سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس حال میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مقام) جعرانہ میں غنیمت تقسیم کر رہے تھے کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ”انصاف کیجئیے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تب تو میں بدبخت ہوں گا، اگر میں انصاف نہ کروں (گا تو اور کون کرے گا)؟“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ (ان کے والد) نے دو لونڈیاں حنین کے قیدیوں میں سے پائی تھیں اور ان کو مکہ میں کسی گھر میں رکھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے قیدیوں کو مفت چھوڑ دینے کا حکم دیا تو لوگ گلیوں میں دوڑنے لگے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اے عبداللہ! دیکھو تو یہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے قیدی مفت چھڑوا دیے (یہ اس وجہ سے ہے)، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا جاؤ تم بھی ان دونوں لونڈیوں کو چھوڑ دو (یہ لونڈیاں خمس میں سے ان کو ملی تھیں)۔
6. جس نے (مقتول کافروں کے) اسباب میں خمس نہ لیا (اس نے موافق سنت کیا) اور جو شخص کسی کافر کو قتل کرے تو اس کا سامان اسی کے لیے ہے بغیر خمس کے اور بغیر امام کے حکم کے۔
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس حال میں کہ میں بدر کے دن صف میں کھڑا ہوا تھا، میں نے اپنی داہنی جانب اور اپنی بائیں جانب نظر کی تو مجھے انصار کے دو کم سن لڑکے دکھائی دیے تو میں نے تمنا کی کہ کاش! میں ان (انصار) میں سے طاقتور (شہسواروں) کے درمیان ہوتا۔ خیر مجھے ان میں سے ایک نے دبایا اور کہا کہ اے چچا! تم ابوجہل کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا ہاں۔ لیکن تمہیں اس سے کیا کام ہے؟ اس نے کہا مجھے یہ خبر ملی ہے۔ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتا ہے، قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر میں اس کو دیکھ لوں تو پھر میرا جسم اس کے جسم میں ٹل نہیں سکتا یہاں تک کہ ہم میں سے پہلے جس کی موت مقدر ہے وہ مر جائے۔ تو میں نے اس بات سے تعجب کیا پھر مجھے دوسرے نے دبایا اور اسی قسم کی گفتگو کی۔ پھر تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ میں نے ابوجہل کو دیکھا کہ وہ لوگوں میں دوڑ رہا ہے۔ میں نے کہا سنو! یہی وہ شخص ہے جس کی بابت تم مجھ سے پوچھ رہے تھے۔ پس وہ دونوں اپنی تلواریں لے کر اس کی طرف بڑھے اور اسے مارا یہاں تک کہ اسے قتل کر دیا۔ اس کے بعد وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم میں سے کس نے اسے قتل کیا ہے؟“ ان میں سے ہر ایک نے کہا کہ میں نے اس کو قتل کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے اپنی تلواریں صاف کر دی ہیں؟“ انھوں نے کہا نہیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تلواروں کو دیکھا تو فرمایا: ”بیشک تم نے اسے قتل کیا ہے مگر اس کا اسباب معاذ بن عمرو بن جموح کو ملے گا اور وہ دونوں لڑکے معاذ بن عفراء اور معاذ بن عمرو بن جموح کے تھے۔
7. تالیف قلب کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض نئے مسلمانوں اور پرانے مسلمانوں کو خمس میں سے مال و دولت وغیرہ دیا کرتے تھے (اور جس طرح چاہتے اور جس کو چاہتے دیتے)۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ) فرمایا: ”میں قریش (کے نئے مسلمان ہونے والے لوگوں) کو ان کی تالیف قلب کرنے کے لئے دیتا ہوں کیونکہ ان کا دور جاہلیت سے قریب ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی جب اللہ نے اپنے رسول کو ہوازن کے اموال جس قدر غنیمت میں دلانے تھے، دلا دیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے بعض لوگوں کو سو سو اونٹ دینے لگے۔ بعض انصاری لوگ کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کو اتنا دے رہے ہیں اور ہمیں نہیں دیتے، حالانکہ ہماری تلواروں سے کافروں کا خون ٹپک رہا ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی یہ گفتگو بیان کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بلایا اور انھیں چمڑے کے ایک خیمے میں جمع کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ کسی اور کو نہیں بلایا۔ پھر جب لوگ جمع ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: ”یہ کیسی بات ہے جو مجھ کو تمہاری طرف سے معلوم ہوئی؟ ان کے سمجھدار لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم میں سے عقلمند لوگوں نے کچھ نہیں کہا بلکہ ہم میں سے کم عمر لوگوں نے یہ کہا .... اس حدیث کا بقیہ حصہ آگے آئے گا۔ (دیکھئیے باب: غزوہ طائف کا بیان جو شوال 8 ہجری میں ہوا۔)
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس حال میں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ وہ لوگ بھی تھے جو حنین سے واپس آ رہے تھے، اعرابی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگنے لگے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دھکیل کر ایک ببول کے درخت کے نیچے لے گئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر اس میں اٹک کر رہ گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور فرمایا: ”میری چادر مجھے دے دو۔ اگر میرے پاس ان درختوں کے برابر اونٹ ہوں تو میں ان (اونٹوں) کو تمہارے درمیان تقسیم کر دوں اور تم مجھے بخیل، جھوٹ بولنے والا اور تھوڑے دل والا ہرگز نہ پاؤ گے۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جا رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر (اس وقت) ایک موٹے حاشیہ کی نجرانی چادر تھی تو ایک اعرابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ لیا اور زور سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دبایا، یہاں تک کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک کے ظاہری حصے پر دیکھا کہ بوجہ اس کے زور سے دبانے کے، چادر کے حاشیہ کا نشان پڑ گیا تھا۔ اس کے بعد اس اعرابی نے کہا کہ مجھے بھی اللہ کے اس مال میں سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہے دلوا دیجئیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرائے اس کے بعد اسے کچھ دے دینے کا حکم فرما دیا۔
سیدنا عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب حنین (غزوہ حنین) کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مال غنیمت میں سے) کچھ لوگوں کو دوسروں سے زیادہ دیا، جیسے اقرع بن حابس کو سو اونٹ دیے، عینیہ رضی اللہ عنہ کو بھی اسی قدر دیے اور اشراف عرب میں سے چند لوگوں کو بھی زیادہ دیا، تو ایک شخص نے کہا کہ اللہ کی قسم! یہ تقسیم ایسی ہے کہ اس میں انصاف نہیں کیا گیا یا (یہ کہا کہ) اس میں اللہ کی رضامندی مقصود نہیں رکھی گئی تو میں نے کہا کہ اللہ کی قسم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو (اس کی) خبر دوں گا۔ چنانچہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اللہ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) انصاف نہ کریں گے تو اور کون انصاف کرے گا؟ اللہ، موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے انھیں اس سے بھی زیادہ اذیت دی گئی اور انھوں نے صبر کیا۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم اپنے جہادی معرکوں میں شہد اور انگور پاتے تھے تو اس کو اسی وقت کھا لیتے اور اس کو (تقسیم کرنے کے لیے) باقی نہ رکھتے تھے۔