈال دیا پھر (اسی پانی سے) جتنے لوگ باقی رہ گئے تھے سب نے وضو کیا۔ میں نے پوچھا کہ آپ حضرات کی تعداد کیا تھی؟ انس رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ اسّی آدمی تھے۔
Narrated Humaid: Anas bin Malik said, "Once the time of the prayer became due and the people whose houses were close to the Mosque went to their houses to perform ablution, while the others remained (sitting there). A stone pot containing water was brought to the Prophet, who wanted to put his hand in it, but It was too small for him to spread his hand in it, and so he had to bring his fingers together before putting his hand in the pot. Then all the people performed the ablution (with that water)." I asked Anas, "How many persons were they." He replied, "There were eighty men."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 775
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد العزيز بن مسلم، حدثنا حصين، عن سالم بن ابي الجعد، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال:" عطش الناس يوم الحديبية والنبي صلى الله عليه وسلم بين يديه ركوة فتوضا، فجهش الناس نحوه، فقال: ما لكم، قالوا: ليس عندنا ماء نتوضا ولا نشرب إلا ما بين يديك فوضع يده في الركوة فجعل الماء يثور بين اصابعه كامثال العيون فشربنا وتوضانا، قلت: كم كنتم؟ قال، لو كنا مائة الف لكفانا كنا خمس عشرة مائة".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" عَطِشَ النَّاسُ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ يَدَيْهِ رِكْوَةٌ فَتَوَضَّأَ، فَجَهِشَ النَّاسُ نَحْوَهُ، فَقَالَ: مَا لَكُمْ، قَالُوا: لَيْسَ عِنْدَنَا مَاءٌ نَتَوَضَّأُ وَلَا نَشْرَبُ إِلَّا مَا بَيْنَ يَدَيْكَ فَوَضَعَ يَدَهُ فِي الرِّكْوَةِ فَجَعَلَ الْمَاءُ يَثُورُ بَيْنَ أَصَابِعِهِ كَأَمْثَالِ الْعُيُونِ فَشَرِبْنَا وَتَوَضَّأْنَا، قُلْتُ: كَمْ كُنْتُمْ؟ قَالَ، لَوْ كُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَكَفَانَا كُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے بیان کیا، ان سے حصین نے بیان کیا، ان سے سالم بن ابی الجعد نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ صلح حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی ہوئی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک چھاگل رکھا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا کہ جو پانی آپ کے سامنے ہے، اس پانی کے سوا نہ تو ہمارے پاس وضو کے لیے کوئی دوسرا پانی ہے اور نہ پینے کے لیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ چھاگل میں رکھ دیا اور پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان میں سے چشمے کی طرح پھوٹنے لگا اور ہم سب لوگوں نے اس پانی کو پیا بھی اور اس سے وضو بھی کیا۔ میں نے پوچھا آپ لوگ کتنی تعداد میں تھے؟ کہا کہ اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی کافی ہوتا۔ ویسے ہماری تعداد اس وقت پندرہ سو تھی۔
Narrated Salim bin Abi Aj-Jad: Jabir bin `Abdullah said, "The people became very thirsty on the day of Al-Hudaibiya (Treaty). A small pot containing some water was in front of the Prophet and when he had finished the ablution, the people rushed towards him. He asked, 'What is wrong with you?' They replied, 'We have no water either for performing ablution or for drinking except what is present in front of you.' So he placed his hand in that pot and the water started flowing among his fingers like springs. We all drank and performed ablution (from it)." I asked Jabir, "How many were you?" he replied, "Even if we had been one-hundred-thousand, it would have been sufficient for us, but we were fifteen-hundred."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 776
(مرفوع) حدثنا مالك بن إسماعيل، حدثنا إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن البراء رضي الله عنه، قال:" كنا يوم الحديبية اربع عشرة مائة والحديبية بئر فنزحناها حتى لم نترك فيها قطرة، فجلس النبي صلى الله عليه وسلم على شفير البئر فدعا بماء فمضمض ومج في البئر فمكثنا غير بعيد، ثم استقينا حتى روينا وروت او صدرت ركائبنا".(مرفوع) حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنَّا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً وَالْحُدَيْبِيَةُ بِئْرٌ فَنَزَحْنَاهَا حَتَّى لَمْ نَتْرُكْ فِيهَا قَطْرَةً، فَجَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَفِيرِ الْبِئْرِ فَدَعَا بِمَاءٍ فَمَضْمَضَ وَمَجَّ فِي الْبِئْرِ فَمَكَثْنَا غَيْرَ بَعِيدٍ، ثُمَّ اسْتَقَيْنَا حَتَّى رَوِينَا وَرَوَتْ أَوْ صَدَرَتْ رَكَائِبُنَا".
