ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزہ کی حالت میں (اپنی ازواج مطہرات کو) بوسہ دے لیا کرتے تھے اور مباشرت (یعنی گلے لگا) لیا کرتے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش پر تم سے زیادہ قابو رکھتے تھے۔ (ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی فرماتی ہیں کہ روزہ دار کے لیے عورت کی شرمگاہ حرام ہے۔ یہاں مباشرت سے مراد معانقہ کرنا اور جسم سے جسم ملانا ہے)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص بھول کر کھا پی لے تو وہ اپنا روزہ کو پورا کر لے کیونکہ یہ تو اللہ نے اس کو کھلا پلا دیا ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(ایک دن) اس حال میں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں تو برباد ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا ہوا؟“ اس نے عرض کی کہ میں نے روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے ہمبستری کر لی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو ایک غلام آزاد کر سکتا ہے؟“ تو اس نے عرض کی کہ نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے؟“ تو اس نے عرض کی کہ نہیں۔ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توقف کیا۔ ہم اسی حال میں تھے کہ کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں سے بھرا ہوا خرمے کی چھال کا ایک ٹوکرا لایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سائل کہاں ہے؟“ تو اس نے عرض کی کہ حاضر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ٹوکرے کو لے لے اور خیرات کر دے۔“ اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! کیا اپنے سے زیادہ محتاج کو خیرات کر دوں تو اللہ کی قسم! مدینہ کے دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کوئی گھر میرے گھر سے زیادہ محتاج نہیں ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا ہنسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت مبارک نظر آنے لگے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا! پھر اپنے ہی گھر والوں کو کھلا دے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں بھی پچھنے لگوائے ہیں اور روزے کی حالت میں بھی (پچھنے لگوائے ہیں)۔
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم کسی سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے (جب شام ہو گئی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا: ”اترو اور میرے لیے ستو گھول دو۔ اس نے عرض کی یا رسول اللہ! ابھی آفتاب موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا: ”اترو اور میرے لیے ستو گھول دو۔“ اس نے پھر عرض کی یا رسول اللہ! ابھی تو آفتاب موجود ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اترو اور میرے لیے ستو گھول دو،“ چنانچہ وہ اونٹ سے اترے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ستو گھول دیے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیے اور اپنے ہاتھ سے اس طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ”جب تم رات کو دیکھو کہ اس طرف سے آ گئی تو روزہ دار روزہ افطار کر لے۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا زوجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ کیا میں سفر میں روزہ رکھوں؟ اور وہ اکثر روزہ رکھا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر چاہو تو روزہ رکھو اور چاہو تو نہ رکھو۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک مرتبہ) رمضان میں مکہ کی طرف تشریف لے چلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متواتر روزے رکھے یہاں تک کہ جب مقام ”کدید“ پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنا چھوڑ دیا تو لوگوں نے بھی روزہ رکھنا چھوڑ دیا۔
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم گرمی کے موسم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کسی سفر میں نکلے، ایسی سخت گرمی تھی کہ آدمی شدید گرمی سے اپنے سر پر ہاتھ رکھ لیتا تھا اور کوئی شخص ہم میں سے روزہ دار نہ تھا سوائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور عبداللہ ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر (غزوہ فتح) میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہجوم دیکھا اور ایک شخص کو دیکھا کہ اس پر سایہ کیا گیا تھا۔ فرمایا: ”اس کو کیا ہوا؟“ تو لوگوں نے عرض کی کہ یہ شخص روزہ دار ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس حالت میں) سفر میں روزہ رکھنا اچھا نہیں ہیں“(کیونکہ اس مسئلہ میں رکھنے اور نہ رکھنے کا اختیار ہے دیکھئیے پچھلی حدیث باب: سفر میں روزہ رکھنا اور افطار کرنا)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سفر کیا کرتے تھے تو ہم نے دیکھا کہ روزہ رکھنے والا روزہ نہ رکھنے والے کو برا نہیں سمجھتا تھا اور روزہ نہ رکھنے والا بھی روزہ دار کو برا نہیں سمجھتا تھا۔