امیرالمؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے اپنی وفات سے ایک سال قبل اہل بصریٰ کی طرف ایک خط لکھا کہ اگر کسی مجوسی (پارسی) نے اپنی محرم عورت کو اپنی بیوی بنایا ہو تو ان دونوں کو جدا کر دو اور امیرالمؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے مجوسیوں سے جزیہ نہیں لیا یہاں تک کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اس امر کی شہادت دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مقام) ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا۔
سیدنا عمرو بن عوف انصاری رضی اللہ عنہ جو بنی عامر بن لؤی کے حلیف تھے اور بدر میں شریک ہو چکے تھے، نے یہ بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوعبیدہ ابن جراح رضی اللہ عنہ کو بحرین بھیجا تاکہ وہاں کا جزیہ لے آئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین والوں سے صلح کر لی تھی اور سیدنا علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو وہاں کا حاکم مقرر کیا۔ چنانچہ وہ (ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ) بحرین کا مال لے آئے تو انصار نے ان کے آنے کی خبر سنی تو انھوں نے صبح کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ پڑھی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھ کر لوٹے تو انصار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ گئے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انھیں دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا: ”میں سمجھتا ہوں کہ تم نے سنا ہے کہ ابوعبیدہ (رضی اللہ عنہ) کچھ مال لائے ہیں۔“ انھوں نے کہا ”جی ہاں یا رسول اللہ!“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم خوش رہو اور خوشی کی امید رکھو، اللہ کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں کہ تم محتاج ہو جاؤ گے بلکہ تم پر اس بات کا خوف رکھتا ہوں کہ دنیا تمہارے لیے کشادہ کر دی جائے گی (یعنی لگژری سہولتوں کی فراوانی ہو گی)، جس طرح پہلے لوگوں کے لیے کشادہ کر دی گئی تھی پھر تم اس میں حسد و بغض کرنے لگو، نااتفاقی سے جھگڑا کرنے لگو، جس طرح انھوں نے کیا تھا اور وہ (جھگڑا) تم کو بھی ہلاک کر دے جس طرح اس نے پہلے لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا۔“
امیرالمؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے بڑے بڑے شہروں میں لوگوں کو بھیجا تاکہ وہ مشرکوں سے لڑیں۔ چنانچہ (مدائن کا حاکم) ہرمزان مسلمان ہو گیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ میں تیری رائے لینا چاہتا ہوں کہ پہلے ان (تین) مقاموں (فارس، اصفہان اور آذربئیجان) میں سے کہاں سے لڑائی شروع کی جائے۔ ہرمزان نے کہا کہ ہاں اس کی مثال اور مسلمانوں کے دشمنوں کی مثال جو یہاں رہتے ہیں، مثل اس پرندے کی ہے جس کا ایک سر، دو بازو اور اس کے دو پاؤں ہوں کہ اگر ایک بازو توڑ دیا جائے تو اس کے دونوں پاؤں ایک بازو سے اور سر سے کھڑے ہو جائیں گے اور اگر دوسرا بازو بھی توڑ دیا جائے تو دونوں پاؤں اور سر کھڑا ہو جائے گا اور اگر سر توڑ دیا جائے تو دونوں پاؤں بھی بیکار ہو جائیں گے اور دونوں بازو بھی اور سر بھی پس سر تو کسریٰ (شاہ ایران) ہے اور ایک بازو قیصر (شاہ روم) ہے اور دوسرا بازو فارس ہے۔ لہٰذا آپ مسلمانوں کو حکم دیجئیے کہ کسریٰ پر حملہ کریں۔ پس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں بلایا اور نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کو ہم پر سردار مقرر کیا، یہاں تک کہ جب ہم دشمن کے ملک میں پہنچے اور کسریٰ کا عامل چالیس ہزار فوج لے کر ہمارے سامنے آیا۔ اس کا ایک ترجمان کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ تم میں سے ایک آدمی مجھ سے گفتگو کرے۔ سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا جو تیرا جی چاہے پوچھ۔ اس نے کہا تم کون لوگ ہو؟ سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہم عرب کے لوگ ہیں؟ ہم سخت بدبختی اور سخت مصیبت میں تھے، مارے بھوک کے چمڑے اور کھجور کی گٹھلیوں کو چوسا کرتے تھے اور ہم چمڑے اور بال کی پوشاک پہنتے تھے اور درختوں اور پتھروں کی پرستش کیا کرتے تھے، پس ہم اسی حال میں، اسی طرح تھے کہ اچانک آسمانوں کے مالک اور زمینوں کے مالک نے ہماری طرف ایک نبی ہماری قوم میں سے بھیجا، جن کے باپ کو اور جن کی ماں کو ہم جانتے تھے۔ پس ہمارے نبی، ہمارے رب کے رسول نے ہمیں حکم دیا کہ ہم تم سے لڑیں، یہاں تک کہ تم ایک اللہ کی عبادت کرو یا جزیہ دو اور ہمارے نبی نے ہمارے پروردگار کا یہ پیغام پہنچایا کہ جو شخص ہم میں مقتول ہو گا وہ جنت میں ایسے آرام میں جائے گا کہ اس کا مثل کبھی دیکھا نہیں گیا اور جو شخص ہم میں سے باقی رہے گا وہ تمہاری گردنوں کا مالک ہو جائے گا۔ (سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نے یہ گفتگو تمام کر کے سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ لڑائی شروع کرو) تو سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم تو اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جنگ میں شریک ہوئے اور تمہیں کچھ ندامت و ذلت نہیں ہوئی (یعنی شکست نہیں ہوئی اس کے باوجود کے آپ کو جنگ کا قاعدہ معلوم نہیں؟) مگر میں اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک جنگ ہوا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن میں اول وقت جنگ شروع نہ کرتے تو انتظار فرماتے، یہاں تک کہ ہوائیں چلنے لگتیں اور نماز کا وقت آ جاتا، اس وقت جنگ کرتے تھے۔
سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تبوک میں جہاد کیا اور ایلہ کے بادشاہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سپید خچر دیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک چادر دی تھی اور اس کا ملک اسی کے نام لکھ دیا یعنی اسی کو وہاں کا حاکم رہنے دیا۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی ذمی کافر کو ناحق قتل کرے گا وہ جنت کی خوشبو تک نہ پائے گا اور بیشک جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت سے معلوم ہوتی ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب خیبر فتح ہوا تو (یہود کی طرف سے) ایک بکری (بھنی ہوئی) جس میں زہر ملا ہوا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہدیہ میں آئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس قدر یہودی یہاں ہیں ان کو جمع کرو۔“ چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جمع کیے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم سے ایک بات پوچھنے والا ہوں تو کیا تم مجھ کو سچ مچ بتا دو گے؟“ انھوں نے کہا، جی ہاں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”(اچھا بتاؤ) تمہارا باپ کون ہے؟“ ان لوگوں نے کہا کہ فلاں شخص۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم نے جھوٹ کہا تمہارا باپ تو فلاں شخص ہے۔“ انھوں نے کہا آپ سچ کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب ایک اور بات پوچھتا ہوں، کیا تم مجھے سچ بتاؤ گے؟“ انھوں نے کہا ہاں اے ابوالقاسم! اگر ہم جھوٹ بولیں گے تو آپ ہمارا جھوٹ معلوم کر لیں گے جس طرح آپ نے ہمارا جھوٹ ہمارے باپ (کے نام) میں معلوم کر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا (بتاؤ) دوزخ والے لوگ کون ہیں؟“ انھوں نے کہا کہ ہم تو دوزخ میں تھوڑے ہی دن رہیں گے پھر ہمارے بعد تم اس میں جانشین ہو گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس میں ذلیل رہو گے۔ اللہ کی قسم! ہم کبھی اس میں تمہاری جانشینی نہیں کریں گے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اچھا اب) اگر کوئی بات پوچھوں تو کیا سچ بولو گے؟“ ان لوگوں نے کہا جی ہاں اے ابوالقاسم ( صلی اللہ علیہ وسلم )۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے اس بکری میں زہر ملایا تھا؟“ انھوں نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کو کس چیز نے اس بات پر آمادہ کیا؟“ تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم نے چاہا تھا کہ آپ اگر جھوٹے ہیں تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپ نبی ہیں تو یہ آپ کو کوئی نقصان نہ دے گا۔
