19. باب: اگر کسی کو اچانک موت آ جائے تو اس کی طرف سے خیرات کرنا مستحب ہے اور میت کی نذروں کو پوری کرنا۔
(19) Chapter. It is recommended that something should be given in charity on behalf of a person who dies suddenly. And the execution of the vows of the deceased.
(مرفوع) حدثنا إسماعيل، قال: حدثني مالك، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها ان رجلا، قال للنبي صلى الله عليه وسلم:" إن امي افتلتت نفسها واراها، لو تكلمت تصدقت، افاتصدق عنها؟ قال: نعم تصدق عنها".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَجُلًا، قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا وَأُرَاهَا، لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ تَصَدَّقْ عَنْهَا".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام نے ‘ ان سے ان کے باپ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک صحابی (سعد بن عبادہ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میری والدہ کی موت اچانک واقع ہو گئی ‘ میرا خیال ہے کہ اگر انہیں گفتگو کا موقع ملتا تو وہ صدقہ کرتیں تو کیا میں ان کی طرف سے خیرات کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ان کی طرف سے خیرات کر۔
Narrated `Aisha: A man said to the Prophet, "My mother died suddenly, and I think that if she could speak, she would have given in charity. May I give in charity on her behalf?" He said, "Yes! Give in charity on her behalf."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 22
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی ابن شہاب سے ‘ انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا ‘ انہوں نے عرض کیا کہ میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے اور اس کے ذمہ ایک نذر تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی طرف سے نذر پوری کر دے۔
Narrated Ibn `Abbas: Sa`d bin Ubada consulted Allah's Apostle saying, "My mother died and she had an unfulfilled vow." The Prophet said, "Fulfill it on her behalf."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 23
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن موسى، اخبرنا هشام بن يوسف، ان ابن جريج اخبرهم، قال: اخبرني يعلى، انه سمع عكرمة مولى ابن عباس، يقول: انبانا ابن عباس، ان سعد بن عبادة رضي الله عنهم اخا بني ساعدة توفيت امه وهو غائب عنها، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إن امي توفيت وانا غائب عنها، فهل ينفعها شيء إن تصدقت به عنها؟ قال:" نعم، قال: فإني اشهدك ان حائطي المخراف صدقة عليها".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يَعْلَى، أَنَّهُ سَمِعَ عِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: أَنْبَأَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَخَا بَنِي سَاعِدَةَ تُوُفِّيَتْ أُمُّهُ وَهُوَ غَائِبٌ عَنْهَا، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ وَأَنَا غَائِبٌ عَنْهَا، فَهَلْ يَنْفَعُهَا شَيْءٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا؟ قَالَ:" نَعَمْ، قَالَ: فَإِنِّي أُشْهِدُكَ أَنَّ حَائِطِيَ الْمِخْرَافَ صَدَقَةٌ عَلَيْهَا".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی ‘ انہیں ابن جریج نے خبر دی کہا کہ مجھے یعلیٰ بن مسلم نے خبر دی ‘ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام عکرمہ سے سنا اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ قبیلہ بنی ساعدہ کے بھائی سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی ماں کا انتقال ہوا تو وہ ان کی خدمت میں حاضر نہیں تھے (بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ دومۃ الجندل میں شریک تھے) اس لیے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے اور میں اس وقت موجود نہیں تھا تو اگر میں ان کی طرف سے خیرات کروں تو انہیں اس کا فائدہ پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! سعد رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا باغ مخراف نامی ان کی طرف سے خیرات ہے۔
Narrated Ibn `Abbas: That the mother of Sa`d bin Ubada the brother of Bani Saida died in Sa`d's absence, so he came to the Prophet saying, "O Allah's Apostle! My mother died in my absence, will it benefit her if I give in charity on her behalf?" The Prophet said, "Yes." Sa`d said, "I take you as my witness that I give my garden Al-Makhraf in charity on her behalf."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 24
21. باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد (سورۃ نساء میں) کہ ”اور یتیموں کو ان کا مال پہنچا دو اور ستھرے مال کے عوض گندہ مال مت لو۔ اور ان کا مال اپنے مال کے ساتھ گڈ مڈ کر کے نہ کھاؤ بیشک یہ بہت بڑا گناہ ہے اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کر سکو گے تو دوسری عورتیں جو تمہیں پسند ہوں، ان سے نکاح کر لو“۔
(21) Chapter. The Statement of Allah: “And give unto orphans their property, and do not exchange (your) bad things for (their) good ones; and devour not their substance (by adding it) to your substance. Surely, this is a great sin”.
