سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اگر پچھلے مسلمانوں کا خیال نہ ہوتا تو جو شہر فتح ہوتا میں اسے وہاں کے رہنے والوں پر تقسیم کر دیتا جس طرح خیبر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تقسیم کر دیا تھا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی ایسی زمین کو آباد کرے جو کسی کی ملکیت نہ ہو تو وہ آباد کرنے والا اس کا زیادہ حقدار ہے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہود و نصاریٰ کو سرزمین حجاز سے نکال دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبر پر غلبہ پایا تو وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو نکال دینے کا ارادہ کیا اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پر غلبہ پایا تھا تو اسی وقت وہاں کی زمین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مسلمان کی ہو گئی تھی پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں سے یہود کو نکال دینے کا ارادہ کیا تو یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ ان کو وہیں رہنے دیں اس شرط پر کہ وہ وہاں کام کریں گے اور انھیں نصف پھل ملیں گے۔ تب ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا! ہم اس شرط پر کہ تم کو جب تک چاہیں گے رکھیں گے۔ چنانچہ وہ وہاں رہتے تھے یہاں تک کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو (مقام) تیماء اور اریحاء کی طرف نکال دیا۔
سیدنا رافع بن خدیج (بن رافع) رضی اللہ عنہ اپنے چچا سیدنا ظہیر بن رافع رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے کام سے ہمیں منع فرما دیا کہ جس سے ہمیں بہت آسانی ہوتی تھی میں نے کہا کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ حق ہے۔ انھوں نے کہا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا اور فرمایا: ”تم اپنی کھیتیوں کو کیا کرتے ہو؟“ میں نے کہا کہ ہم ان کو چوتھائی (پیداوار) پر اور (کبھی) کھجور اور جو کے چند وسق پر کرایہ پر دے دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا نہ کیا کرو خود ان کو زراعت کرو یا (کسی سے) ان کی زراعت کروا لو یا ان کو اپنے پاس روک رکھو۔“ سیدنا رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو ارشاد ہوا ”ہم نے سنا اور دل سے قبول کیا۔“
(نافع رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہما کے دور میں اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی شروع امارت میں اپنے کھیت کرایہ پر دیا کرتے تھے۔ اس کے بعد ان سے سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیتیوں کو کرایہ پر دینے سے منع فرمایا ہے تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سیدنا رافع رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور میں (نافع) بھی ان کے ساتھ گیا۔ پس سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیتوں کو کرایہ پر دینے سے منع فرمایا ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ تم جانتے ہو کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اپنے کھیت چوتھائی پیداوار پر کسی قدر بھوسہ پر کرایہ پر دیتے تھے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کھیت کرایہ پر دیے جاتے تھے، اس کے بعد سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کو خیال آیا کہ شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کوئی نیا حکم دیا ہو جو ان کو معلوم نہیں لہٰذا انھوں نے (احتیاطاً) کھیت کا کرایہ پر دینا موقوف کر دیا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن یہ بیان فرما رہے تھے اور (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک گاؤں کا آدمی بیٹھا ہوا تھا: ”ایک شخص اہل جنت میں سے اپنے پروردگار سے کھیتی کرنے کی اجازت طلب کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ کیا تو جس حالت میں ہے اس میں خوش نہیں ہے“ وہ عرض کرے گا کہ ہاں خوش تو ہوں لیکن میں چاہتا ہوں کہ کھیتی کروں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر وہ بیج بوئے گا تو اس کا اگنا اور بڑھنا اور کٹنا پلک جھپکنے سے پہلے ہو جائے گا اور اس کی پیداوار کے ڈھیر پہاڑوں کے برابر ہو جائیں گے تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے ابن آدم! تو کسی چیز سے سیر ہی نہیں ہوتا۔“ تو وہ اعرابی کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! آپ ایسا شخص کسی قریشی یا انصاری کو پائیں گے اس لیے کہ وہی لوگ کاشتکار ہیں اور ہم تو کاشتکار نہیں ہیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے۔