سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان تمام گناہوں کے لیے کفارہ ہے جو دونوں عمروں کے درمیان ہو گئے ہوں اور حج مبرور کا نعم البدل اللہ تعالیٰ کی تیار کردہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے حج کرنے سے پہلے عمرہ کی بابت پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ کچھ حرج نہیں۔ مزید کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج سے پہلے عمرہ ادا فرمایا تھا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے ادا فرمائے؟ تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ چار۔ ان میں سے ایک رجب میں۔ پس سائل نے کہا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے میں نے پوچھا کہ کیا آپ کو خبر ملی کہ ابوعبدالرحمن (ابن عمر رضی اللہ عنہما) کیا کہہ رہے ہیں؟ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے ادا فرمائے جن میں سے ایک رجب میں تھا۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ اللہ ابوعبدالرحمن پر رحم فرمائے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ ادا فرمایا تو وہ ضرور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے لیکن (اس کے باوجود بھول گئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی رجب میں عمرہ ادا نہیں فرمایا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے ادا فرمائے تو انھوں نے کہا، چار ایک عمرہ حدیبیہ ذیقعدہ میں کیا جہاں پر مشرکوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس کر دیا تھا اور ایک عمرہ قضاء ذیقعدہ ہی میں آئندہ سال کیا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں سے صلح کی تھی اور ایک عمرہ جعرانہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) اس وقت (کیا) جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (شاید حنین کا) مال غنیمت تقسیم کیا۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس قدر حج ادا فرمائے؟ تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ صرف ایک ہی (یعنی حجتہ الوداع)۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے ہی ایک روایت میں کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عمرہ اس وقت ادا فرمایا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکوں نے واپس کر دیا تھا اور ایک عمرہ حدیبیہ سال آئندہ میں اور ایک عمرہ ذیقعدہ میں اور ایک عمرہ اپنے حج (حجتہ الوداع) کے ساتھ ادا فرمایا تھا۔
سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا تھا کہ وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہمراہ چلے جائیں اور انھیں تنعیم سے عمرہ کروا لائیں۔ اور سیدنا سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جمرہ عقبہ کے پاس اس وقت ملے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر کنکریاں مار رہے تھے تو انھوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! کیا یہ حج کو فسخ کر کے عمرہ کر دینا خاص آپ ہی کے لیے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں! بلکہ ہمیشہ کے لیے یہ بات جائز ہے۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اس روایت میں منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے عمرہ کے بارے میں فرمایا: ”لیکن اس کا ثواب بقدر تمہارے خرچ کے یا بقدر تمہاری مشقت کے ملے گا۔“
سیدہ اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہا جب کبھی مقام حجون میں سے گزرتیں تو کہتیں کہ اللہ اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر رحمت نازل فرمائے بیشک ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ اس مقام میں اترے تھے اور اس وقت ہم ہلکے پھلکے تھے، ہماری سواریاں بھی کم تھیں اور ہمارے پاس زادراہ بھی کم تھا پس میں نے اور میری بہن ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے اور زبیر نے اور فلاں فلاں شخص نے (حج کو فسخ کر کے) عمرہ کیا پس ہم کعبہ کا طواف کر کے احرام سے باہر ہو گئے پھر ہم نے تیسرے پہر شام کو حج کا احرام باندھ لیا۔