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: كان عروة بن الزبير يحدث، انه سال عائشة رضي الله عنها وإن خفتم الا تقسطوا في اليتامى فانكحوا ما طاب لكم من النساء سورة النساء آية 3، قالت: هي اليتيمة في حجر وليها فيرغب في جمالها، ومالها، ويريد ان يتزوجها بادنى من سنة نسائها، فنهوا عن نكاحهن إلا ان يقسطوا لهن في إكمال الصداق، وامروا بنكاح من سواهن من النساء، قالت عائشة: ثم استفتى الناس رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد، فانزل الله عز وجل ويستفتونك في النساء قل الله يفتيكم فيهن سورة النساء آية 127، قالت: فبين الله في هذه ان اليتيمة إذا كانت ذات جمال ومال رغبوا في نكاحها ولم يلحقوها بسنتها بإكمال الصداق، فإذا كانت مرغوبة عنها في قلة المال والجمال تركوها والتمسوا غيرها من النساء، قال: فكما يتركونها حين يرغبون عنها، فليس لهم ان ينكحوها إذا رغبوا فيها إلا ان يقسطوا لها الاوفى من الصداق ويعطوها حقها".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: كَانَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ يُحَدِّثُ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ سورة النساء آية 3، قَالَتْ: هِيَ الْيَتِيمَةُ فِي حَجْرِ وَلِيِّهَا فَيَرْغَبُ فِي جَمَالِهَا، وَمَالِهَا، وَيُرِيدُ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا بِأَدْنَى مِنْ سُنَّةِ نِسَائِهَا، فَنُهُوا عَنْ نِكَاحِهِنَّ إِلَّا أَنْ يُقْسِطُوا لَهُنَّ فِي إِكْمَالِ الصَّدَاقِ، وَأُمِرُوا بِنِكَاحِ مَنْ سِوَاهُنَّ مِنَ النِّسَاءِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: ثُمَّ اسْتَفْتَى النَّاسُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ سورة النساء آية 127، قَالَتْ: فَبَيَّنَ اللَّهُ فِي هَذِهِ أَنَّ الْيَتِيمَةَ إِذَا كَانَتْ ذَاتَ جَمَالٍ وَمَالٍ رَغِبُوا فِي نِكَاحِهَا وَلَمْ يُلْحِقُوهَا بِسُنَّتِهَا بِإِكْمَالِ الصَّدَاقِ، فَإِذَا كَانَتْ مَرْغُوبَةً عَنْهَا فِي قِلَّةِ الْمَالِ وَالْجَمَالِ تَرَكُوهَا وَالْتَمَسُوا غَيْرَهَا مِنَ النِّسَاءِ، قَالَ: فَكَمَا يَتْرُكُونَهَا حِينَ يَرْغَبُونَ عَنْهَا، فَلَيْسَ لَهُمْ أَنْ يَنْكِحُوهَا إِذَا رَغِبُوا فِيهَا إِلَّا أَنْ يُقْسِطُوا لَهَا الْأَوْفَى مِنَ الصَّدَاقِ وَيُعْطُوهَا حَقَّهَا".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی زہری سے کہ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ان سے حدیث بیان کرتے تھے انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے آیت «وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى فانكحوا ما طاب لكم من النساء»”اور اگر تم ڈرو کہ یتیموں کے حق میں انصاف نہیں کرو گے تو (اور) عورتوں میں سے جو تمہیں پسند ہوں ان سے نکاح کرلو۔“ کا مطلب پوچھا تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ یتیم لڑکی ہے جو اپنے ولی کی زیر پرورش ہو ‘ پھر ولی کے دل میں اس کا حسن اور اس کے مال کی طرف سے رغبت نکاح پیدا ہو جائے مگر اس کم مہر پر جو ویسی لڑکیوں کا ہونا چاہئے تو اس طرح نکاح کرنے سے روکا گیا لیکن یہ کہ ولی ان کے ساتھ پورے مہر کی ادائیگی میں انصاف سے کام لیں (تو نکاح کر سکتے ہیں) اور انہیں لڑکیوں کے سوا دوسری عورتوں سے نکاح کرنے کا حکم دیا گیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی «ويستفتونك في النساء قل الله يفتيكم فيهن»”آپ سے لوگ عورتوں کے متعلق پوچھتے ہیں آپ کہہ دیں کہ اللہ تمہیں ان کے بارے میں ہدایت کرتا ہے۔“ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان کر دیا کہ یتیم لڑکی اگر جمال اور مال والی ہو اور (ان کے ولی) ان سے نکاح کرنے کے خواہشمند ہوں لیکن پورا مہر دینے میں ان کے (خاندان کے) طریقوں کی پابندی نہ کر سکیں تو (وہ ان سے نکاح مت کریں) جبکہ مال اور حسن کی کمی کی وجہ سے ان کی طرف انہیں کوئی رغبت نہ ہوتی ہو تو انہیں وہ چھوڑ دیتے اور ان کے سوا کسی دوسری عورت کو تلاش کرتے۔ راوی نے کہا جس طرح ایسے لوگ رغبت نہ ہونے کی صورت میں ان یتیم لڑکیوں کو چھوڑ دیتے ‘ اسی طرح ان کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ جب ان لڑکیوں کی طرف انہیں رغبت ہو تو ان کے پورے مہر کے معاملے میں اور ان کے حقوق ادا کرنے میں انصاف سے کام لیے بغیر ان سے نکاح کریں۔
