سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا، جو کچھ (مال) ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی مال میں سے اپنے گھر والوں کے لیے سال بھر کا خرچ لے لیتے تھے، اس کے بعد جو کچھ بچتا، اس کو اس مصرف میں خرچ کر دیتے تھے جہاں اللہ کا مال یعنی صدقہ خرچ کیا جاتا ہے۔ پھر (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے) اپنے پاس بیٹھے ہوئے صحابہ رضی اللہ عنہم سے کہا کہ میں تمہیں اس اللہ کی قسم دلاتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں (بتاؤ!) کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا؟ انھوں نے کہا کہ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا اور اس مجلس میں سیدنا علی، عباس، عثمان، عبدالرحمن بن عوف، زبیر اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما تھے۔ اور سیدنا علی بن ابی طالب اور سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما کے جھگڑے کی بابت پوری حدیث بیان کی جس کا لانا ہمارے فرائض میں شامل نہیں۔ (سورۃ الانفال کی: 41 میں خمس کا ذکر ہے۔ باب میں اسی طرف اشارہ ہے اور حدیث دیکھئیے کتاب: ایمان کا بیان۔۔۔ باب: خمس مال غنیمت کے پانچویں حصہ کا ادا کرنا ایمان میں سے ہے)۔
2. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ، عصا، تلوار، پیالہ اور انگوٹھی کی بابت کیا ذکر کیا گیا ہے؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء نے ان میں سے کون کون سی چیزیں استعمال کیں، ان کو تقسیم نہیں کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک اور آپ کا جوتا اور آپ کے برتنوں میں سے، جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اور دوسرے مسلمانوں نے متبرک سمجھا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے دو جوتے بغیر بال کے چمڑے کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے نکالے، جن پر دو تسمے لگے ہوئے تھے، اور بیان کیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے تھے۔
ایک روایت میں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انھوں نے ایک موٹا تہبند، اس قسم کا جیسا کہ اہل یمن بناتے ہیں اور ایک چادر اسی قسم کی جس کو ملبدہ کہتے ہیں، نکالی (کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے)۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیالہ جب ٹوٹ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹوٹے ہوئے مقام پر چاندی کا ایک تار لگا لیا تھا۔
سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے ایک شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو اس نے اس کا نام قاسم رکھا۔ انصار نے کہا کہ ہم تجھے ابوالقاسم (کبھی) نہ کہیں گے اور (اس مبارک کنیت سے) تیری آنکھ ٹھنڈی نہ کریں گے تو وہ شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا، میں نے اس کا نام قاسم رکھا تو انصار کہتے ہیں ہم تجھ کو ابوالقاسم نہ کہیں گے اور تیری آنکھ ٹھنڈی نہ کریں گے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصار نے اچھا کیا، میرا نام رکھ لو مگر میری کنیت نہ رکھو کیونکہ قاسم تو میں ہی تو ہوں،“(قاسم کا مطلب ہے تقسیم کرنے والا)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ میں تمہیں (کچھ) دیتا ہوں اور نہ تم سے روکتا ہوں، میں تو تقسیم کرنے والا ہوں، جہاں مجھے حکم دیا جاتا ہے میں صرف کر دیتا ہوں۔“
سیدہ خولہ انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے یہ کہتے ہوئے سنا: ”کچھ لوگ اللہ کے مال میں بغیر حق کے تصرف کرتے ہیں، قیامت کے دن ان کے لیے دوزخ ہو گی۔“(یعنی وہ دوزخ میں جائیں گے۔ ((اللّٰھمّ اجرنا من النّار))
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پہلے نبیوں میں سے ایک نبی نے جہاد کیا تو انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ میرے ساتھ وہ شخص نہ جائے جس نے کسی عورت سے نکاح کیا ہو اور وہ اس سے زفاف کرنا چاہتا ہو اور ابھی تک اس نے زفاف نہ کیا ہو اور نہ وہ شخص جس نے گھر بنایا ہو اور اس کی چھت نہ پاٹی ہو اور نہ وہ شخص جس نے بکریاں اور اونٹنیاں خریدی ہوں اور وہ ان کے جننے کا منتظر ہو۔ الغرض انھوں نے جہاد کیا۔ پس وہ اس بستی کے قریب نماز عصر کے وقت یا اس کے قریب پہنچے، پھر انھوں نے آفتاب سے کہا کہ تو بھی (اللہ کا) محکوم ہے اور میں (بھی اس کا) محکوم ہوں۔ اے اللہ! اس کو ہمارے سامنے (غروب ہونے سے) روک لے۔ چنانچہ وہ روک لیا گیا یہاں تک کہ اللہ نے ان کو فتح دی، پھر انھوں نے غنیمتوں کو جمع کیا۔ آسمان سے آگ آئی تاکہ اس مال کو کھا جائے مگر اس نے نہیں کھایا تو نبی نے کہا کہ تم لوگوں میں (کسی نے) چوری کی ہے لہٰذا ہر قبیلے کا ایک ایک آدمی مجھ سے بیعت کرے۔“ تو ایک شخص کا ہاتھ ان کے ہاتھ سے چپک گیا تو نبی نے کہا: ”وہ چوری کرنے والا تمہیں میں ہے لہٰذا تمہارے قبیلے کے سب لوگ مجھ سے بیعت کریں۔“ چنانچہ دو یا تین آدمیوں کے ہاتھ ان کے ہاتھ سے چپک گئے۔ نبی نے کہا کہ چوری تمہیں نے کی ہے پس وہ سونے کا ایک سر مثل گائے کے سر کے لے آئے اور اس کو رکھ دیا، تب آگ آ گئی اور اس نے کھا لیا۔ پھر اللہ نے ہماری کمزوری اور ہماری عاجزی دیکھی، اس سبب سے غنیمتوں کو ہمارے لیے حلال کر دیا۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوج نجد کی طرف روانہ کی جس میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے تو انہوں نے بہت سے اونٹ مال غنیمت میں پائے تو ان سب کے حصے میں بارہ بارہ یا گیارہ گیارہ اونٹ آئے اور ایک اونٹ انھیں حصہ سے زیادہ دیا گیا۔