ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے پاس ایمن (رضی اللہ عنہا) آئیں اور وہ ایک موٹا کرتا پہنے ہوئے تھیں جس کی قیمت پانچ درہم ہو گی تو انھوں نے کہا کہ ذرا میری اس لونڈی کی طرف دیکھو کہ گھر میں اس کرتا کے پہننے سے نخرہ کرتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں میرے پاس اسی قسم کا ایک کرتا تھا تو جو عورت مدینہ میں آراستہ کی جاتی تھی وہ مجھ سے اس کرتے کو منگوا لیتی۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب مہاجرین مکہ سے مدینہ آئے تو ان کے پاس کچھ نہ تھا اور انصار زمین اور اسباب والے تھے۔ ان مہاجرین کو انصار نے اپنے مال تقسیم کر دیے، اس شرط پر کہ وہ ہر سال انھیں نصف پھل ان کے دے دیا کریں اور جملہ محنت ازل اول تا آخرم وہی کریں اور ان کی ماں یعنی انس رضی اللہ عنہ کی ماں ام سلیم جو عبداللہ بن ابی طلحہ کی ماں بھی تھیں، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھجور کے چند درخت دے دیے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آزاد کردہ لونڈی ام ایمن کو جو اسامہ بن زید کی ماں تھیں دے دیے تھے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ خیبر سے فارغ ہوئے اور مدینہ کی طرف لوٹے تو مہاجرین نے ان کی دی ہوئی چیزیں واپس کر دیں یعنی وہ پھل کے باغ و درخت جو انھوں نے مہاجرین کو دیے تھے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی والدہ کو ان کے درخت واپس کر دیے اور ام ایمن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عوض میں اپنے باغ سے کچھ درخت دے دیے۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چالیس خصلتیں بہت عمدہ ہیں جن میں سب سے عمدہ بکری کا مستعار دینا ہے۔ جو کوئی ان خصلتوں میں سے کسی بھی خصلت پر ثواب کی امید سے اللہ کا وعدہ سچا جان کر عمل کرے تو اللہ اس کو جنت میں لے جائے گا۔“