سیدنا سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید خیبر گئے اور ان دنوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہودیوں کی صلح تھی۔ پھر وہ دونوں (کسی ضرورت سے) جدا ہو گئے تو پھر محیصہ جو عبداللہ بن سہل کے پاس آئے تو دیکھا کہ وہ اپنے خون میں لت پت ہے، کسی نے اس کو قتل کر ڈالا خیر محیصہ نے اس کو دفن کیا پھر مدینہ میں آئے۔ عبدالرحمن بن سہل (عبداللہ بن سہل) مقتول کے بھائی اور محیصہ اور ان کے بھائی حویصہ جو مسعود کے بیٹے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے۔ عبدالرحمن نے گفتگو شروع کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”بڑے کو بولنے دو، بڑے کو بات کرنے دو۔“ عبدالرحمن تینوں میں کم سن تھے، یہ سن کر وہ خاموش ہو گئے، تب محیصہ اور حویصہ نے گفتگو کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کیا چاہتے ہو؟“ یا تو قسم کھاؤ کہ عبداﷲ کو فلاں شخص نے مارا ہے اور قاتل پر اپنا حق ثابت کر لو۔ انھوں نے عرض کی کہ ہم کیونکر قسم کھائیں؟ ہم نے تو آنکھ سے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر یہودی پچاس قسمیں کھا کر اپنی برات کر لیں گے۔“ انھوں نے عرض کی کہ وہ تو کافر ہیں، ہم ان کی قسموں پر کیسے اعتبار کریں؟ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن کی دیت اپنے پاس سے ادا کر دی۔ (رضی اللہ عنہ)
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر (ایک مرتبہ) جادو کیا گیا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (اس جادو کے اثر سے) یہ خیال ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کام کیا ہے، حالانکہ وہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کیا ہوتا۔
سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں غزوہ تبوک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اس وقت) چمڑے کے ایک خیمے میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چھ باتیں قیامت سے پہلے ہوں گی (ان کو) یاد کر لو۔ (1) میری موت (2) پھر فتح بیت المقدس (3) پھر ایک بیماری جو تم میں اس طرح پھیلے گی جیسے بکریوں میں طاعون کی (بیماری پھیلتی ہے)(4) پھر مال کا بکثرت ہونا یہاں تک کہ اگر کسی شخص کو سو اشرفیاں دی جائیں گی تب بھی وہ ناخوش رہے گا۔ (5) پھر ایک فتنہ ہو گا کہ عرب کا کوئی گھر ایسا نہ ہو گا کہ جس میں وہ داخل نہ ہو۔ (6) پھر ایک صلح تمہارے اور عیسائیوں کے درمیان ہو گی اور وہ بےوفائی کریں گے اور اسّی جھنڈے لیے تم سے لڑنے آئیں گے اور ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار آدمی ہوں گے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے (ایک مرتبہ لوگوں سے) کہا کہ تمہارا کیا حال ہو گا جب جزیہ کی آمدنی میں سے ایک اشرفی یا ایک روپیہ بھی تم کو نہ ملے گا؟ کسی نے پوچھا کہ اے ابوہریرہ! تم کیا سمجھتے ہو، ایسا کیونکر ہو گا؟ انھوں نے کہا ہاں! قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ کی جان ہے کہ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے سے (میں جانتا ہوں) لوگوں نے پوچھا کہ یہ کس سبب سے ہو گا؟ انھوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ کی بےحرمتی کی جائے گی (مسلمان دغابازی کریں گے) پس اللہ تعالیٰ ذمیوں کے دل مضبوط کر دے گا اور وہ جزیہ نہ دیں گے۔