Narrated Az-Zuhri: `Urwa bin Az-Zubair said that he asked `Aisha about the meaning of the Qur'anic Verse:-- "And if you fear that you will not deal fairly with the orphan girls then marry (other) women of your choice." (4.2-3) Aisha said, "It is about a female orphan under the guardianship of her guardian who is inclined towards her because of her beauty and wealth, and likes to marry her with a Mahr less than what is given to women of her standard. So they (i.e. guardians) were forbidden to marry the orphans unless they paid them a full appropriate Mahr (otherwise) they were ordered to marry other women instead of them. Later on the people asked Allah's Apostle about it. So Allah revealed the following Verse:-- "They ask your instruction (O Muhammad!) regarding women. Say: Allah instructs you regarding them..." (4.127) and in this Verse Allah indicated that if the orphan girl was beautiful and wealthy, her guardian would have the desire to marry her without giving her an appropriate Mahr equal to what her peers could get, but if she was undesirable for lack of beauty or wealth, then he would not marry her, but seek to marry some other woman instead of her. So, since he did not marry her when he had no inclination towards her, he had not the right to marry her when he had an interest in her, unless he treated her justly by giving her a full Mahr and securing all her rights.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 25
22. باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد (سورۃ نساء میں) کہ ”اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائیں تو اگر تم ان میں صلاحیت دیکھ لو تو ان کے حوالے ان کا مال کر دو اور ان کے مال کو جلد جلد اسراف سے اور اس خیال سے کہ یہ بڑے ہو جائیں گے مت کھا ڈالو ‘ بلکہ جو شخص مالدار ہو تو یتیم کے مال سے بچا رہے اور جو شخص نادار ہو وہ دستور کے موافق اس میں سے کھا سکتا ہے اور جب ان کے مال ان کے حوالے کرنے لگو تو ان پر گواہ بھی کر لیا کرو اور اللہ حساب کرنے والا کافی ہے۔ مردوں کے لیے بھی اس ترکہ میں حصہ ہے جس کو والدین اور نزدیک کے قرابت دار چھوڑ جائیں اور عورتوں کے لیے بھی اس ترکہ میں حصہ ہے جس کو والدین اور نزدیک کے قرابت دار چھوڑ جائیں۔ اس (متروکہ) میں سے تھوڑا یا زیادہ ضرور ایک حصہ مقرر ہے“۔
(مرفوع) حدثنا هارون بن الاشعث، حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، حدثنا صخر بن جويرية، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، ان عمر تصدق بمال له على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان يقال له: ثمغ، وكان نخلا، فقال: عمر يا رسول الله، إني استفدت مالا وهو عندي نفيس فاردت ان اتصدق به، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" تصدق باصله لا يباع، ولا يوهب، ولا يورث، ولكن ينفق ثمره"، فتصدق به عمر، فصدقته ذلك في سبيل الله وفي الرقاب، والمساكين، والضيف، وابن السبيل، ولذي القربى، ولا جناح على من وليه ان ياكل منه بالمعروف، او يوكل صديقه غير متمول به.