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحٰق نے، ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ صلح حدیبیہ کے دن ہم چودہ سو کی تعداد میں تھے۔ حدیبیہ ایک کنویں کا نام ہے ہم نے اس سے اتنا پانی کھینچا کہ اس میں ایک قطرہ بھی باقی نہ رہا (جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ تشریف لائے) اور کنویں کے کنارے بیٹھ کر پانی کی دعا کی اور اس پانی سے کلی کی اور کلی کا پانی کنویں میں ڈال دیا۔ ابھی تھوڑی دیر بھی نہیں ہوئی تھی کہ کنواں پھر پانی سے بھر گیا۔ ہم بھی اس سے خوب سیر ہوئے اور ہمارے اونٹ بھی سیراب ہو گئے یا پانی پی کر لوٹے۔
Narrated Al-Bara: We were one-thousand-and-four-hundred persons on the day of Al-Hudaibiya (Treaty), and (at) Al- Hudaibiya (there) was a well. We drew out its water not leaving even a single drop. The Prophet sat at the edge of the well and asked for some water with which he rinsed his mouth and then he threw it out into the well. We stayed for a short while and then drew water from the well and quenched our thirst, and even our riding animals drank water to their satisfaction.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 777
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، انه سمع انس بن مالك، يقول: قال ابو طلحة: لام سليم لقد سمعت صوت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضعيفا اعرف فيه الجوع فهل عندك من شيء، قالت: نعم، فاخرجت اقراصا من شعير، ثم اخرجت خمارا لها فلفت الخبز ببعضه ثم دسته تحت يدي ولاثتني ببعضه، ثم ارسلتني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فذهبت به فوجدت رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد ومعه الناس فقمت عليهم، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اارسلك ابو طلحة، فقلت: نعم، قال: بطعام، فقلت: نعم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لمن معه قوموا فانطلق وانطلقت بين ايديهم حتى جئت ابا طلحة فاخبرته، فقال ابو طلحة: يا ام سليم قد جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس وليس عندنا ما نطعمهم، فقالت: الله ورسوله اعلم فانطلق ابو طلحة حتى لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم فاقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو طلحة معه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هلمي يا ام سليم ما عندك فاتت بذلك الخبز فامر به رسول الله صلى الله عليه وسلم ففت وعصرت ام سليم عكة فادمته، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فيه ما شاء الله ان يقول، ثم قال: ائذن لعشرة فاذن لهم فاكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا، ثم قال: ائذن لعشرة فاذن لهم فاكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا، ثم قال: ائذن لعشرة فاذن لهم فاكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا، ثم قال: ائذن لعشرة فاكل القوم كلهم وشبعوا والقوم سبعون او ثمانون رجلا".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: قَالَ أَبُو طَلْحَةَ: لِأُمِّ سُلَيْمٍ لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعِيفًا أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْءٍ، قَالَتْ: نَعَمْ، فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ، ثُمَّ أَخْرَجَتْ خِمَارًا لَهَا فَلَفَّتِ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ ثُمَّ دَسَّتْهُ تَحْتَ يَدِي وَلَاثَتْنِي بِبَعْضِهِ، ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَذَهَبْتُ بِهِ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَأَرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ، فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: بِطَعَامٍ، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِمَنْ مَعَهُ قُومُوا فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ حَتَّى جِئْتُ أَبَا طَلْحَةَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ وَلَيْسَ عِنْدَنَا مَا نُطْعِمُهُمْ، فَقَالَتْ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّى لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وأَبُو طَلْحَةَ مَعَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلُمِّي يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا عِنْدَكِ فَأَتَتْ بِذَلِكَ الْخُبْزِ فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفُتَّ وَعَصَرَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ عُكَّةً فَأَدَمَتْهُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فِيهِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَكَلَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ وَشَبِعُوا وَالْقَوْمُ سَبْعُونَ أَوْ ثَمَانُونَ رَجُلًا".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو مالک نے خبر دی، انہیں اسحٰق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے اور انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے (میری والدہ) ام سلیم رضی اللہ عنہما سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی تو آپ کی آواز میں بہت ضعف معلوم ہوا۔ میرا خیال ہے کہ آپ بہت بھوکے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کچھ کھانا ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں، چنانچہ انہوں نے جَو کی چند روٹیاں نکالیں، پھر اپنی اوڑھنی نکالی او اس میں روٹیوں کو لپیٹ کر میرے ہاتھ میں چھپا دیا اور اس اوڑھنی کا دوسرا حصہ میرے بدن پر باندھ دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مجھے بھیجا۔ میں جو گیا تو آپ مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔ آپ کے ساتھ بہت سے صحابہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ میں آپ کے پاس کھڑا ہو گیا تو آپ نے فرمایا کیا ابوطلحہ نے تمہیں بھیجا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ نے دریافت فرمایا، کچھ کھانا دے کر؟ میں نے عرض کیا جی ہاں، جو صحابہ آپ کے ساتھ اس وقت موجود تھے، ان سب سے آپ نے فرمایا کہ چلو اٹھو، آپ تشریف لانے لگے اور میں آپ کے آگے آگے لپک رہا تھا اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچ کر میں نے انہیں خبر دی۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بولے، ام سلیم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو بہت سے لوگوں کو ساتھ لائے ہیں ہمارے پاس اتنا کھانا کہاں ہے کہ سب کو کھلایا جا سکے؟ ام سلیم رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں (ہم فکر کیوں کریں؟) خیر ابوطلحہ آگے بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ بھی چل رہے تھے۔ ام سلیم نے وہی روٹی لا کر آپ کے سامنے رکھ دی، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے روٹیوں کا چورا کر دیا گیا، ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کپی نچوڑ کر اس پر کچھ گھی ڈال دیا، اور اس طرح سالن ہو گیا، آپ نے اس کے بعد اس پر دعا کی جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ پھر فرمایا دس آدمیوں کو بلا لو، انہوں نے ایسا ہی کیا، ان سب نے روٹی پیٹ بھر کر کھائی اور جب یہ لوگ باہر گئے تو آپ نے فرمایا کہ پھر دس آدمیوں کو بلا لو۔ چنانچہ دس آدمیوں کو بلایا گیا، انہوں نے بھی پیٹ بھر کر کھایا، جب یہ لوگ باہر گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر دس ہی آدمیوں کو اندر بلا لو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور انہوں نے بھی پیٹ بھر کر کھایا۔ جب وہ باہر گئے تو آپ نے فرمایا کہ پھر دس آدمیوں کو دعوت دے دو۔ اس طرح سب لوگوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔ ان لوگوں کی تعداد ستر یا اسی تھی۔
Narrated Anas bin Malik: Abu Talha said to Um Sulaim, "I have noticed feebleness in the voice of Allah's Apostle which I think, is caused by hunger. Have you got any food?" She said, "Yes." She brought out some loaves of barley and took out a veil belonging to her, and wrapped the bread in part of it and put it under my arm and wrapped part of the veil round me and sent me to Allah's Apostle. I went carrying it and found Allah's Apostle in the Mosque sitting with some people. When I stood there, Allah's Apostle asked, "Has Abu Talha sent you?" I said, "Yes". He asked, "With some food? I said, "Yes" Allah's Apostle then said to the men around him, "Get up!" He set out (accompanied by them) and I went ahead of them till I reached Abu Talha and told him (of the Prophet's visit). Abu Talha said, "O Um Sulaim! Allah's Apostle is coming with the people and we have no food to feed them." She said, "Allah and His Apostle know better." So Abu Talha went out to receive Allah's Apostle. Allah's Apostle came along with Abu Talha. Allah's Apostle said, "O Um Sulaim! Bring whatever you have." She brought the bread which Allah's Apostle ordered to be broken into pieces. Um Sulaim poured on them some butter from an oilskin. Then Allah's Apostle recited what Allah wished him to recite, and then said, "Let ten persons come (to share the meal)." Ten persons were admitted, ate their fill and went out. Then he again said, "Let another ten do the same." They were admitted, ate their fill and went out. Then he again said, '"'Let another ten persons (do the same.)" They were admitted, ate their fill and went out. Then he said, "Let another ten persons come." In short, all of them ate their fill, and they were seventy or eighty men.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 778
(مرفوع) حدثني محمد بن المثنى، حدثنا ابو احمد الزبيري، حدثنا إسرائيل، عن منصور، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال: كنا نعد الآيات بركة وانتم تعدونها تخويفا، كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر فقل الماء، فقال:" اطلبوا فضلة من ماء فجاءوا بإناء فيه ماء قليل فادخل يده في الإناء، ثم قال: حي على الطهور المبارك والبركة من الله فلقد رايت الماء ينبع من بين اصابع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولقد كنا نسمع تسبيح الطعام وهو يؤكل".(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا نَعُدُّ الْآيَاتِ بَرَكَةً وَأَنْتُمْ تَعُدُّونَهَا تَخْوِيفًا، كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَقَلَّ الْمَاءُ، فَقَالَ:" اطْلُبُوا فَضْلَةً مِنْ مَاءٍ فَجَاءُوا بِإِنَاءٍ فِيهِ مَاءٌ قَلِيلٌ فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ، ثُمَّ قَالَ: حَيَّ عَلَى الطَّهُورِ الْمُبَارَكِ وَالْبَرَكَةُ مِنَ اللَّهِ فَلَقَدْ رَأَيْتُ الْمَاءَ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَقَدْ كُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِيحَ الطَّعَامِ وَهُوَ يُؤْكَلُ".
