سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن دوسری پڑوسن کی (دی ہوئی کسی چیز کو بھی) حقیر نہ سمجھے، اگرچہ وہ بکری کے پائے کا گوشت ہو۔“
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے عروہ رحمتہ اللہ علیہ سے کہا کہ ”اے میرے بھانجے! بیشک ہم ایک چاند دیکھتے تھے پھر دوسرا چاند دیکھتے تھے، اسی طرح دو مہینہ میں تین چاند دیکھ لیتے تھے (یعنی دو مہینہ کا مل گزر جاتے تھے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آگ نہ جلائی جاتی تھی۔“(یعنی کھانا نہیں پکتا تھا۔ عروہ کہتے ہیں) میں نے کہا کہ ”اے خالہ! آپ کی زندگی پھر کیسے بسر ہوتی تھی؟“ انھوں نے جواب دیا کہ دو چیزوں کے سبب، کھجور کھا کر اور پانی پی کر مگر ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں کچھ انصار رہتے تھے اور ان کے پاس چند دودھ کے جانور تھے اور وہ اپنے (ہاں سے) دودھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے (تحفہ کے طور پر) بھیجتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو بھی پلا دیا کرتے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر مجھے، دستی یا ران کا گوشت کھانے کے لیے بلایا جائے تو میں ضرور جاؤں گا اور اگر میرے پاس ایک دستی یا ران کا گوشت ہدیہ میں (یعنی تحفہ) بھیجا جائے تب بھی میں قبول کر لوں گا۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے مقام مرالظہران میں ایک خرگوش کو (اپنے مقام سے) باہر نکالا پھر لوگ اس کے پیچھے دوڑے مگر وہ تھک گئے اور میں نے اس پر قابو پا کر اس کو پکڑ لیا۔ پھر میں اس کو سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا، انھوں نے اس کو ذبح کیا اور اس کی پٹھ یا رانیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیج دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو لے لیا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کھایا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان کی خالہ ام حفید نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پنیر، گھی اور ساہنا (ایک جانور) تحفہ میں بھیجا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پنیر اور گھی کھا لیا اور ساہنے کو نفرت کے ساتھ چھوڑ دیا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ”مگر وہ (ساہنا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر کھایا گیا۔ اگر وہ حرام ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر کس طرح کھایا جا سکتا تھا؟“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی کھانے کی چیز لائی جاتی تھی تو اس کے بارے میں دریافت فرماتے تھے: ”یہ ہدیہ ہے یا صدقہ؟“ اگر کہا جاتا کہ یہ صدقہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرماتے: ”تم کھا لو“ اور خود نہ کھاتے اور اگر کہا جاتا کہ یہ ”ہدیہ“ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنا ہاتھ بڑھاتے اور ان کے ساتھ خود بھی کھاتے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گوشت لایا گیا اور بیان کیا گیا کہ یہ بریرہ (رضی اللہ عنہا) کو صدقہ میں ملا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ۔“
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں دو گروہ تھے، ایک گروہ وہ تھا جس میں ام المؤمنین عائشہ، حفصہ، صفیہ اور سودہ رضی اللہ عنہا تھیں اور دوسرا گروہ وہ تھا جس میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی بیویاں تھیں اور مسلمانوں کو یہ معلوم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا (صدیقہ طیبہ طاہرہ) سے ہے پس جب ان میں سے کسی کے پاس کچھ ہدیہ ہوتا اور وہ چاہتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے تو وہ اس کو روک لیتا یہاں تک کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ہوتے تو ہدیہ پہچانے والا اپنے ہدیہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ام المؤمنین عائشہ کے گھر میں پہنچاتا۔ اس پر ام المؤمنین ام اسلمہ رضی اللہ عنہا کے گروہ نے (اس بارے میں) گفتگو کی اور ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ پہچانا چاہے تو چاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بیوی کے پاس ہوں پہنچا دے پس ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے جو کچھ ان (کے ساتھ والی) بیویوں نے کہا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کچھ جواب نہیں دیا پھر ان ازواج نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے جواب دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ مجھے کچھ جواب نہیں ملا۔ چنانچہ ازواج مطہرات نے ان سے کہا کہ تم پھر کہو۔ جب ان کی دوبارہ باری آئی تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ان کو کچھ جواب نہ دیا۔ (ہم خیال) ازواج مطہرات نے پھر ان سے پوچھا کہ کوئی جواب ملا؟ تو انھوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو کچھ جواب نہیں دیا پھر ان بیویوں نے ان سے کہا کہ تم پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ جواب دیں چنانچہ جب ان کی باری تھی تو انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مجھے عائشہ (رضی اللہ عنہا کی محبت) کے بارے میں نہ ستاؤ، اس لیے کہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے علاوہ اور جس بیوی کے پاس میں ہوتا ہوں تو مجھ پر کسی کی چادر میں وحی نہیں آتی۔“ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے سے اللہ عزوجل سے توبہ کرتی ہوں۔ اس کے بعد ان بیویوں نے سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی) کو بلایا اور ان کے ذریعے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہلا بھیجا کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی کے بارے میں انصاف کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا واسطہ دیتی ہیں۔“ چنانچہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بیٹی! کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتی جس کو میں پسند کرتا ہوں۔“ انھوں نے کہا کہ ہاں (میں یقیناً اسی کو پسند کرتی ہوں) پس سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا ان کے پاس لوٹ کر گئیں اور ان سے بیان کر دیا۔ ان ازواج نے ان سے کہا کہ تم پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ مگر انھوں نے دوبارہ جانے سے انکار کر دیا۔ پھر ان ازواج مطہرات نے ام المؤمنین زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کو بھیجا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور انھوں نے سخت گفتگو کی اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا واسطہ دیتی ہیں کہ ابن ابی قحافہ کی بیٹی (یعنی المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا) کے بارے میں انصاف کیجئیے اور انھوں نے اپنی آواز بلند کر لی یہاں تک کہ انھوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کی موجودگی میں انھیں سخت سست کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف دیکھنے لگے کہ وہ (کچھ) کہتی ہیں یا نہیں (راوی کہتا ہے کہ) ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں جواب دینا شروع کیا یہاں تک کہ ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کو خاموش کر دیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف دیکھا اور فرمایا: ”آخر کیوں نہ ہو! وہ ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی بیٹی ہیں۔“