امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں جا رہے تھے تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات پوچھی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کچھ جواب نہ دیا پھر (دوبارہ) پوچھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا، انھوں نے پھر پوچھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی کچھ جواب نہ دیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے (اپنے آپ سے) کہا اے عمر! تجھے تیری ماں روئے، تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین بار پوچھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب بھی نہ دیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اونٹ کو ایڑ لگائی اور مسلمانوں سے آگے بڑھ گیا۔ میں ڈر رہا تھا کہ کہیں میرے بارے میں کوئی حکم قرآن نہ آ جائے۔ میں تھوڑی ہی دیر ٹھہرا تھا کہ میں نے ایک پکارنے والے کو سنا جو مجھے پکار رہا تھا، میں اور ڈرا کہ کہیں میرے بارے میں قرآن نہ اترا ہو۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج رات مجھ پر ایک سورت اتری ہے جو مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ پسند ہے جن پر سورج طلوع ہوا، پھر یہ آیت پڑھی ”بیشک (اے نبی!) ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی ہے۔“(سورۃ الفتح: 1)
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حدیبیہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار سے زیادہ کئی سو صحابہ کے ساتھ نکلے۔ جب ذوالحلیفہ میں پہنچے تو قربانی کے جانوروں کے گلے میں ہار ڈالا اور ان کا کوہان چیر کر نشان دار کر دیا اور وہیں سے عمرہ کا احرام باندھ لیا اور بنی خزاعہ کے ایک جاسوس کو روانہ کیا (کہ قریش کی خبر لائے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھتے رہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم موضع غدیرالاشطاط میں پہنچے تو جاسوس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر بتایا کہ قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کے لیے فوجیں اکٹھی کی ہیں اور یہ فوجیں مختلف قبیلوں سے لی گئی ہیں، وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت اللہ سے روکیں گے اور وہاں تک جانے نہ دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اے لوگو! مجھے مشورہ دو (کہ کیا کرنا چاہیے) تمہاری کیا یہ رائے ہے کہ میں کافروں کے اہل و عیال کو غارت کر دوں جو کہ ہمیں بیت اللہ سے روکنے کا ارادہ کرتے ہیں، اگر وہ ہمارا مقابلہ کریں گے تو اللہ بڑا بزرگ و غالب ہے، جس نے جاسوس کو مشرکین کے شر سے بچا لیا اور اگر وہ ہمارا مقابلہ نہ کر سکے تو ہم انھیں لوٹے ہوؤں اور بھاگے ہوؤں کی طرح چھوڑ دیں گے۔“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم تو صرف بیت اللہ کا قصد کر کے آئے ہیں، ہم کسی کو مارنا یا لوٹنا نہیں چاہتے، آپ چلیے تو سہی اگر کوئی ہمیں روکے گا تو ہم لڑیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے نام پر چلو۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ) نے انھیں اپنا گھوڑا لانے کے لیے بھیجا جو ایک انصاری شخص کے پاس تھا، (راستہ میں) انھوں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درخت کے نیچے لوگوں سے بیعت لے رہے ہیں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ معلوم نہ تھا، پس انھوں نے (یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر لی، پھر گھوڑا لینے گئے اور اس کو لے کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور وہ (زرہ پہنے ہوئے تھے)، ہتھیار پہن رہے تھے تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے ہیں۔ (پھر) وہ دونوں چلے یہاں تک کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ یہ (وہ) قصہ ہے۔ (کہ) جس کی وجہ سے لوگ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے اسلام لائے۔