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواحمد زبیری نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نے ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ معجزات کو ہم تو باعث برکت سمجھتے تھے اور تم لوگ ان سے ڈرتے ہو۔ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے اور پانی تقریباً ختم ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کچھ بھی پانی بچ گیا ہو اسے تلاش کرو۔ چنانچہ لوگ ایک برتن میں تھوڑا سا پانی لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ برتن میں ڈال دیا اور فرمایا: برکت والا پانی لو اور برکت تو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان میں سے پانی فوارے کی طرح پھوٹ رہا تھا اور ہم تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کھاتے وقت کھانے کے تسبیح سنتے تھے۔
Narrated `Abdullah: We used to consider miracles as Allah's Blessings, but you people consider them to be a warning. Once we were with Allah's Apostle on a journey, and we ran short of water. He said, "Bring the water remaining with you." The people brought a utensil containing a little water. He placed his hand in it and said, "Come to the blessed water, and the Blessing is from Allah." I saw the water flowing from among the fingers of Allah's Apostle , and no doubt, we heard the meal glorifying Allah, when it was being eaten (by him).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 779
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا زكرياء، قال: حدثني عامر، قال: حدثني جابر رضي الله عنه" ان اباه توفي وعليه دين فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: إن ابي ترك عليه دينا وليس عندي إلا ما يخرج نخله ولا يبلغ ما يخرج سنين ما عليه فانطلق معي لكي لا يفحش علي الغرماء، فمشى حول بيدر من بيادر التمر فدعا ثم آخر ثم جلس عليه، فقال: انزعوه فاوفاهم الذي لهم وبقي مثل ما اعطاهم".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَامِرٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي جَابِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ" أَنَّ أَبَاهُ تُوُفِّيَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنَّ أَبِي تَرَكَ عَلَيْهِ دَيْنًا وَلَيْسَ عِنْدِي إِلَّا مَا يُخْرِجُ نَخْلُهُ وَلَا يَبْلُغُ مَا يُخْرِجُ سِنِينَ مَا عَلَيْهِ فَانْطَلِقْ مَعِي لِكَيْ لَا يُفْحِشَ عَلَيَّ الْغُرَمَاءُ، فَمَشَى حَوْلَ بَيْدَرٍ مِنْ بَيَادِرِ التَّمْرِ فَدَعَا ثَمَّ آخَرَ ثُمَّ جَلَسَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: انْزِعُوهُ فَأَوْفَاهُمُ الَّذِي لَهُمْ وَبَقِيَ مِثْلُ مَا أَعْطَاهُمْ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے عامر نے، کہا کہ مجھ سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان کے والد (عبداللہ بن عمرو بن حرام، جنگ احد میں) شہید ہو گئے تھے۔ اور وہ مقروض تھے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ میرے والد اپنے اوپر قرض چھوڑ گئے۔ ادھر میرے پاس سوا اس پیداوار کے جو کھجوروں سے ہو گی اور کچھ نہیں ہے اور اس کی پیداوار سے تو برسوں میں قرض ادا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے آپ میرے ساتھ تشریف لے چلیے تاکہ قرض خواہ آپ کو دیکھ کر زیادہ منہ نہ پھاڑیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے (لیکن وہ نہیں مانے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے جو ڈھیر لگے ہوئے تھے پہلے ان میں سے ایک کے چاروں طرف چلے اور دعا کی۔ اسی طرح دوسرے ڈھیر کے بھی۔ پھر آپ اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ کھجوریں نکال کر انہیں دو۔ چنانچہ سارا قرض ادا ہو گیا اور جتنی کھجوریں قرض میں دی تھیں اتنی ہی بچ گئیں۔
Narrated Jabir: My father had died in debt. So I came to the Prophet and said, "My father (died) leaving unpaid debts, and I have nothing except the yield of his date palms; and their yield for many years will not cover his debts. So please come with me, so that the creditors may not misbehave with me." The Prophet went round one of the heaps of dates and invoked (Allah), and then did the same with another heap and sat on it and said, "Measure (for them)." He paid them their rights and what remained was as much as had been paid to them.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 780