سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مدینہ میں مسیح دجال کا رعب داخل نہ ہو گا اس وقت مدینہ کے سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر دو فرشتے (پہرہ دیتے) ہوں گے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مدینہ کے دروازوں پر فرشتے پہرہ دیں گے وہاں نہ طاعون کی بیماری آئے گی اور نہ ہی دجال مدینہ میں داخل ہو سکے گا۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دجال دنیا کے ہر شہر کو ضرور روندے گا سوائے مکہ اور مدینہ کے۔ ان دونوں کے ہر راستے پر فرشتے صف بستہ پہرہ دیں گے پھر مدینہ اپنے لوگوں کو تین بار خوب زور سے ہلا دے گا پس اللہ ہر کافر و منافق کو (جو اس وقت مدینہ میں موجود ہو گا) نکال دے گا۔“
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ایک بہت طویل قصہ بیان فرمایا تھا تو منجملہ اس کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان فرمایا کچھ یہ تھا: ”دجال مدینہ کی کھاری زمین پر آ کر اترے گا لیکن اس پر مدینہ کے اندر آنا حرام کر دیا گیا ہے۔ تو اس وقت ایک شخص جو تمام انسانوں میں سب سے بہتر اور نیک ہو گا، دجال کے پاس جائے گا اور کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث بیان فرما دی تھی تو دجال لوگوں سے کہے گا کہ بتاؤ! اگر میں اس شخص کو قتل کر کے پھر زندہ کر دوں گا تو کیا تم لوگ پھر بھی (میرے) معاملہ میں شک کرو گے؟ تو لوگ جواب دیں گے کہ نہیں۔ چنانچہ دجال پہلے تو اس نیک شخص کو قتل کرے گا پھر زندہ کر دے گا۔ وہ نیک شخص زندہ ہو کر کہے گا کہ اللہ کی قسم! اب تو مجھے پورا یقین ہو گیا ہے کہ تو وہی دجال ہے تو دجال پھر اس نیک شخص کو قتل کرنا چاہے گا مگر نہ کر سکے گا۔“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کی پھر وہ دوسرے دن بخار میں مبتلا ہو کر آیا اور کہنے لگا کہ آپ اپنی بیعت واپس لے لیجئیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ انکار فرمایا اس کے بعد فرمایا: ”مدینہ مثل بھٹی کے ہے جو میل کچیل کو نکال دیتی ہے اور عمدہ اور خالص رکھ لیتی ہے۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! جس قدر برکت تو نے مکہ میں رکھی ہے اس سے دگنی مدینہ میں کر دے۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ (ہجرت کر کے) مدینہ تشریف لے گئے تو سیدنا ابوبکر اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو بخار ہو گیا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی یہ حالت تھی کہ جب ان کو بخار چڑھتا تھا تو وہ یہ کہتے تھے کہ: ”ہر شخص اپنے گھر میں صبح کو اٹھتا ہے اور (وہ نہیں جانتا کہ) موت اس کی جوتی کے تسمہ سے بھی زیادہ قریب ہے۔“ اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی یہ حالت تھی کہ جب ان کو بخار چڑھتا تھا تو وہ اپنی آواز بلند کرتے تھے کہ: ”اے کاش مجھے معلوم ہو جاتا کہ کیا پھر میں کبھی ایسے میدان میں شب بسر کروں گا کہ میرے گرد اذخر اور جلیل (نامی گھاس) ہو گی اور کیا میں اب کبھی مجنہ کے چشموں پر پہنچوں گا اور کیا اب کبھی مجھے شامہ اور طفیل (نامی پہاڑ) دکھائی دیں گے؟“(پھر یہ دعا بھی مانگتے): ”اے اللہ! لعنت فرما شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف پر جیسا کہ انھوں نے ہم کو ہمارے وطن (مکہ) سے ایک وبائی زمین (مدینہ) کی طرف نکال دیا۔“ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دعا فرمائی: ”اے اللہ! مدینہ کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے جس طرح کہ ہم مکہ سے محبت رکھتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اے اللہ! ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما اور مدینہ کی آب و ہوا ہمارے لیے درست کر دے اور اس کا بخار حجفہ (کے مشرکوں) کی طرف لے جا۔ (ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا) کہتی ہیں جب ہم مدینہ میں آئے تو وہ اللہ کی سب سے زیادہ وبائی زمین تھی۔ نیز کہتی ہیں کہ اس وقت وادی بطحان میں نجل یعنی بدبودار پانی بہا کرتا تھا۔