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ الْأَشْعَثِ، حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا صَخْرُ بْنُ جُوَيْرِيَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ عُمَرَ تَصَدَّقَ بِمَالٍ لَهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ يُقَالُ لَهُ: ثَمْغٌ، وَكَانَ نَخْلًا، فَقَالَ: عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي اسْتَفَدْتُ مَالًا وَهُوَ عِنْدِي نَفِيسٌ فَأَرَدْتُ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَصَدَّقْ بِأَصْلِهِ لَا يُبَاعُ، وَلَا يُوهَبُ، وَلَا يُورَثُ، وَلَكِنْ يُنْفَقُ ثَمَرُهُ"، فَتَصَدَّقَ بِهِ عُمَرُ، فَصَدَقَتُهُ ذَلِكَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَفِي الرِّقَابِ، وَالْمَسَاكِينِ، وَالضَّيْفِ، وَابْنِ السَّبِيلِ، وَلِذِي الْقُرْبَى، وَلَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهُ أَنْ يَأْكُلَ مِنْهُ بِالْمَعْرُوفِ، أَوْ يُوكِلَ صَدِيقَهُ غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ بِهِ.
ہم سے ہارون بن اشعث نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے بنو ہاشم کے غلام ابوسعید نے بیان کیا ‘ ان سے صخر بن جویریہ نے بیان کیا نافع سے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک جائیداد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں وقف کر دی ‘ اس جائیداد کا نام ثمغ تھا اور یہ ایک کھجور کا ایک باغ تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے ایک جائیداد ملی ہے اور میرے خیال میں نہایت عمدہ ہے ‘ اس لیے میں نے چاہا کہ اسے صدقہ کر دوں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اصل مال کو صدقہ کر کہ نہ بیچا جا سکے نہ ہبہ کیا جا سکے اور نہ اس کا کوئی وارث بن سکے ‘ صرف اس کا پھل (اللہ کی راہ میں) صرف ہو۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے صدقہ کر دیا ‘ ان کا یہ صدقہ غازیوں کے لیے ‘ غلام آزاد کرانے کے لیے، محتاجوں اور کمزوروں کے لیے ‘ مسافروں کے لیے اور رشتہ داروں کے لیے تھا اور یہ کہ اس کے نگراں کے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہو گا کہ وہ دستور کے موافق اس میں سے کھائے یا اپنے کسی دوست کو کھلائے بشرطیکہ اس میں سے مال جمع کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔
Narrated Ibn `Umar: In the lifetime of Allah's Apostle , `Umar gave in charity some of his property, a garden of date-palms called Thamgh. `Umar said, "O Allah's Apostle! I have some property which I prize highly and I want to give it in charity." The Prophet; said, "Give it in charity (i.e. as an endowment) with its land and trees on the condition that the land and trees will neither be sold nor given as a present, nor bequeathed, but the fruits are to be spent in charity." So `Umar gave it in charity, and it was for Allah's Cause, the emancipation of slaves, for the poor, for guests, for travelers, and for kinsmen. The person acting as its administrator could eat from it reasonably and fairly, and could let a friend of his eat from it provided he had no intention of becoming wealthy by its means.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 26
(موقوف) حدثنا عبيد بن إسماعيل، حدثنا ابو اسامة، عن هشام، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها ومن كان غنيا فليستعفف ومن كان فقيرا فلياكل بالمعروف سورة النساء آية 6، قالت: انزلت في والي اليتيم ان يصيب من ماله، إذا كان محتاجا بقدر ماله بالمعروف".(موقوف) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ سورة النساء آية 6، قَالَتْ: أُنْزِلَتْ فِي وَالِي الْيَتِيمِ أن يصيب من ماله، إذا كان محتاجا بقدر ماله بالمعروف".
