سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا محاصرہ کیا اور ان کا کچھ نقصان نہ کیا (بلکہ الٹا مسلمانوں کا نقصان ہوا) آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم انشاءاللہ (اب) مدینہ کو لوٹ چلیں گے۔“ صحابہ رضی اللہ عنہم کو یہ شاق معلوم ہوا اور کہنے لگے کہ ہم بغیر فتح کیونکر لوٹ چلیں؟“ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم لوٹ جائیں گے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اچھا) کل صبح لڑو۔“ صبح ہوئی تو وہ سب لڑے اور زخمی ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کل انشاءاللہ ہم واپس چلیں گے۔“ اس وقت انھیں یہ بات اچھی معلوم ہوئی۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔
سیدنا سعد اور سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہما دونوں کہتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی اپنے اصلی باپ کے سوا جان بوجھ کر اور کسی کا بیٹا بنے تو اس پر جنت حرام ہے۔“
اور ایک روایت میں ہے کہ ان دونوں (راویوں) میں سے ایک (سیدنا سعد رضی اللہ عنہ) وہ ہیں کہ جنہوں نے اللہ کی راہ میں پہلا تیر چلایا اور دوسرے (سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ) وہ ہیں کہ جو ان لوگوں میں سے تئیسویں آدمی تھے جو طائف کے قلعہ سے اتر کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں ٹھہرے تھے جو کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اعرابی نے آ کر کہا کہ کیا تم اپنا وعدہ پورا نہ کرو گے جو تم نے مجھ سے کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”تیرے لیے ثواب عظیم کی بشارت ہے۔“(خوش ہو جا) وہ بولا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہی فرماتے رہتے ہیں کہ خوش ہو جا (میں اس بشارت کو اوڑھوں یا بچھاؤں؟) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوموسیٰ اور بلال رضی اللہ عنہما کے پاس غصہ کی حالت میں تشریف لائے اور فرمایا: ”اس اعرابی نے بشارت کو قبول نہیں کیا تم دونوں قبول کر لو۔“ وہ دونوں بولے کہ ہمیں قبول ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالے میں پانی منگوا کر اس میں اپنے دونوں ہاتھوں اور منہ کو دھویا اور اسی میں کلی کی پھر فرمایا: ”اس میں سے تم دونوں پیو اور اپنے منہ اور سینوں پر چھڑک لو اور خوش ہو۔“ ان دونوں نے لے لیا اور ایسا ہی کیا۔ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے پردہ کے پیچھے سے پکار کر کہا کہ کچھ اپنی ماں کے لیے بھی چھوڑ دو۔ انھوں نے کچھ پانی بچا کر انھیں بھی دے دیا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو جمع کر کے فرمایا: ”قریش کے لوگ ابھی دور جاہلیت اور قتل و قید کی مصیبتوں سے نکلے ہیں، تو میں چاہتا ہوں کہ انھیں کچھ مال غنیمت دے کر ان کی مدد اور دل جوئی کر دوں۔ تو کیا تم خوش نہیں ہو کہ لوگ دنیا لے جائیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھروں کی طرف لے جاؤ؟ انھوں نے جواب دیا ”جی ہاں ہم راضی ہیں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اور لوگ وادی کے اندر چلیں اور انصار پہاڑ کی گھاٹی پر چلیں تو میں بھی انصار کی وادی یا گھاٹی اختیار کروں گا۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بنی جذیمہ کی طرف روانہ کیا۔ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے انھیں اسلام کی طرف بلایا۔ وہ اچھی طرح یوں نہ کہہ سکے کہ ہم اسلام لائے بلکہ گھبراہٹ میں کہنے لگے کہ ہم نے اپنا دین بدل ڈالا۔ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ انھیں مارنے لگے اور بعض کو قید کر کے ہم میں سے ہر ایک کو ایک قیدی دے دیا۔ پھر ایک دن انھوں نے حکم دیا کہ ہر شخص اپنے اپنے قیدی کو مار ڈالے۔ میں نے کہا کہ میں تو اپنے قیدی کو ہرگز نہ ماروں گا اور نہ میرا کوئی ساتھی اپنے قیدی کو مارے گا۔ جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ قصہ بیان کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھا کر کہا: ”اے اللہ! میں خالد (رضی اللہ عنہ) کے فعل سے بری ہوں۔“ دو بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا۔
امیرالمؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور اس کا حاکم ایک انصاری کو بنایا اور سب کو اس کی فرمانبرداری کرنے کا حکم دیا۔ (راستے میں) اسے غصہ آیا تو کہنے لگا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں میری فرمانبرداری کرنے کا حکم نہیں دیا؟ وہ بولے کہ ہاں ضرور دیا ہے۔ وہ انصاری بولا کہ تم میرے لیے لکڑیاں جمع کرو۔ انھوں نے جمع کیں، پھر کہا کہ آگ سلگاؤ، انھوں نے آگ سلگائی، پھر اس نے کہا کہ تم سب اس میں کود جاؤ۔ انھوں نے گھسنے کا ارادہ کیا اور بعض ایک دوسرے کو روکنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم آگ (دوزخ) سے تو بھاگ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ہیں (اب اس میں کیونکر جل جائیں؟) یونہی سب جھگڑتے رہے کہ اس عرصہ میں آگ بجھ گئی اور اس (انصاری) کا غصہ جاتا رہا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو فرمایا: ”اگر وہ اس آگ میں چلے جاتے تو قیامت تک اس میں سے نہ نکلتے کیونکر اطاعت کرنا اچھے کاموں میں لازم ہے (گناہ کے کام میں امام کی فرمانبرداری ضروری نہیں)۔“
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اور سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف روانہ کیا اور ہر ایک کو یمن کے ایک ایک حصے پر حاکم مقرر کیا اور یمن کے دو حصے ہیں۔ پھر فرمایا: ”تم لوگوں پر آسانی کرنا، سختی نہ کرنا اور انھیں خوش رکھنا، دین سے نفرت نہ دلانا۔“ دونوں اپنے اپنے کام پر چلے گئے۔ (راوی ابوبردہ) کہتے ہیں کہ ان دونوں میں سے جو کوئی اپنے علاقے کا دورہ کرتے کرتے دوسرے ساتھی کے قریب آ جاتا تو ضرور ملاقات کر کے سلام کرتا تھا۔ ایک دفعہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ اپنی زمین میں گئے جو کہ ان کے ساتھی سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے قریب تھی، سیدنا معاذ بن جبل اپنے خچر پر سوار ہو کر سیدنا ابوموسیٰ کے پاس آئے، (رضی اللہ عنہ) وہ بیٹھے ہوئے تھے اور بہت سے لوگ ان کے پاس جمع تھے، وہاں ایک شخص کو دیکھا جس کے دونوں ہاتھ گردن سے بندھے ہوئے تھے۔ تو سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اے عبداللہ بن قیس! یہ کون ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ شخص اسلام لانے کے بعد پھر کافر ہو گیا ہے۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب تک یہ قتل نہ کیا جائے میں خچر پر سے ہرگز نہ اتروں گا۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ اسی لیے پکڑ کر لایا گیا ہے لہٰذا تم اتر آؤ۔ وہ بولے کہ میں تو اس قتل کیے جانے سے پہلے ہرگز نہ اتروں گا۔ پھر سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے حکم دے کر اسے قتل کروا دیا۔ تب وہ اترے اور کہا کہ اے عبداللہ! تم قرآن کی تلاوت کس طرح کرتے ہو؟ انھوں نے بتایا کہ میں تو تھوڑا تھوڑا ہر وقت پڑھتا رہتا ہوں۔ پھر انھوں نے پوچھا کہ اے معاذ! تم قرآن کی تلاوت کس طرح کرتے ہو؟ وہ بولے کہ میں اول شب سو جاتا ہوں پھر حسب معمول سو کر اٹھتا ہوں اور جس قدر اللہ کو منظور ہوتا ہے، پڑھ لیتا ہوں اور میں سونے کا بھی، عبادت کے برابر ثواب شمار کرتا ہوں۔
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یمن کی طرف بھیجا تو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شرابوں کے بارے میں دریافت کیا جو وہاں بنتی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”وہ کون کون سی شرابیں ہیں؟“ تو انھوں نے بتایا کہ شہد اور جو کی شرابیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نشہ پیدا کرنے والی چیز حرام ہے۔“
سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن کی طرف روانہ کیا۔ پھر ان کی جگہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور فرمایا: ”سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو لوگ گئے تھے ان سے کہنا کہ ان میں سے جو تمہارے ساتھ جانا چاہے وہ یمن چلا جائے اور (جہاد کرے اور) جو چاہے مدینہ واپس چلا آئے تو میں بھی انہی میں سے تھا جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن کی طرف چلے گئے تھے۔ پھر غنیمت سے بہت سے اوقیہ حصہ میں ملے تھے۔