سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حدیبیہ کے سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ چلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے (جلدی سے) احرام باندھ لیا اور میں نے (اس وقت تک) احرام نہیں باندھا تھا پھر ہمیں خبر دی گئی کہ (مقام) غیقہ میں دشمن ہے جو کہ لڑنا چاہتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور میں (ابوقتادہ) بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے ساتھ تھا۔ پھر میرے ساتھیوں نے ایک گورخر (جنگلی گدھا) دیکھا تو وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگے (میں سمجھ گیا کہ کسی شکار کو دیکھ کر ہنس رہے ہیں) پھر میں نے بھی نظر اٹھائی تو گورخر کو دیکھ لیا، میں نے گھوڑا اس کے پیچھے دوڑا دیا۔ اسے تیر مار کر گرا دیا پھر میں نے ان لوگوں سے مدد چاہی تو انھوں نے میری مدد کرنے سے انکار دیا (بالاخر میں نے ہی اس کو ذبح کیا) پھر ہم سب نے اس کا گوشت کھایا اس کے بعد میں اپنا گھوڑا سرپٹ دوڑا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈنے لگا۔ ہمیں یہ خوف ہو گیا تھا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چھوٹ جائیں گے پھر (راستہ میں) بنی غفار کے ایک شخص سے ملاقات ہوئی، میں نے پوچھا کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہاں چھوڑا ہے؟ تو اس نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تعھن نامی چشمہ پر چھوڑا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ تھا کہ مقام سقیا میں قیلولہ کریں (یہ پوچھ کر میں چل دیا) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملا، جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! صحابہ نے مجھے بھیجا ہے، انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام اور اللہ کی رحمت عرض کی ہے اور انھیں یہ خوف ہے کہ دشمن انھیں آپ سے جدا کر دے گا پس آپ ان کا انتظار کیجئیے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایسا ہی) کیا پھر میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم نے ایک گورخر کو شکار کیا ہے اور ہمارے پاس اس کا کچھ بچا ہوا گوشت ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے فرمایا: ”کھاؤ۔“ حالانکہ وہ سب احرام میں تھے۔
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ ہی ایک روایت میں کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مقام قاحہ میں مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر تھے اور ہم میں سے کچھ لوگ احرام کی حالت میں تھے اور کچھ بغیر احرام کے تھے اور پھر پوری حدیث بیان کی دیکھیں باب: اگر بغیر احرام کے آدمی شکار کرے اور احرام والے کو ہدیتاً دے تو احرام والے کے لیے اس کا کھانا جائز ہے۔۔۔) بیان کی۔
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے دوسری روایت میں منقول ہے کہ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے دریافت فرمایا: ”کیا تم میں سے کسی شخص نے ابوقتادہ کو اس شکار پر حملہ کرنے کے لیے کہا تھا؟“ انھوں نے عرض کی نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر کچھ حرج نہیں ہے اس کا باقی گوشت کھاؤ۔“
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا صعب بن جثامہ لیثی رضی اللہ عنہ نے ایک گورخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیتاً دیا اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابواء یا مقام دوران میں تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کر دیا پھر جب ان کے چہرے پر رنج کا اثر دیکھا تو فرمایا: ”ہم نے صرف اسی وجہ سے واپس کیا کہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ موذی جانور ایسے ہیں کہ وہ احرام میں بھی مار دیئے جائیں وہ کوا، چیل، بچھو، چوہا، کاٹنے والا کتا ہیں۔“
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اس حال میں کہ ہم منیٰ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک غار میں تھے کہ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ المرسلات نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاوت کرنے لگے اور میں اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (سن کر) یاد کرنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی تک اس کی تلاوت کر رہے تھے کہ اچانک ایک سانپ ہم لوگوں پر کودا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس کو مار دو۔“ چنانچہ ہم اس پر لپکے مگر وہ چلا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تمہارے ضرر سے بچا لیا گیا جس طرح تم اس کے ضرر سے بچا لیے گئے۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپکلی کے بارے میں فرمایا: ”یہ موذی ہے۔“ مگر میں نے اس کو مارنے کا حکم دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں سنا۔ (لیکن اس کو مار دینا چاہیے)۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دن مکہ فتح کیا یہ فرمایا: ”اب ہجرت باقی نہیں رہی، ہاں جہاد اور نیت (کا ثواب ابھی ہے) پس جس وقت تم لوگ جہاد کے لیے طلب کیے جاؤ تو (فوراً) نکل کھڑے ہو۔“