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ہشام سے ‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے(قرآن مجید کی اس آیت) «ومن كان غنيا فليستعفف ومن كان فقيرا فليأكل بالمعرو»”اور جو شخص مالدار ہو وہ اپنے کو یتیم کے مال سے بالکل روکے رکھے ‘ البتہ جو شخص نادار ہو تو وہ دستور کے مطابق کھا سکتا ہے“ کے بارے میں فرمایا کہ یتیموں کے ولیوں کے بارے میں نازل ہوئی کہ یتیم کے مال میں سے اگر ولی نادار ہو تو دستور کے مطابق اس کے مال میں سے لے سکتا ہے۔
Narrated `Aisha: The following Verse:-- "If a guardian is well-off, let him claim no remuneration (i.e. wages), but if he is poor, let him have for himself what is just and reasonable." (4.6) was revealed in connection with the guardian of an orphan, and it means that if he is poor he can have for himself (from the orphan's wealth) what is just and reasonable according to the orphan's share of the inheritance.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 27
23. باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد (سورۃ نساء میں) کہ ”بیشک وہ لوگ جو یتیموں کا مال ظلم کے ساتھ کھا جاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں، وہ ضرور دہکتی ہوئی آگ ہی میں جھونک دیئے جائیں گے“۔
(23) Chapter. The Statement of Allah: “Verily, those who unjustly eat up the property of orphans, they eat up only fire into their bellies, and they will be burnt in the blazing Fire!” (V.4:10)
(مرفوع) حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، قال: حدثني سليمان بن بلال، عن ثور بن زيد المدني، عن ابي الغيث، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" اجتنبوا السبع الموبقات، قالوا: يا رسول الله، وما هن، قال: الشرك بالله، والسحر، وقتل النفس التي حرم الله إلا بالحق، واكل الربا، واكل مال اليتيم، والتولي يوم الزحف، وقذف المحصنات المؤمنات الغافلات".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ الْمَدَنِيِّ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا هُنَّ، قَالَ: الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَالسِّحْرُ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَأَكْلُ الرِّبَا، وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ، وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا ‘ ان سے ثور بن زید مدنی نے بیان کیا ‘ ان سے ابوغیث نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سات گناہوں سے جو تباہ کر دینے والے ہیں بچتے رہو۔“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ! وہ کون سے گناہ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ‘ جادو کرنا ‘ کسی کی ناحق جان لینا کہ جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ‘ سود کھانا ‘ یتیم کا مال کھانا ‘ لڑائی میں سے بھاگ جانا ‘ پاک دامن بھولی بھالی ایمان والی عورتوں پر تہمت لگانا۔“
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "Avoid the seven great destructive sins." The people enquire, "O Allah's Apostle! What are they? "He said, "To join others in worship along with Allah, to practice sorcery, to kill the life which Allah has forbidden except for a just cause, (according to Islamic law), to eat up Riba (usury), to eat up an orphan's wealth, to give back to the enemy and fleeing from the battlefield at the time of fighting, and to accuse, chaste women, who never even think of anything touching chastity and are good believers.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 28
24. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ البقرہ میں) یہ فرمانا کہ ”آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے لوگ یتیموں کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئیے کہ جہاں تک ہو سکے ان کے مالوں میں بہتری کا خیال رکھنا ہی بہتر ہے اور اگر تم ان کے ساتھ (ان کے اموال میں) ساتھ مل جل کر رہو تو (بہرحال) وہ بھی تمہارے ہی بھائی ہیں اور اللہ تعالیٰ سنوارنے والے اور فساد پیدا کرنے والے کو خوب جانتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمہیں تنگی میں مبتلا کر دیتا، بلاشبہ اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے“۔
لاعنتكم سورة البقرة آية 220 لاحرجكم، وضيق، وعنت خضعت.لأَعْنَتَكُمْ سورة البقرة آية 220 لَأَحْرَجَكُمْ، وَضَيَّقَ، وَعَنَتِ خَضَعَتْ.
