1. اس آیت ”وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تم پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں ....“ (سورۃ آل عمران: 7) کے بیان میں۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی ”وہی اللہ تعالیٰ ہے اس نے تم پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں پس جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لیے، حالانکہ ان کی حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا اور پختہ و مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقل مند ہی حاصل کرتے ہیں۔“ پھر فرمایا: ”جب تم یہ ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیتوں کے پیچھے لگتے ہیں تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے (قرآن میں) انہی لوگوں کا ذکر ہے لہٰذا ان کی صحبت سے بچتے رہو۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان سے دو عورتوں کا جھگڑا بیان کیا گیا جو کہ ایک گھر یا کوٹھڑی میں بیٹھی موزہ سی رہی تھیں، اتنے میں (ان دونوں میں سے) ایک باہر نکلی اس کی ہتھیلی میں موزہ سینے کی سوئی (آر) چھبو دی گئی تھی اس نے دوسری عورت پر دعویٰ کیا (جو اس کے ساتھ تھی) جب یہ مقدمہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس لایا گیا تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”اگر لوگوں کو دعویٰ کرنے کی بنا پر ان کے حق میں فیصلہ کر دیا جاتا (جو دعویٰ کرتے) تو کتنوں کے خون اور مال تلف ہو جاتے۔“ تم اس دوسری عورت کو (مدعی علیہا) کو اللہ تعالیٰ سے ڈراؤ اور یہ آیت سناؤ ”بیشک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر فروخت کر دیتے ہیں ....“ جب لوگوں نے ایسا کیا تو (وہ ڈر گئی اور) اس نے جرم کا اقرار کیا تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”قسم مدعی علیہ پر ہے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ((حسبنا اﷲ ونعم الوکیل)) سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت کہا تھا جب وہ آگ میں ڈالے گئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ کلمہ اس وقت کہا تھا جب لوگوں نے ان سے کہا: ”قریش کے کافروں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کے لیے بہت بڑا لشکر جمع کیا ہے ان سے ڈرتے رہنا۔ یہ خبر سن کر صحابہ رضی اللہ عنہم کا ایمان بڑھ گیا اور انھوں نے یہی کہا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے اور وہ اچھا کام کرنے والا ہے۔“
4. اللہ تعالیٰ کا قول ”اور یہ بھی یقین ہے کہ تمہیں ان لوگوں کی جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے اور مشرکوں کی بہت سے دکھ دینے والی باتیں بھی سننا پڑیں گی“ (سورۃ آل عمران: 186)۔
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر (شہر) فدک کی (بنی ہوئی) چادر پڑی تھی اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی حارث بن خزرج کے محلہ میں، سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کو تشریف لے جا رہے تھے۔ یہ واقعہ جنگ بدر سے پہلے کا ہے۔ راستے میں ایک مجلس پر سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول (مشہور منافق) بیٹھا تھا، اس وقت تک عبداللہ بن ابی (ظاہر میں بھی) مسلمان نہیں ہوا تھا۔ اس مجلس میں ہر قسم کے لوگ تھے کہ کچھ مسلمان کچھ مشرک بت پرست اور کچھ یہود۔ اس مجلس میں سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ (مشہور صحابی) بھی موجود تھے۔ جب گدھے کے پاؤں کی گرد مجلس والوں پر پڑنے لگی (یعنی سواری قریب آ پہنچی) تو عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک چادر سے ڈھک سے لی اور کہا کہ ہم پر گرد مت اڑاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور پھر ٹھہر گئے اور سواری سے اتر پڑے اور ان کو قرآن پڑھ کر سنانے لگے اور (ان مجلس والوں کو) اللہ کی طرف بلایا۔ اس وقت عبداللہ بن ابی نے کہا اے شخص! اگرچہ تیرا کلام بہت اچھا ہے، اگر یہ سچ ہے تو بھی ہماری مجلسوں میں مت سنا۔ اپنے گھر کو جا، وہاں جو تیرے پاس آئے اس کو یہ قصے سنا۔ عبداللہ بن ابی رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! نہیں بلکہ آپ ہماری ہر ایک مجلس میں ضرور آیا خطاکار ہمیں یہ بہت اچھا لگتا ہے۔ اس بات پر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں میں گالم گلوچ ہونے لگی اور قریب تھا کہ لڑائی شروع ہو جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کو چپ کرانے لگے، آخر کار وہ سب خاموش ہو گئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاں گئے اور ان سے فرمایا: ”اے سعد! تو نے ابوحباب کی باتیں نہیں سنیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابوحباب سے عبداللہ بن ابی مراد تھا، اس نے ایسا ایسا کہا ہے۔“ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ اسے معاف کر دیجئیے اور اس سے درگزر فرمائیے اور قسم اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب نازل کی ہے کہ اللہ کی جانب سے جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا ہے وہ برحق اور سچ ہے۔ (وجہ یہ ہے کہ) اس بستی کے لوگوں نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے) یہ فیصلہ کیا تھا کہ عبداللہ بن ابی کو سرداری کا تاج پہنائیں گے اور اس کو اپنا والی اور رئیس بنائیں گے۔ پس جب اللہ نے یہ بات (عبداللہ بن ابی کا سردار ہونا) نہ چاہی بوجہ اس حق کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا ہے تو اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قصور معاف کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کی عادت مبارکہ تھی کہ بت پرستوں اور یہودیوں کی ایسی ایسی ناشائستہ حرکات کو معاف کر دیا کرتے تھے جیسے کہ اللہ نے ان کو حکم فرمایا تھا: ”اور یقیناً تم بہت سی دل آزادی کی باتیں ان سے بھی سنو گے جنہیں تم سے پہلے کتاب مل چکی ہے اور ان سے بھی جو مشرک ہیں اور اگر تم صبر کرو تو یہ بڑے عزم و حوصلہ کی بات ہے۔“ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”بہت سے اہل کتاب تو دل ہی سے چاہتے ہیں کہ تمہیں ایمان (لے آنے) کے بعد پھر سے کافر بنا لیں، حسد کی راہ سے جو ان کے دلوں میں ہے۔“ آخرت آیت تک۔ اور ان کی ایذادہی پر صبر کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ نے ان سے لڑنے کا حکم دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر میں جنگ کی تو بڑے بڑے قریش کے رئیسوں کو اللہ نے قتل کرایا تو عبداللہ بن ابی ابن سلول نے اور جو اس کے ساتھ مشرک اور بت پرست تھے کہا کہ اب (تو اس دین میں شریک ہونے کا) موقع آن پہنچا (کہ اس کا غلبہ ہو گیا) تو اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کر لو۔ اس پر وہ سب (ظاہری طور پر) مسلمان ہوئے۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں چند منافق تھے جو بظاہر مسلمان ہو گئے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کو جاتے تو وہ (مدینہ میں) پیچھے رہ جاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساتھ نہ جانے پر خوش ہوتے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد سے لوٹ کر آتے تو وہ (طرح طرح) کے بہانے بناتے اور قسمیں کھاتے (کہ ان وجوہات کی وجہ سے ہم نہ جا سکے) اور ان کو ایسے کام پر تعریف ہونا پسند آتا جس کو انھوں نے نہ کیا ہوتا۔ پس یہ آیت انہی کے بارے میں نازل ہوئی کہ ”وہ لوگ جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انھوں نے نہیں کیا اس پر بھی ان کی تعریفیں کی جائیں ....۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا گیا ہر شخص ان نعمتوں پر جو اس کو ملی ہیں خوش ہے اور یہ بات بھی پسند کرتا ہے کہ جو کام اس نے نہیں کیا اس پر اس کی تعریف کی جائے اور اللہ نے فرمایا ہے کہ اس کو آخرت میں عذاب ہو گا، اگر یہ بات ہے تو ہم سب ضرور عذاب دیئے جائیں گے تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ تمہیں اس قصہ سے کیا مطلب؟ بیشک یہ اس وقت نازل ہوئی جب ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند یہودیوں کو بلایا اور ان سے دین کی کوئی بات دریافت فرمائی۔ انھوں نے اصلی بات کو چھپایا اور کوئی غلط بات بتا دی، پھر یہ سمجھے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک تعریف کے لائق ٹھہریں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات پوچھی ہم نے بتا دی اور اس (مکر اور اصلی بات کو چھپانے) سے بہت خوش ہوئے۔