سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ میں نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے) سنا جو سچے تھے، سچے کیے گئے تھے، فرماتے تھے: ”میری امت کی تباہی قریش کے چند چھوکروں (لڑکوں) کے ہاتھ پر ہو گی۔“ تو مروان نے کہا چند لڑکے؟ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ) اگر تو چاہے تو ان کے نام بھی بیان کر دوں۔ فلاں کے بیٹے فلاں اور فلاں کے بیٹے فلاں۔
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچھی باتوں کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور میں برائیوں کے بارے میں (جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہونے والی ہیں) پوچھا کرتا تھا اس ڈر سے کہ کہیں میں ان میں نہ پھنس جاؤں۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم جہالت اور برائی میں تھے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج کر یہ خیر و برکت ہمیں دی۔ کیا اس کے بعد پھر برائی ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے کہا کہ کیا اس برائی کے بعد پھر بھلائی ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں اور اس میں دھواں ہو گا۔“ میں نے کہ دھواں کیا؟ فرمایا: ”ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو میرے طریق پر نہیں چلیں گے، ان کی کوئی بات اچھی ہو گی کوئی بری۔“ میں نے کہا کہ کیا اس بھلائی کے بعد پھر برائی ہو گی؟ فرمایا: ”ہاں! ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دوزخ کے دروازوں پر کھڑے بلاتے ہوں گے جس نے ان کی بات سنی انھوں نے اسے دوزخ میں جھونک دیا۔“ میں نے کہا یا رسول اللہ! ان کا حال تو بیان فرمائیے؟ فرمایا: ”وہ ظاہر میں ہماری قوم (مسلمان) ہوں گے، ہماری زبان بولیں گے۔“ میں نے کہا کہ اگر میں یہ دور پاؤں تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: ”تو مسلمانوں کی جماعت اور برحق امام کے پیچھے رہ۔“ میں نے کہا کہ اگر اس وقت جماعت یا امام نہ ہو تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تو سب فرقوں سے الگ رہ، اگرچہ تو (بھوک کی وجہ سے) جنگلی درخت کی جڑ چباتا رہے، یہاں تک کہ تو مر جائے تو یہ تیرے لیے (ان کی صحبت میں جانے سے) بہتر ہے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کروں تو یہ سمجھ لو کہ آسمان سے نیچے گر پڑنا مجھ پر اس سے آسان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھوں اور جب میں تم سے وہ باتیں کروں جو میرے اور تمہارے درمیان ہوئی ہیں تو (کوئی نقصان نہیں کیونکہ) لڑائی تو تدبر اور فریب ہی کا نام ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”آخر دور میں کچھ لوگ ایسے پیدا ہوں گے جو چھوٹے چھوٹے دانت والے، کم عقل، بیوقوف ہوں گے۔“ بات تو وہ کہیں گے جو سارے جہان کی باتوں سے افضل ہو، وہ دین اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے جاتا ہے (اس میں کچھ لگا نہیں رہتا) ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، تم ان لوگوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو، جو انھیں قتل کرے گا اسے اس قتل کا قیامت کے دن ثواب ملے گا۔“
سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (کافروں کی ایذادہی کا) شکوہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنی چادر پر ٹیک لگائے کعبہ کے سایہ میں بیٹھے تھے۔ ہم نے کہا کہ آپ ہمارے لیے (اللہ کی) مدد کیوں نہیں مانگتے؟ ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے پہلے کچھ لوگ ایسے بھی ہوئے ہیں کہ ان کے لیے زمین میں گڑھا کھودا جاتا، پھر انھیں اس گڑھے میں گاڑھ کر آرا لایا جاتا، وہ ان کے سر پر چلایا جاتا، دو ٹکڑے کر دیے جاتے مگر پھر بھی وہ اپنے سچے دین سے نہ پھرتے تھے اور لوہے کی کنگھیاں ان کی ہڈی اور پٹھوں تک چلاتے، پھر بھی وہ اپنا ایمان نہ چھوڑتے، اللہ کی قسم کہ وہ اس دین کو ضرور پورا کرے گا، ایک شخص سوار ہو کر صنعاء سے حضرموت تک جائے گا اس کو اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہ ہو گا یا صرف بھیڑیئے کا خوف ہو گا کہ کہیں اس کی بکریوں کو نہ کھا جائے لیکن تم لوگ جلدی کرتے ہو۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ثابت بن قیس (رضی اللہ عنہ) کو گم پایا (وہ حاضر نہ تھے) ایک آدمی نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں اس کی خبر لاتا ہوں، وہ گیا تو دیکھا کہ ثابت رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں (غم سے) سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ اس نے پوچھا کیا حال ہے؟ ثابت نے کہا کہ برا حال ہے، وہ اپنی آواز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند کرتے تھے، تو ان کے تمام اعمال مٹ گئے اور وہ اہل دوزخ میں سے ہے۔ وہ آدمی واپس گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ وہ اس اس طرح کہتے ہیں۔ (راوی موسیٰ بن انس) کہتے ہیں کہ پھر وہ آدمی دوبارہ (ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس) یہ عظیم خوشخبری لے کر گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا ہے: ”تو اس (ثابت) کے پاس جا اور کہہ کہ تو اہل دوزخ میں سے نہیں بلکہ اہل جنت میں ہے۔“
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے سورۃ الکہف پڑھی، ان کے گھر میں گھوڑا بندھا ہوا تھا جو بدکنے لگا تو انھوں نے سلام پھیرا (کیونکہ وہ نماز میں تلاوت کر رہے تھے) کیا دیکھتے ہیں کہ ابر ہے جو سارے گھر میں چھا گیا ہے۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے فلاں! تو قرآن پڑھتا رہ۔ یہ سکینت ہے جو قرآن پڑھنے کی وجہ سے اتری۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کی عیادت کو گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کسی بیمار کی عیادت کو جاتے تو فرماتے: ”کوئی فکر نہیں، انشاءاللہ یہ بیماری گناہ سے پاک کر دے گی۔“ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی یہی کہا: ”کوئی فکر نہیں انشاءاللہ یہ بیماری گناہ سے پاک کر دے گی۔“ اس نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ فکر نہیں، نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے یہاں تو یہ حال ہے کہ بخار ایک بوڑھے شخص پر جوش مار رہا ہے یا زور کر رہا ہے جو قبر میں لے جائے بغیر نہیں چھوڑے گا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا تو ایسا ہو گا۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص عیسائی تھا، پھر وہ مسلمان ہو گیا اور سورۃ البقرہ اور آل عمران پڑھ لی اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے (وحی) لکھا کرتا تھا۔ پھر وہ دوبارہ عیسائی ہو گیا اور کہنے لگا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا جانیں میں جو ان کو لکھ دیتا وہی جانتے۔ پھر اللہ نے اسے موت دی تو لوگوں نے اسے دفن کر دیا، صبح ہوئی تو اس کی لاش زمین کے باہر پڑی ہوئی تھی۔ (عیسائی) لوگ کہنے لگے کہ یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے اصحاب کا کام ہے، جب ان کو چھوڑ کر بھاگ آیا تو انھوں نے رات کو آ کر قبر کھود کر ہمارے ساتھی کی لاش کو باہر پھینک دیا۔ آخر انھوں نے بہت گہری قبر کھودی اور اس کی لاش دوبارہ گاڑھی، پھر صبح کو انھوں نے دیکھا کہ زمین نے اس کی لاش باہر پھینک دی ہے تو کہنے لگے کہ یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے اصحاب کا کام ہے، انھوں نے ہمارے ساتھی کی قبر کھودی اور اسے باہر پھینک دیا کیونکہ یہ انھیں چھوڑ کر بھاگ آیا تھا۔ پھر (سہ بارہ) انھوں نے اور گہری قبر کھود کر، جہاں تک گہری کر سکے اس کو گاڑھ دیا، لیکن صبح کو پھر دیکھا کہ زمین نے اس کی لاش باہر پھینک دی ہے، جب انھیں یہ یقین ہو گیا کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں ہے (بلکہ اللہ کا غضب ہے) تو اس کی لاش کو (میدان میں) پھینک دیا۔ (یا یوں ہی چھوڑ دیا)۔“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس قالین ہیں؟“ میں نے کہا (ہم غریب لوگ ہیں) ہمارے پاس قالین کہاں سے آئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لیکن عنقریب تمہارے پاس (عمدہ) قالین ہوں گے۔“ اب میں اپنی بیوی سے کہتا ہوں کہ چل اپنا قالین ہمارے پاس سے ہٹا دے تو وہ کہتی ہے کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا: ”عنقریب تمہارے پاس قالین ہوں گے۔“ تو میں چپ ہو جاتا ہوں۔
سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے امیہ بن خلف سے کہا کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ تمہیں قتل کر دیں گے۔ امیہ نے کہا کہ کیا مجھے؟ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں۔ امیہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بات جھوٹی نہیں ہوتی۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسے بدر کے دن قتل کرا دیا۔ اس حدیث میں ایک واقعہ بھی ہے مگر اصل حدیث کا مضمون یہی ہے۔