مختصر صحيح بخاري
فضیلتوں کا بیان
سیدنا ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ۔
حدیث نمبر: 1470
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں قبیلہ غفار کا ایک شخص تھا، ہمیں یہ خبر پہنچی کہ مکہ میں ایک شخص پیدا ہوا ہے جو اپنے آپ کو پیغمبر کہتا ہے تو میں نے اپنے بھائی سے کہا کہ تم اس شخص کے پاس جاؤ اور ان سے بات کرو اور ان کا حال مجھ سے بیان کرو۔ وہ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا پھر واپس آیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ تو نے کیا دیکھا؟ اس نے کہا کہ اللہ کی قسم بیشک میں نے ایک شخص کو دیکھا جو اچھی بات کا حکم دیتا ہے اور بری بات سے منع کرتا ہے (بس اتنا ہی بیان کیا) میں نے اس سے کہا کہ اس خبر سے میری تسلی نہیں ہوئی تو میں نے (زادراہ میں) ایک مشکیزہ اور اپنا عصا لیا اور مکہ پہنچ گیا۔ میں آپ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو نہیں پہچانتا تھا اور مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال کسی سے پوچھنا مناسب معلوم نہ ہوا اور میں آب زمزم پیتا رہا اور مسجد میں ہی بیٹھا رہا پھر (ایک دن) سیدنا علی رضی اللہ عنہ میرے سامنے سے گزرے اور کہا کہ تم مسافر معلوم ہوتے ہو۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا ہاں! انھوں (سیدنا علی رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ میرے ساتھ گھر چلو، میں ان کے ساتھ گیا، نہ انھوں نے مجھ سے کچھ پوچھا اور نہ میں نے انھیں کچھ بتایا۔ اگلی صبح پھر میں مسجد میں آ گیا تاکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کسی سے پوچھوں مگر کوئی ایسا نہ ملا جو مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کچھ بتائے، (سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ میرے پاس سے گزرے تو انھوں نے کہا کہ کیا ابھی تک اس شخص کو (یعنی مجھے) اپنا ٹھکانا نہیں ملا؟ میں نے کہا کہ نہیں تو انھوں نے کہا کہ میرے ساتھ چلو۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا بتا کہ تیرا کیا مطلب ہے، کس کام کے لیے اس شہر میں آیا ہے؟ میں نے ان سے کہا کہ اگر تم یہ بات چھپاؤ تو میں تم سے بیان کروں۔ انھوں نے کہا کہ میں ایسا ہی کروں گا تو میں نے کہا کہ ہمیں یہ خبر پہنچی تھی کہ یہاں ایک شخص پیدا ہوا ہے جو اپنے آپ کو پیغمبر کہتا ہے، پس میں نے اپنے بھائی کو ان سے بات کرنے کو بھیجا، پس وہ لوٹ کر آیا اور (اس کی) بیان کردہ بات سے میری تشفی نہیں ہوئی پس میں نے خود ان سے ملنے کا ارادہ کیا (سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے) ان سے کہا کہ بیشک تو نے اچھا راستہ پایا (مجھ سے ملا) میں بھی انہی کے پاس جاتا ہوں پس تو میرے پیچھے چلا آ، جس جگہ میں داخل ہوں تو بھی داخل ہو، اگر (راستے میں) میں ڈر کی کوئی بات دیکھوں گا تو میں (یہ اشارہ کروں گا) ایک دیوار سے لگ کر کھڑا ہو جاؤں گا جیسے اپنا جوتا صاف کرتا ہوں اور تو وہاں سے چل دینا۔ پھر (سیدنا علی رضی اللہ عنہ) چلے اور میں (سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ) بھی ان کے ساتھ چلا یہاں تک کہ وہ (ایک مکان میں) داخل ہوئے تو میں بھی ان کے ساتھ داخل ہوا۔ وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ مجھے اسلام سیکھایے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سکھایا تو میں اسی جگہ (اسی وقت) مسلمان ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اے ابوذر! تم اس کام (اپنے ایمان) کو چھپائے رکھ اور اپنے ملک میں لوٹ جا، جب تجھے ہمارے غلبے کی خبر ملے تو اس وقت آنا۔“ میں نے کہا کہ (یا رسول اللہ!) قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں تو اس (کلمہ کو) ان (کافروں) کے درمیان میں زور سے پکاروں گا (جو ہونا ہے سو ہو) پس (سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ) مسجد میں آئے اور قریش کے کافر وہاں موجود تھے (سیدنا ابوذر نے) کہا کہ اے گروہ قریش! بیشک میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی (سچا) معبود نہیں اور یہ گواہی بھی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور اس کے بھیجے ہوئے (رسول) ہیں۔ (یہ سنتے ہی) انھوں نے کہا کہ اٹھو اور اس بےدین کی خبر لو۔ پس وہ کھڑے ہوئے اور مجھے مار ڈالنے کی نیت سے خوب مارا۔ سیدنا عباس (بن عبدالمطلب) رضی اللہ عنہ نے مجھے دیکھا تو وہ مجھ پر جھک گئے پھر ان (کافروں) کی طرف منہ کر کے کہنے لگے کہ تمہاری خرابی ہو (کیا غضب کرتے ہو کہ) تم قوم غفار کے ایک شخص کو مار رہے ہو اور تمہاری سوداگری کا اور آنے جانے کا راستہ اسی قوم کے قریب سے ہے۔ (یہ سن کر) انھوں نے میرا پیچھا چھوڑ دیا پھر دوسرا دن ہوا تو میں پھر مسجد میں آیا اور جیسا کل پکارا تھا ویسا ہی پکارا تو (کفار قریش نے) کہا کہ اٹھو! اس بےدین کی خبر لو اور جیسی کل مجھ پر تاب پڑی تھی ویسی ہی پھر پڑنے لگی اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے پھر مجھے دیکھ لیا تو وہ آ کر مجھ پر جھک گئے اور وہی کہا، جو کل کہا تھا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کا اسلام اس طرح شروع ہوا۔