سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اس شخص پر رحم کرے جو بیچتے وقت اور خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت نرمی اور فیاضی سے کام لے۔“
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے پہلے لوگوں میں فرشتوں نے ایک شخص کی روح سے ملاقات کی اور کہا کہ کیا تو نے کچھ نیکی کی ہے؟ اس نے کہا کہ (کچھ خاص تو نہیں بس) میں اپنے ملازموں کو یہ حکم دیتا تھا کہ وہ تنگ دست کو ادائے قرض معاف کر دیں اور مالدار سے (تقاضا میں) نرمی اختیار کریں۔“ راوی نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چنانچہ انھوں نے بھی اس کو چھوڑ دیا۔“
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیچنے والے اور خریدار دونوں کو اختیار ہے جب تک کہ جدا نہ ہوں“ یا یہ فرمایا“ یہاں تک کہ علیحدہ ہو جائیں، پس دونوں گروہ سچ بولیں اور عیب و ہنر اس کا ظاہر کر دیں تو انھیں ان کی اس خریدوفروخت میں برکت دی جائے گی اور اگر جھوٹ بولیں گے اور عیب پوشی کریں گے تو ان کی تجارت میں سے برکت ختم کر دی جائے گی۔“
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں مختلف اقسام کی ملی جلی کھجوریں ملا کرتی تھیں تو ہم ان کے دو صاع ایک صاع (ایک ہی قسم کی اچھی کھجور) کے عوض فروخت کر دیتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو صاع، ایک صاع کے عوض فروخت نہ کرو اور نہ دو درہم ایک درہم کے عوض (کیونکہ یہ سود ہے)۔“
سیدنا ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ کو دیکھا کہ انھوں نے ایک غلام خریدا جو پچھنے لگاتا تھا پھر اس کے پچھنے لگانے کے اوزار کو انھوں نے توڑ دیا تو میں نے ان سے (اس کا سبب) پوچھا تو انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت اور خون کی قیمت لینے سے منع فرمایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے داغ لگانے والی اور داغ لگوانے والی (یعنی بازو وغیرہ پر سرمے یا نیل کے ساتھ نام لکھنا، لکھوانا یا پھول وغیرہ بنانا، بنوانا) اور سود لینے اور سود دینے سے بھی منع فرمایا ہے اور مصور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جھوٹی قسم مال کو کھوٹا کر دیتی ہے اور برکت کو مٹا دیتی ہے۔“
سیدنا خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں دور جاہلیت میں لوہار تھا اور عاص بن وائل پر میرا کچھ قرض تھا، میں اس کے تقاضے کے لیے عاص کے پاس آیا کرتا تھا۔ عاص نے (مجھ سے ایک مرتبہ کہا) کہ میں تمہیں نہ دوں گا تاوقتیکہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کر جاؤ۔ میں نے کہا اگر اللہ تجھے موت دے اور مرنے کے بعد تو پھر زندہ کیا جائے۔ تب بھی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم (کی نبوت) کا انکار نہ کروں گا۔ عاص نے کہا کہ پھر تم مجھے چھوڑ دو تاکہ میں مر جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں کیونکہ اس وقت مجھے مال بھی ملے گا اولاد بھی ملے گی، میں تمہارا قرض ادا کر دوں گا۔ اس پر (سورۃ مریم: 77 , 78 کی) یہ آیات نازل ہوئیں: ”اے نبی! کیا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جو ہماری آیتوں کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بیشک ضرور (اگر میں مرنے کے بعد زندہ کیا جاؤں گا تو) مجھ کو مال اور اولاد ملے گی۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک درزی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلانے کے لیے بلایا جو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تیار کیا تھا تو میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ اس کھانے پر گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے روٹی اور شوربا جس میں ہرا گھیا (لمبا کدو) اور سوکھا ہوا گوشت تھا، رکھ دیا پس میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو پیالے میں ادھر ادھر سے کدو کو ڈھونڈتے تھے لہٰذا میں اس دن سے کدو کو اچھا سمجھتا ہوں۔“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں کسی جہاد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا تو میرے اونٹ نے مجھے لے کر چلنے میں سستی کی اور تھک گیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور مجھے پکارا: ”جابر!“ میں نے عرض کی جی۔ فرمایا: ”تمہارا کیا حال ہے؟“ میں نے عرض کی کہ میرا اونٹ چلنے میں سستی کرتا ہے اور تھک گیا ہے، اس سبب سے میں پیچھے رہ گیا ہوں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور اسے اپنی لاٹھی سے مارا اس کے بعد مجھ سے فرمایا: ”اب سوار ہو جاؤ۔“ چنانچہ میں سوار ہو گیا (وہ اونٹ اس وقت ایسا تیز ہو گیا کہ) بیشک میں اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے برابر ہو جانے) سے روکتا تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم نے نکاح کیا ہے؟“ میں نے عرض کی جی ہاں۔ فرمایا: ”کنواری عورت سے نکاح کیا ہے یا شادی شدہ سے؟“ میں نے عرض کہ بیاہی سے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی نوعمر کنواری سے نکاح کیوں نہیں کیا کہ تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی؟“ میں نے عرض کی کہ میری (کچھ کم عمر) بہنیں ہیں لہٰذا میں نے یہ چاہا کہ ایک ایسی عورت سے نکاح کروں جو ان سب کو سمیٹ لے اور ان کے کنگھی کر دیا کرے اور ان کی خبرگیری کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا اب تم اپنی بیوی کے پاس پہنچو گے تو خوب خوب (صحبت کے) مزے اٹھانا۔“ پھر آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اپنا اونٹ فروخت کرو گے؟“ میں نے عرض کہ جی ہاں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اونٹ مجھ سے ایک اوقیہ (سونے یا چاندی) کے عوض خرید لیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے پہلے پہنچ گئے اور میں صبح کو پہنچا پھر ہم لوگ مسجد کی طرف گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم نے مسجد کے دروازے پر پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم ابھی چلے آ رہے ہو؟“ میں نے عرض کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنا اونٹ چھوڑ دو اور مسجد میں جاؤ اور دو رکعت نماز پڑھو۔“ چنانچہ میں نے نماز پڑھی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ مجھے ایک اوقیہ (سونا یا چاندی) تول دیں چنانچہ انھوں نے مجھے جھکتا ہوا تول دیا۔ پس میں گھر کی طرف واپس چلا ہی تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کو میرے پاس بلا لاؤ۔“ میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ اب میرا اونٹ مجھے واپس مل جائے گا حالانکہ مجھے یہ بات بہت ہی ناپسندیدہ معلوم ہوتی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنا اونٹ بھی لے لو اور اس کی قیمت بھی لے لو۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی سے کچھ بیمار اونٹ خریدے۔ اس آدمی کا اس کاروبار میں ایک شراکت دار بھی تھا پس اس آدمی کا وہ شریک سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور بطور معذرت کے کہا کہ میرے شریک نے بیمار اونٹ آپ کے ہاتھ فروخت کر دیے ہیں، اس نے آپ کو پہچانا نہیں۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا اچھا تم ان کو واپس لے جاؤ۔ اس کے بعد کہنے لگے کہ انھیں چھوڑ جاؤ، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر راضی ہیں کیونکہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے)”ایک کا مرض دوسرے کو نہیں لگتا۔“