(قرآن کی اس آیت میں) «لأعنتكم» کے معنی ہیں کہ تمہیں حرج اور تنگی میں مبتلا کر دیتا اور (سورۃ طہٰ میں لفظ) «تحنت» کے معنی منہ جھک گئے ‘ اس اللہ کے لیے جو زندہ ہے اور سب کا سنبھالنے والا ہے۔
وقال لنا سليمان، حدثنا حماد، عن ايوب، عن نافع، قال: ما رد ابن عمر على احد وصية، وكان ابن سيرين احب الاشياء إليه في مال اليتيم، ان يجتمع إليه نصحاؤه واولياؤه، فينظروا الذي هو خير له، وكان طاوس إذا سئل عن شيء من امر اليتامى قرا والله يعلم المفسد من المصلح سورة البقرة آية 220. وقال عطاء في يتامى الصغير والكبير، ينفق الولي على كل إنسان بقدره من حصته.وَقَالَ لَنَا سُلَيْمَانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: مَا رَدَّ ابْنُ عُمَرَ عَلَى أَحَدٍ وَصِيَّةً، وَكَانَ ابْنُ سِيرِينَ أَحَبَّ الْأَشْيَاءِ إِلَيْهِ فِي مَالِ الْيَتِيمِ، أَنْ يَجْتَمِعَ إِلَيْهِ نُصَحَاؤُهُ وَأَوْلِيَاؤُهُ، فَيَنْظُرُوا الَّذِي هُوَ خَيْرٌ لَهُ، وَكَانَ طَاوُسٌ إِذَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ الْيَتَامَى قَرَأَ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ سورة البقرة آية 220. وَقَالَ عَطَاءٌ فِي يَتَامَى الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ، يُنْفِقُ الْوَلِيُّ عَلَى كُلِّ إِنْسَانٍ بِقَدْرِهِ مِنْ حِصَّتِهِ.
اور امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ ان سے حماد بن اسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب نے ‘ ان سے نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کو کوئی وصی بناتا تو وہ کبھی انکار نہ کرتے۔ ابن سیرین تابعی رحمہ اللہ کا محبوب مشغلہ یہ تھا کہ یتیم کے مال و جائیداد کے سلسلے میں ان کے خیر خواہوں اور ولیوں کو جمع کرتے تاکہ ان کے لیے کوئی اچھی صورت پیدا کرنے کے لیے غور کریں۔ طاؤس تابعی رحمہ اللہ سے جب یتیموں کے بارے میں کوئی سوال کیا جاتا تو آپ یہ آیت پڑھتے کہ «والله يعلم المفسد من المصلح»”اور اللہ فساد پیدا کرنے والے اور سنوارنے والے کو خوب جانتا ہے۔“ عطاء رحمہ اللہ نے یتیموں کے بارے میں کہا خواہ وہ معمولی قسم کے لوگوں میں ہوں یا بڑے درجے کے ‘ اس کا ولی اس کے حصہ میں سے جیسے اس کے لائق ہو، ویسا اس پر خرچ کرے۔
Nafi' said: "Ibn 'Umar never refused to be appointed as guardian." The most beloved thing to Ibn Sirin concerning an orphan's wealth was that the orphan's advisor and guardians would assemble to decide what is best for him. When Tawus was asked about something concerning an orphan's affairs, he would recite: '...And Allah knows him who means mischief from him who means good...' (V 2:220). 'Ata said concerning some orphans, "The guardian is to provide for the young and the old orphans according to their needs from their shares."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 28