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عمرہ ادا فرمایا تو ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کیا تو ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ طواف کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تو ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا و مروہ کے درمیان دوڑے اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل مکہ سے پوشیدہ کیے ہوئے تھے تاکہ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا نہ پہنچا سکے۔
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں صبح کی اذان سے پہلے (مدینہ سے غابہ کی طرف) چلا۔ ذی قرد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دودھ والی اونٹنیاں چر رہی تھیں، راہ میں مجھے سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا غلام ملا اور اس نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں پکڑی گئیں .... اور طویل حدیث ذکر کی جو کہ پہلے گزر چکی ہے (دیکھئیے کتاب: جہاد اور جنگی حالات کے بیان میں۔۔۔ باب: جس شخص نے دشمن کو دیکھ کر بلند آواز سے پکارا کہ۔۔۔) اور اس حدیث کے آخر میں سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر ہم سب واپس آ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچنے تک مجھے اپنی اونٹنی پر بٹھا کر لائے۔
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم غزوہ خیبر میں رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے کسی نے سیدنا عامر رضی اللہ عنہ سے کہا اے عامر! تو ہمیں اپنے شعر کیوں نہیں سناتا؟ سیدنا عامر رضی اللہ عنہ شاعر تھے وہ (اپنی سواری سے) اتر کر قوم کو شعر سنانے لگے اور یہ پڑھتے تھے: ”اے اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہرگز ہدایت نہ پاتے، نہ صدقہ دیتے اور نہ نماز پڑھتے، معاف کر جو تیری اطاعت میں ہم سے کوتاہی ہو، ہم تجھ پر قربان ہوں اور اگر ہم لڑیں تو ہمارے قدم ثابت رکھ اور ہم پر سکونت نازل فرما، جب کوئی ہمیں ناحق کی طرف بلائے گا تو ہم انکار کر دیں گے، کفار نے شوروغل مچا کر ہم پر مدد بلائی ہے۔“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون ہے جو اونٹوں کو چلانے کے لیے شعر پڑھ رہا ہے؟ لوگوں نے عرض کی کہ عامر بن اکوع رضی اللہ عنہ ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اس پر رحم فرمائے۔“ ایک شخص (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ یا نبی اللہ (عامر کے واسطے جنت یا شہادت) واجب ہو گئی، اس سے آپ نے ہمیں بھی فائدہ کیوں نہیں اٹھانے دیا؟ پھر ہم خیبر پہنچے اور خیبر والوں کو گھیر لیا اسی اثنا میں ہمیں سخت بھوک لگی پھر اللہ نے خیبر پر مسلمانوں کو فتح دی۔ فتح کے روز مسلمانوں نے شام کو آگ سلگائی (ہر ایک کھانے پکانے لگا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کیسی آگ ہے اور کس چیز کے نیچے تم آگ جلا رہے ہو؟“ لوگوں نے عرض کی کہ گوشت کے نیچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”گوشت کس جانور کا ہے؟“ انھوں نے جواب دیا گھریلو گدھوں کا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے گرا دو اور ہانڈیاں توڑ دو۔“ کسی نے عرض کی کہ کیا ہم اسے گرا دیں اور ہانڈیوں کو دھو لیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“ ایسا ہی کر لو۔“ پھر جب دشمنوں کے مقابل صف بندی ہوئی تو سیدنا عامر رضی اللہ عنہ کی تلوار چھوٹی تھی، وہ ایک یہودی کی پنڈلی پر مارنے لگے تو اس کی نوک پلٹ کر سیدنا عامر ہی کے گھٹنے پر لگی اور سیدنا عامر رضی اللہ عنہ اسی زخم سے شہید ہو گئے۔ (راوی) کہتے ہیں کہ جب سب واپس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مغموم دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر پوچھا:“ تیرا کیا حال ہے؟“ میں نے عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں لوگ بیان کرتے ہیں کہ عامر رضی اللہ عنہ کے عمل چھن گئے (کیونکہ انھیں نے خودکشی کی ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے یہ کہا وہ جھوٹا ہے، عامر رضی اللہ عنہ کو تو دوہرا اجر ملے گا۔“ اور اپنی دونوں انگلیاں ملا کر فرمایا: ”عامر (رضی اللہ عنہ) کوشش کرنے والا اور لڑنے والا تھا۔ کوئی بھی عربی زمین پر عامر کی طرح نہیں چلا، اس جیسے عربی جو مدینے میں رہتے ہوں بہت کم ہیں۔“ اور ایک روایت میں یوں ہے: ”کوئی عربی مدینہ میں عامر کی مثل پیدا نہیں ہوا۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر میں رات کو پہنچے (یہ حدیث کتاب الصلٰوۃ میں باب: ران کے بارے میں جو روایات بیان کی جاتی ہیں۔۔۔ کے تحت گزر چکی ہے) اس روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں جو لڑنے والے تھے ان کو قتل کیا اور ان کی عورتوں اور بچوں کو قید کیا۔
