سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انصار نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہر نبی کے تابع فرمان لوگ ہوتے ہیں اور ہم آپ کے تابع فرمان لوگ ہیں۔ اب جو لوگ ہمارے تابع فرمان ہیں ان کے لیے دعا فرمائیے، اللہ انھیں بھی ہم میں شریک فرمائے، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔
سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک انصار کے بہترین گھرانے .... پوری حدیث بیان کی جو کہ پہلے گزر چکی ہے (دیکھئیے کتاب: زکوٰۃ کے بیان میں۔۔۔ باب: عشر حاصل کرنے کے لیے پکنے سے پہلے کھجوروں کا اندازہ کر لینا) پھر کہا کہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ! انصار کے گھرانوں کی تعریف کی گئی اور ہم آخری درجہ میں رکھے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں یہ کافی نہیں ہے کہ تم اچھے لوگوں میں سے ہو؟“
سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار میں سے ایک آدمی نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ مجھے حکومت نہیں دیتے جیسے فلاں شخص کو آپ نے حکومت دی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میرے بعد اپنے ساتھ حق تلفی دیکھو گے تو صبر کیے رہنا یہاں تک کہ تم (روز قیامت) مجھ سے حوض کوثر پر ملو۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا (وہ بھوکا تھا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے پاس پیغام بھیجا (کہ کھانے کو کچھ ہے؟) تو انھوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون اس کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے یا اس کی ضیافت کرتا ہے؟“ تو انصار میں سے ایک آدمی نے کہا کہ میں (لے جاتا ہوں) پھر وہ (اس کو لے کر) اپنی بیوی کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان ہے اس کی عزت کر۔ وہ کہنے لگی کہ ہمارے پاس تو صرف اتنا ہی کھانا ہے جو بچوں کو کافی ہو تو انھوں نے کہا کہ کھانا تیار کر اور چراغ جلا اور بچوں کو جب وہ کھانا مانگیں، سلا دے۔ پس اس نے کھانا پکایا، چراغ جلایا اور بچوں کو سلا دیا پھر اس طرح اٹھی گویا کہ وہ چراغ درست کرنے لگی ہو۔ پھر اسے بجھا دیا اور اس سے یوں ظاہر کیا کہ جیسے وہ دونوں کھا رہے ہوں۔ ان دونوں نے وہ رات بھوکے ہی گزاری پھر جب صبح ہوئی تو وہ انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ رات کو تم دونوں کے کام پر ہنس دیا یا خوش ہوا۔“ پھر اللہ نے یہ آیت نازل کی: ”وہ دوسروں (کی حاجت) کو خود (اپنی حاجت) پر ترجیح دیتے ہیں گو خود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو (بات یہ ہے) کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیا وہ کامیاب (اور بامراد) ہے۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ انصار کی ایک مجلس پر سے گزرے اور وہ (مجلس والے) لوگ رو رہے تھے۔ (سیدنا ابوبکر یا عباس رضی اللہ عنہ) نے پوچھا کہ تم لوگ کیوں رو رہے ہو؟ انھوں نے کہا کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے (ہمارے) ساتھ بیٹھنا یاد آیا (اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں مبتلا تھے) پس وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (انصار کا حال) بیان کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر پر چادر کا حاشیہ باندھا ہوا تھا پھر منبر پر چڑھے اور اس دن کے بعد (منبر پر) نہیں چڑھ سکے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی) پھر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: ”میں تمہیں انصار (سے اچھا سلوک کرنے) کے بارے میں وصیت کرتا ہوں، بیشک وہ میرے جان و جگر ہیں، ان پر جو (میرا) حق تھا وہ ادا کر چکے، اب ان کا حق (جنت کا ملنا) باقی ہے پس ان کی نیکی (اچھائی) کو قبول کرنا اور ان کی برائی سے درگزر کرنا۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں کندھوں کو چادر سے ڈھانپے ہوئے باہر نکلے اور اپنے سر کو ایک چکنے کپڑے کی پٹی سے باندھے ہوئے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر فرمایا: ”اے لوگو! بیشک (دوسرے) لوگ بہت زیادہ تعداد میں ہو جائیں گے اور انصار کم ہوتے جائیں گے، یہاں تک کہ کھانے میں نمک کے برابر رہ جائیں گے پھر تم میں سے جس کسی کو ایسی حکومت ملے کہ وہ نفع یا نقصان پہنچا سکے تو اسے چاہیے کہ وہ ان کی نیکی، اچھائی کو قبول کرے اور برائی سے درگزر کرے۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں سورۃ (البینّتہ)”اہل کتاب کے کافر اور مشرک لوگ، جب تک ان کے پاس ظاہر دلیل نہ آ جائے باز رہنے والے نہیں تھے ....“ پڑھ کر سناؤں۔ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کیا اللہ نے میرا نام لے کر فرمایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں تو سیدنا ابی ّ رضی اللہ عنہ رو پڑے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں چار آدمی قرآن کے حافظ تھے، یہ سب انصاری ہی تھے۔ ابی بن کعب، معاذ بن جبل، ابوزید، اور زید بن ثابت سیدنا انس سے کہا گیا کہ ابوزید کون تھے؟ انھوں نے کہا کہ میرے چچاؤں میں سے ایک چچا تھے۔