مختصر صحيح بخاري
فضائل مدینہ کے بیان میں
((باب))
حدیث نمبر: 918
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ (ہجرت کر کے) مدینہ تشریف لے گئے تو سیدنا ابوبکر اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو بخار ہو گیا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی یہ حالت تھی کہ جب ان کو بخار چڑھتا تھا تو وہ یہ کہتے تھے کہ: ”ہر شخص اپنے گھر میں صبح کو اٹھتا ہے اور (وہ نہیں جانتا کہ) موت اس کی جوتی کے تسمہ سے بھی زیادہ قریب ہے۔“ اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی یہ حالت تھی کہ جب ان کو بخار چڑھتا تھا تو وہ اپنی آواز بلند کرتے تھے کہ: ”اے کاش مجھے معلوم ہو جاتا کہ کیا پھر میں کبھی ایسے میدان میں شب بسر کروں گا کہ میرے گرد اذخر اور جلیل (نامی گھاس) ہو گی اور کیا میں اب کبھی مجنہ کے چشموں پر پہنچوں گا اور کیا اب کبھی مجھے شامہ اور طفیل (نامی پہاڑ) دکھائی دیں گے؟“ (پھر یہ دعا بھی مانگتے): ”اے اللہ! لعنت فرما شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف پر جیسا کہ انھوں نے ہم کو ہمارے وطن (مکہ) سے ایک وبائی زمین (مدینہ) کی طرف نکال دیا۔“ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دعا فرمائی: ”اے اللہ! مدینہ کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے جس طرح کہ ہم مکہ سے محبت رکھتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اے اللہ! ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما اور مدینہ کی آب و ہوا ہمارے لیے درست کر دے اور اس کا بخار حجفہ (کے مشرکوں) کی طرف لے جا۔ (ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا) کہتی ہیں جب ہم مدینہ میں آئے تو وہ اللہ کی سب سے زیادہ وبائی زمین تھی۔ نیز کہتی ہیں کہ اس وقت وادی بطحان میں نجل یعنی بدبودار پانی بہا کرتا تھا۔