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر میں چڑھائی کی تو (راستے میں) لوگ ایک بلند جگہ پر چڑھے اور پکار پکار کر اللہ اکبر اللہ اکبر، لا الہٰ الا اللہ کہنے لگے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے نفسوں پر نرمی کرو (اور چیخو نہیں) کیونکہ تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکارتے ہو، بلکہ تم سننے والے کو اور جو بہت نزدیک ہے اسے پکارتے ہو اور وہ تمہارے ساتھ ہے۔“(اور اس وقت) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے پیچھے ہی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے لاحول ولا قوّۃ الا بااﷲ پڑھتے ہوئے سنا پھر فرمایا: ”اے عبداللہ بن قیس! (یہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا اصل نام ہے)۔“ میں نے کہا لبیک یا رسول اللہ! (کہ اے اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تجھے ایسا کلمہ نہ بتاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے؟“ میں نے عرض کی کہ ضرور یا رسول اللہ! ضرور بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ قربان ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(وہ کلمہ) لاحول ولا قوّۃ الّا بااﷲ (ہے)۔
سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کا (خیبر کے دن) مقابلہ ہوا اور دونوں طرف کے لوگ لڑے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی فوج کی طرف لوٹے اور کافر اپنی فوج کی طرف تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک شخص تھا جو کسی اکیلے مشرک کو نہ چھوڑتا تھا بلکہ اس کے پیچھے جا کر اسے اپنی تلوار سے مار دیتا۔ لوگوں نے کہا کہ اس نے تو آج وہ کام کیا ہے جو ہم میں سے کوئی نہ کر سکا (بہت سے کافروں کو مار ڈالا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تو جہنمی ہے۔“ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے کہا کہ میں اس کے ساتھ رہوں گا، پس وہ اس کے ساتھ رہا، جہاں وہ ٹھہرتا یہ بھی ٹھہر جاتا، جب وہ دوڑتا یہ بھی دوڑ کر اس کے ساتھ جاتا۔ (راوی نے) کہا کہ آخر وہ شخص سخت زخمی ہو گیا اور اس نے مرنے میں جلدی کی، (اور) اپنی تلوار کا قبضہ زمین پر رکھا اور تلوار کی نوک اپنی دونوں چھاتیوں کے درمیان رکھ کر اس پر اپنا سارا بوجھ ڈال دیا اور اپنے آپ کو قتل کر ڈالا تو وہ دوسرا شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول اللہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ کیسے؟ اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ابھی ابھی آپ نے جس شخص کو دوزخی فرمایا تھا اور لوگوں پر آپ کا یہ کہنا شاق گزرا تھا، تو میں نے سوچا کہ چل کر اس کا حال دیکھوں اور لوگوں سے اس کی کیفیت بیان کروں۔ چنانچہ میں اس کے پیچھے نکلا، پھر وہ شخص بہت زخمی ہو گیا تو جلد مرنے کے لیے اس نے اپنی تلوار کا قبضہ زمین پر رکھا اور نوک اپنی چھاتی سے لگائی پھر اپنا سارا بوجھ اس پر ڈال دیا اور اپنے آپ کو ہلاک کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: ”کوئی شخص لوگوں کی نظر میں اہل جنت کے سے عمل کرتا ہے حالانکہ وہ دوزخی ہوتا ہے اور کوئی شخص لوگوں کی نگاہ میں دوزخیوں کے سے کام کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔“
اور ایک روایت میں (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی راوی ہیں) کہا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے فلاں! کھڑے ہو کر آواز لگا دے کہ جنت میں ایماندار کے سوا کوئی نہ جائے گا اور اللہ تعالیٰ بدکار سے بھی دین کی مدد کرا لیتا ہے۔“