مختصر صحيح بخاري کل احادیث 2230 :حدیث نمبر
مختصر صحيح بخاري
فضیلتوں کا بیان
फ़ज़ीलतों के बारे में
حدیث نمبر: 1465
Save to word مکررات اعراب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبیلہ اسلم اور غفار اور کچھ لوگ مزینہ اور جہینہ کے یا یوں کہا کہ کچھ لوگ جہینہ یا مزینہ کے اللہ کے نزدیک یا یوں کہا کہ قیامت کے دن اسد اور تمیم اور ہوازن اور غطفان سے بہتر ہوں گے۔
5. قبیلہ قحطان کا ذکر۔
حدیث نمبر: 1466
Save to word مکررات اعراب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک قحطان کا ایک شخص بادشاہ ہو کر لوگوں کو اپنی لاٹھی سے نہ ہان کے گا۔
6. جاہلیت کی سی باتیں کرنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 1467
Save to word مکررات اعراب
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مہاجرین میں سے بہت لوگ جمع ہو گئے تھے۔ ان مہاجرین میں ایک آدمی بڑا دل لگی باز تھا، اس نے ایک انصاری کے سرین پر ضرب لگائی۔ انصاری بہت سخت غصے ہوا اور اس نے اپنی ذات والوں کو پکارا، انصاری نے کہا اے انصار! دوڑو (میری فریاد سنو)۔ مہاجر نے کہا کہ اے مہاجرین! دوڑو۔ یہ (غل) سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خیمہ سے نکل کر آئے اور فرمایا: یہ جاہلیت کی سی باتیں کیسی؟ پھر پوچھا کہ قصہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ایک مہاجر نے انصاری کے سرین پر ضرب لگائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسی جہالت کی ناپاک باتیں چھوڑ دو۔ اور عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافق) نے کہا کہ مہاجر ہمارے اوپر اپنی قوم والوں کو پکارتے ہیں، پس جب ہم مدینہ پہنیں گے تو یقیناً عزت دار ذلیل کو (مدینہ سے) نکال باہر کرے گا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا میں اس ناپاک (شخص) کا سر نہ اڑا دوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں! لوگ کہیں گے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں۔
7. (قبیلہ) خزاعہ کا قصہ۔
حدیث نمبر: 1468
Save to word مکررات اعراب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمرو بن لحّی بن قمعہ بن خندف خزاعہ (قبیلہ خزاعہ) والوں کا باپ تھا۔
حدیث نمبر: 1469
Save to word مکررات اعراب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے عمرو بن عامر بن لحی خزاعی کو دیکھا کہ وہ اپنی انتڑیاں دوزخ میں کھینچ رہا تھا، اسی نے سب سے پہلے سائبہ کی رسم نکالی۔
8. سیدنا ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ۔
حدیث نمبر: 1470
Save to word مکررات اعراب
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں قبیلہ غفار کا ایک شخص تھا، ہمیں یہ خبر پہنچی کہ مکہ میں ایک شخص پیدا ہوا ہے جو اپنے آپ کو پیغمبر کہتا ہے تو میں نے اپنے بھائی سے کہا کہ تم اس شخص کے پاس جاؤ اور ان سے بات کرو اور ان کا حال مجھ سے بیان کرو۔ وہ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا پھر واپس آیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ تو نے کیا دیکھا؟ اس نے کہا کہ اللہ کی قسم بیشک میں نے ایک شخص کو دیکھا جو اچھی بات کا حکم دیتا ہے اور بری بات سے منع کرتا ہے (بس اتنا ہی بیان کیا) میں نے اس سے کہا کہ اس خبر سے میری تسلی نہیں ہوئی تو میں نے (زادراہ میں) ایک مشکیزہ اور اپنا عصا لیا اور مکہ پہنچ گیا۔ میں آپ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو نہیں پہچانتا تھا اور مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال کسی سے پوچھنا مناسب معلوم نہ ہوا اور میں آب زمزم پیتا رہا اور مسجد میں ہی بیٹھا رہا پھر (ایک دن) سیدنا علی رضی اللہ عنہ میرے سامنے سے گزرے اور کہا کہ تم مسافر معلوم ہوتے ہو۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا ہاں! انھوں (سیدنا علی رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ میرے ساتھ گھر چلو، میں ان کے ساتھ گیا، نہ انھوں نے مجھ سے کچھ پوچھا اور نہ میں نے انھیں کچھ بتایا۔ اگلی صبح پھر میں مسجد میں آ گیا تاکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کسی سے پوچھوں مگر کوئی ایسا نہ ملا جو مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کچھ بتائے، (سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ میرے پاس سے گزرے تو انھوں نے کہا کہ کیا ابھی تک اس شخص کو (یعنی مجھے) اپنا ٹھکانا نہیں ملا؟ میں نے کہا کہ نہیں تو انھوں نے کہا کہ میرے ساتھ چلو۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا بتا کہ تیرا کیا مطلب ہے، کس کام کے لیے اس شہر میں آیا ہے؟ میں نے ان سے کہا کہ اگر تم یہ بات چھپاؤ تو میں تم سے بیان کروں۔ انھوں نے کہا کہ میں ایسا ہی کروں گا تو میں نے کہا کہ ہمیں یہ خبر پہنچی تھی کہ یہاں ایک شخص پیدا ہوا ہے جو اپنے آپ کو پیغمبر کہتا ہے، پس میں نے اپنے بھائی کو ان سے بات کرنے کو بھیجا، پس وہ لوٹ کر آیا اور (اس کی) بیان کردہ بات سے میری تشفی نہیں ہوئی پس میں نے خود ان سے ملنے کا ارادہ کیا (سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے) ان سے کہا کہ بیشک تو نے اچھا راستہ پایا (مجھ سے ملا) میں بھی انہی کے پاس جاتا ہوں پس تو میرے پیچھے چلا آ، جس جگہ میں داخل ہوں تو بھی داخل ہو، اگر (راستے میں) میں ڈر کی کوئی بات دیکھوں گا تو میں (یہ اشارہ کروں گا) ایک دیوار سے لگ کر کھڑا ہو جاؤں گا جیسے اپنا جوتا صاف کرتا ہوں اور تو وہاں سے چل دینا۔ پھر (سیدنا علی رضی اللہ عنہ) چلے اور میں (سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ) بھی ان کے ساتھ چلا یہاں تک کہ وہ (ایک مکان میں) داخل ہوئے تو میں بھی ان کے ساتھ داخل ہوا۔ وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ مجھے اسلام سیکھایے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سکھایا تو میں اسی جگہ (اسی وقت) مسلمان ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے ابوذر! تم اس کام (اپنے ایمان) کو چھپائے رکھ اور اپنے ملک میں لوٹ جا، جب تجھے ہمارے غلبے کی خبر ملے تو اس وقت آنا۔ میں نے کہا کہ (یا رسول اللہ!) قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں تو اس (کلمہ کو) ان (کافروں) کے درمیان میں زور سے پکاروں گا (جو ہونا ہے سو ہو) پس (سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ) مسجد میں آئے اور قریش کے کافر وہاں موجود تھے (سیدنا ابوذر نے) کہا کہ اے گروہ قریش! بیشک میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی (سچا) معبود نہیں اور یہ گواہی بھی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور اس کے بھیجے ہوئے (رسول) ہیں۔ (یہ سنتے ہی) انھوں نے کہا کہ اٹھو اور اس بےدین کی خبر لو۔ پس وہ کھڑے ہوئے اور مجھے مار ڈالنے کی نیت سے خوب مارا۔ سیدنا عباس (بن عبدالمطلب) رضی اللہ عنہ نے مجھے دیکھا تو وہ مجھ پر جھک گئے پھر ان (کافروں) کی طرف منہ کر کے کہنے لگے کہ تمہاری خرابی ہو (کیا غضب کرتے ہو کہ) تم قوم غفار کے ایک شخص کو مار رہے ہو اور تمہاری سوداگری کا اور آنے جانے کا راستہ اسی قوم کے قریب سے ہے۔ (یہ سن کر) انھوں نے میرا پیچھا چھوڑ دیا پھر دوسرا دن ہوا تو میں پھر مسجد میں آیا اور جیسا کل پکارا تھا ویسا ہی پکارا تو (کفار قریش نے) کہا کہ اٹھو! اس بےدین کی خبر لو اور جیسی کل مجھ پر تاب پڑی تھی ویسی ہی پھر پڑنے لگی اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے پھر مجھے دیکھ لیا تو وہ آ کر مجھ پر جھک گئے اور وہی کہا، جو کل کہا تھا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کا اسلام اس طرح شروع ہوا۔
9. اپنے مسلمان یا کافر باپ دادوں کی طرف نسبت دینا۔
حدیث نمبر: 1471
Save to word مکررات اعراب
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اے پیغمبر! اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو (اللہ کے عذاب سے) ڈرایے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پکارنے لگے: اے بنی فہر کے لوگو، اے بنی عدی کے لوگو! یہ سب قریش کے خاندان تھے۔
10. اپنے باپ دادا کو برا کہلوانا نہ چاہنا۔
حدیث نمبر: 1472
Save to word مکررات اعراب
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین مکہ کی ہجو کرنے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بھی انہی کے خاندان سے ہوں۔ تو سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں (اپنی شاعری کے کمال) سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان مشرکوں میں سے اس طرح نکال لوں گا جیسے آٹے میں سے بال نکالتے ہیں۔
11. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں کا بیان۔
حدیث نمبر: 1473
Save to word مکررات اعراب
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پانچ نام ہیں: میں محمد ہوں اور احمد اور ماحی یعنی مٹانے والا اللہ تعالیٰ کفر کو میرے ہاتھ سے مٹوائے گا اور حاشر یعنی لوگ میرے بعد حشر کیے جائیں گے اور عاقب (یعنی خاتم النبیین میرے بعد دنیا میں کوئی نیا پیغمبر نہیں آئے گا)
حدیث نمبر: 1474
Save to word مکررات اعراب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں تعجب نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ قریش کی گالیاں اور لعنت مجھ پر سے کیسے ٹال دیتا ہے۔ وہ مذمم کو گالیاں دیتے ہیں اور مذمم (ہی) پر لعنت کرتے ہیں اور میں تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہوں۔

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.