سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم (قیامت کے دن ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بغیر ختنہ اکٹھے کیے جاؤ گے۔“ پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی: ”جیسے ہم نے پہلی دفعہ پیدا کیا تھا اسی طرح دوبارہ کریں گے، یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے اور ہم اسے ضرور کر کے (ہی) رہیں گے۔“(الانبیاء: 104) اور قیامت کے دن سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑے پہنائے جائیں گے اور میری امت میں سے کئی لوگ بائیں (دوزخ کی) طرف کھینچ لیے جائیں گے تو میں کہوں گا کہ یہ تو میرے ساتھی ہیں، یہ تو میرے ساتھی ہیں۔ تو کہا جائے گا کہ یہ لوگ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو اسلام سے پھر گئے تھے تو اس وقت میں وہی کہوں گا جو ایک نیک بندے (عیسیٰ علیہ السلام) نے کہا تھا کہ ”اور میں جب تک ان میں رہا، ان پر گواہ رہا (ان کا حال دیکھتا رہا) .... تو زبردست ہے، حکمت والا ہے۔“(المائدہ: 117 , 118)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابراہیم علیہ السلام قیامت کے دن اپنے والد آزر سے ملیں گے اور آزر کے منہ پر سیاہی اور گرد و غبار ہو گا تو ابراہیم علیہ السلام ان سے کہیں گے کہ ”میں نے (دنیا میں) تم سے نہیں کہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کرو۔“ تو ان کا باپ کہے گا کہ ”آج میں تمہاری نافرمانی نہ کروں گا۔“ پھر ابراہیم علیہ السلام کہیں گے کہ اے میرے رب! تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ تو مجھے قیامت کے دن ذلیل نہ کرے گا تو اس سے زیادہ ذلت کیا ہو گی کہ میرا باپ (ذلیل اور) تیری رحمت سے دور ہوا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے کافروں پر جنت حرام کر دی ہے۔ پھر کہا جائے گا کہ اے ابراہیم! دیکھو تمہارے پاؤں کے نیچے کیا ہے؟ وہ دیکھیں گے کہ ایک بجو ہے جو نجاست سے لتھڑا ہوا ہے، پھر اس کے پاؤں پکڑ کر اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا، (یعنی ان کے باپ کو بجو بنا دیا جائے گا)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے) کہا گیا کہ یا رسول اللہ! سب لوگوں میں (اللہ کے نزدیک) کون زیادہ مرتبے والا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو پرہیزگار ہو؟، لوگوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں پوچھتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(نسب اور خاندانی شرافت کے لحاظ سے سب سے افضل) یوسف علیہ السلام تھے (جو) نبی تھے، باپ نبی، دادا نبی، پردادا نبی، اللہ کے خلیل (علیہ السلام) انھوں نے کہا ہم یہ بھی نہیں پوچھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم عرب کے خاندان کے بارے میں پوچھتے ہو؟ جو لوگ جاہلیت کے دور میں سب میں بہتر تھے وہی سلام میں بھی سب میں بہتر ہیں بشرطیکہ وہ سلام کو اچھی طرح سمجھیں (اور اس کا علم حاصل کریں)۔“
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کو (خواب میں) میرے پاس دو آنے والے آئے (فرشتے) پھر مجھے ایک اتنے لمبے مرد کے پاس لے گئے کہ قریب تھا کہ میں ان کا سر نہ دیکھ سکوں اور وہ آدمی ابراہیم علیہ السلام تھے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم ابراہیم علیہ السلام کو دیکھنا چاہتے ہو تو اپنے صاحب (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دیکھ لو اور موسیٰ علیہ السلام گھونگھریالے بال، گندمی رنگ (جو سواری کے لیے ایک) سرخ اونٹ پر، جس کو کھجور کی چھال کی نکیل لگی ہے، گویا میں ان کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ نالے میں (لبیک کہتے ہوئے) اتر رہے ہیں۔“
سیدہ ام شریک رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گرگٹ کے مارنے کا حکم دیا یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے لیکن یہاں اتنا فاصلہ ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ابراہیم علیہ السلام پر آگ پھونکتا تھا (باقی جانور بجھا رہے تھے)۔“
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسجدالحرام۔“ پھر کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ پھر کون سی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسجدالاقصیٰ (بیت المقدس)۔“ میں نے پھر پوچھا کہ ان دونوں (کے بننے) میں کتنا فاصلہ تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چالیس برس کا۔“(یہ عرصہ غالباً اول بنا کے اعتبار سے بتایا گیا ہے یعنی آدم علیہ السلام کے دور میں بھی ان کی تعمیر ہوئی کیونکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا سلیمان علیہ السلام کے درمیان تو ہزار سال سے زیادہ وقفہ ہے) پھر فرمایا: ”جہاں تجھے نماز کا وقت ہو جائے وہیں نماز پڑھ لے۔ بیشک اس (نماز کو وقت پر پڑھنے) میں بڑی فضیلت ہے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے اور فرماتے: ”بیشک تمہارے دادا ابراہیم (اپنے بیٹوں) اسماعیل اور اسحاق (علیہ السلام) کے لیے ان کلمات کے ساتھ اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے کہ ”اللہ تعالیٰ کے پورے کلموں کے ذریعے سے ہر شیطان اور زہریلے، ہلاک کرنے والے جانور سے اور ہر نظر لگانے والی آنکھ سے پناہ مانگتا ہوں۔“