(مرفوع) حدثنا هارون بن الاشعث، حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، حدثنا صخر بن جويرية، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، ان عمر تصدق بمال له على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان يقال له: ثمغ، وكان نخلا، فقال: عمر يا رسول الله، إني استفدت مالا وهو عندي نفيس فاردت ان اتصدق به، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" تصدق باصله لا يباع، ولا يوهب، ولا يورث، ولكن ينفق ثمره"، فتصدق به عمر، فصدقته ذلك في سبيل الله وفي الرقاب، والمساكين، والضيف، وابن السبيل، ولذي القربى، ولا جناح على من وليه ان ياكل منه بالمعروف، او يوكل صديقه غير متمول به.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ الْأَشْعَثِ، حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا صَخْرُ بْنُ جُوَيْرِيَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ عُمَرَ تَصَدَّقَ بِمَالٍ لَهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ يُقَالُ لَهُ: ثَمْغٌ، وَكَانَ نَخْلًا، فَقَالَ: عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي اسْتَفَدْتُ مَالًا وَهُوَ عِنْدِي نَفِيسٌ فَأَرَدْتُ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَصَدَّقْ بِأَصْلِهِ لَا يُبَاعُ، وَلَا يُوهَبُ، وَلَا يُورَثُ، وَلَكِنْ يُنْفَقُ ثَمَرُهُ"، فَتَصَدَّقَ بِهِ عُمَرُ، فَصَدَقَتُهُ ذَلِكَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَفِي الرِّقَابِ، وَالْمَسَاكِينِ، وَالضَّيْفِ، وَابْنِ السَّبِيلِ، وَلِذِي الْقُرْبَى، وَلَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهُ أَنْ يَأْكُلَ مِنْهُ بِالْمَعْرُوفِ، أَوْ يُوكِلَ صَدِيقَهُ غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ بِهِ.
ہم سے ہارون بن اشعث نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے بنو ہاشم کے غلام ابوسعید نے بیان کیا ‘ ان سے صخر بن جویریہ نے بیان کیا نافع سے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک جائیداد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں وقف کر دی ‘ اس جائیداد کا نام ثمغ تھا اور یہ ایک کھجور کا ایک باغ تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے ایک جائیداد ملی ہے اور میرے خیال میں نہایت عمدہ ہے ‘ اس لیے میں نے چاہا کہ اسے صدقہ کر دوں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اصل مال کو صدقہ کر کہ نہ بیچا جا سکے نہ ہبہ کیا جا سکے اور نہ اس کا کوئی وارث بن سکے ‘ صرف اس کا پھل (اللہ کی راہ میں) صرف ہو۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے صدقہ کر دیا ‘ ان کا یہ صدقہ غازیوں کے لیے ‘ غلام آزاد کرانے کے لیے، محتاجوں اور کمزوروں کے لیے ‘ مسافروں کے لیے اور رشتہ داروں کے لیے تھا اور یہ کہ اس کے نگراں کے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہو گا کہ وہ دستور کے موافق اس میں سے کھائے یا اپنے کسی دوست کو کھلائے بشرطیکہ اس میں سے مال جمع کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔
Narrated Ibn `Umar: In the lifetime of Allah's Apostle , `Umar gave in charity some of his property, a garden of date-palms called Thamgh. `Umar said, "O Allah's Apostle! I have some property which I prize highly and I want to give it in charity." The Prophet; said, "Give it in charity (i.e. as an endowment) with its land and trees on the condition that the land and trees will neither be sold nor given as a present, nor bequeathed, but the fruits are to be spent in charity." So `Umar gave it in charity, and it was for Allah's Cause, the emancipation of slaves, for the poor, for guests, for travelers, and for kinsmen. The person acting as its administrator could eat from it reasonably and fairly, and could let a friend of his eat from it provided he had no intention of becoming wealthy by its means.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 26
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2764
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ وقف کا متولی اپنی محنت کے عوض دستور کے موافق اس میں سے کھا سکتا ہے جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے اپنا باغ وقف فرماتے وقت طے کر دیا تھا۔ امام قسطلانی ؒ فرماتے ہیں: ومطابقة الحدیث للترجمة من جھة أن المقصود جواز أخذ الأجرة من مال الیتیم لقول عمر ولا جناح علی من ولیه أن یأکل منه بالمعروف (قسطلانی) مطلب وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2764
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2764
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ وقف کا نگران اپنی محنت کے عوض دستور کے مطابق اس سے کھا سکتا ہے جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے باغ وقف کرتے وقت طے کر دیا تھا۔ اسی طرح یتیم کا مال تجارت میں لگانا، پھر اس سے محنت کا عوضانہ وصول کرنا جائز ہے بشرطیکہ عرف کے مطابق ہو۔ اسے ذخیرہ اندوزی کا بہانہ بنانا درست نہیں جیسا کہ آئندہ حدیث عائشہ میں اس کی وضاحت ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2764