مختصر صحيح بخاري
غزوات کے بیان میں
جنگ حدیبیہ کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول ”یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے راضی ہو گیا جبکہ وہ تجھ سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے“۔
حدیث نمبر: 1639
امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں جا رہے تھے تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات پوچھی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کچھ جواب نہ دیا پھر (دوبارہ) پوچھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا، انھوں نے پھر پوچھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی کچھ جواب نہ دیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے (اپنے آپ سے) کہا اے عمر! تجھے تیری ماں روئے، تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین بار پوچھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب بھی نہ دیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اونٹ کو ایڑ لگائی اور مسلمانوں سے آگے بڑھ گیا۔ میں ڈر رہا تھا کہ کہیں میرے بارے میں کوئی حکم قرآن نہ آ جائے۔ میں تھوڑی ہی دیر ٹھہرا تھا کہ میں نے ایک پکارنے والے کو سنا جو مجھے پکار رہا تھا، میں اور ڈرا کہ کہیں میرے بارے میں قرآن نہ اترا ہو۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج رات مجھ پر ایک سورت اتری ہے جو مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ پسند ہے جن پر سورج طلوع ہوا، پھر یہ آیت پڑھی ”بیشک (اے نبی!) ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی ہے۔“ (سورۃ الفتح: 1)