سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان پر اس کے (خدمت گزار) غلام اور اس کی (سواری کے) گھوڑے پر زکوٰۃ فرض نہیں۔“
سیدنا ابو سعید خدری ٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے اور ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بیٹھ گئے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اپنے بعد جن باتوں کا خوف تمہارے لیے کرتا ہوں ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ تم پر دنیا کی تازگی اور اس کی آرائش کھول دی جائے گی۔“ تو ایک شخص نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! (مال کی زیادتی سے کیا خرابی ہو گی؟ مال تو اتنی اچھی چیز ہے) کیا اچھی چیز بھی برائی پیدا کرے گی؟ (یہ سن کر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے تو اس سے کہا گیا کہ تجھے کیا ہو گیا ہے کہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرتا ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تجھ سے کلام نہیں فرماتے۔ پھر ہم کو یہ خیال ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتر رہی ہے (اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت فرمایا ہے چنانچہ جب وحی اتر چکی تو) کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرے سے پسینہ پونچھا اور فرمایا: ”سائل کہاں ہے؟“ گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (کے سوال) کو پسند فرمایا: ”پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ہاں یہ صحیح ہے کہ) اچھی چیز پر برائی نہیں پیدا کرتی مگر (بے موقع استعمال سے برائی پیدا ہوتی ہے) دیکھو فصل ربیع کے ساتھ ایسی گھاس بھی پیدا ہوتی ہے جو (اپنے چرنے والے جانور کو) کو مار ڈالتی ہے یا بیمار کر دیتی ہے۔ مگر اس سبزی کو چرنے والوں میں سے جو چر لے یہاں تک کہ جب اس کے دونوں کوکھیں بھر جائیں تو وہ آفتاب کے سامنے ہو جائے پھر لید کرے اور پیشاب کرے اور (اس کے بعد پھر) چرے (ایک دم بےانتہا نہ چرتا چلا جائے تو وہ نہیں مرتا) اور بیشک یہ مال ایک خوشگوار سبزہ زار ہے پس کیا اچھا مال ہے مسلمان کا کہ وہ اس میں سے مسکین کو اور یتیم کو اور مسافر کو دے۔ یا اسی قسم کی کوئی اور بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی: ”اور بیشک جو شخص اس مال کو ناحق لے گا وہ اس شخص کے مثل ہو گا جو کھائے اور سیر نہ ہو اور وہ مال اس پر قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دے گا۔“
سیدہ زینب زوجہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا کی حدیث ابھی گزری ہے (دیکھئیے باب: زکوٰۃ کا اپنے قرابت داروں پر صرف کرنا۔۔۔) یہاں اس روایت میں یہ بھی کہتی ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی تو میں نے دروازہ پر ایک انصاری عورت کو پایا کہ وہ میرے جیسی ضرورت سے آئی تھی پس سیدنا بلال رضی اللہ عنہ ہماری طرف سے گزرے تو ہم نے کہا کہ تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرو کہ کیا میرے لیے یہ کافی ہے کہ میں (اپنا مال) اپنے شوہر اور ان یتیموں پر جو میری تربیت میں ہیں خرچ کروں؟ اور ہم نے (سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے) یہ کہہ دیا کہ تم ہمارا نام نہ لینا (مگر جب سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر یہ پوچھا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دونوں عورتیں کون ہیں؟“ تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے کہا ”زینب۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کون سی زینب؟“ انہوں نے عرض کی کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی بیوی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں (کافی ہے بلکہ) اس کو دوہرا ثواب ملے گا قرابت (کا حق ادا کرنے) کا ثواب اور خیرات دینے کا ثواب۔“
ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! کیا مجھے کچھ ثواب ہو گا اگر میں ابوسلمہ کے بچوں پر (اپنا مال) خرچ کروں، وہ تو میرے ہی لڑکے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان پر خرچ کرو، جو کچھ تم ان پر خرچ کرو گی اس کا ثواب تمہیں ملے گا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو صدقہ یعنی زکوٰۃ وصول کرنے کا حکم دیا۔ وہ شخص گیا اور صدقہ وصول کر لایا پھر عرض کی کہ ابن جمیل، خالد بن ولید اور عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے نہیں دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن جمیل رضی اللہ عنہ اس وجہ سے انکار کرتا ہے کہ وہ فقیر تھا، اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مالدار کر دیا (بیشک اس کا نہ دینا سرکشی پر دلالت کرتا ہے) مگر خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ)، تو تم لوگ خالد (رضی اللہ عنہ) پر ظلم کرتے ہو (تم نے ان سے زکوٰۃ کیوں مانگی؟ کیونکہ) انہوں نے اپنی زرہیں اور اپنے ہتھیار اللہ کی راہ میں روک رکھے ہیں اور رہ گئے عباس بن عبدالمطلب تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں، ان پر البتہ زکوٰۃ ضروری ہے اور اس کے برابر اور بھی (تو وہ میں ادا کروں گا)۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے انصار میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دے دیا پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر انہیں دے دیا یہاں تک کہ جس قدر مال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا وہ سب ختم ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس جب مال ہو گا تو میں اسے تم لوگوں سے بچا کر نہ رکھوں گا مگر (یاد رکھو کہ) جو شخص سوال کرنے سے پرہیز کرے گا تو اللہ اس کو (فقر اور حاجت سے) بچائے گا اور جو شخص بےپرواہی ظاہر کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو غنی کر دے گا اور جو شخص صبر کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو صابر بنا دے گا اور (دیکھو) کسی شخص کو کوئی نعمت صبر سے زیادہ عمدہ اور وسیع نہیں دی گئی (لہٰذا صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو)۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ بات کہ کوئی شخص تم میں سے رسی لے کر لکڑیاں توڑے اور ان کو اپنی پیٹھ پر لاد کر فروخت کرے، اس بات سے بہتر ہے کہ کسی شخص کے پاس جائے اور اس سے سوال کرے (حالانکہ یہ معلوم بھی نہیں کہ) وہ اس کو دے یا نہ دے۔“
سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ بنی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک یہ بات کہ کوئی شخص تم میں سے اپنی رسی لے کر اور لکڑی کا بوجھ اپنی پیٹھ پر لاد کر لے آئے اور اس کو فروخت کرے اور اللہ تعالیٰ اس ذریعہ سے اس کی آبرو قائم رکھے تو یہ اس کے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرے (حالانکہ یہ معلوم بھی نہیں کہ) وہ اس کو دیں یا نہ دیں۔“
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دے دیا۔ پھر میں نے مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دے دیا۔ میں نے پھر مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دے دیا۔ اس کے بعد فرمایا: ”اے حکیم! یہ مال ایک میٹھی اور سرسبز و شاداب چیز ہے جو شخص اس کو بغیر حرص کے لیتا ہے اس کے لیے اس میں برکت دی جاتی ہے اور جو شخص اس کو طمع کے ساتھ لیتا ہے اس کو اس میں برکت نہیں دی جاتی اور وہ شخص مثل اس کے ہوتا ہے جو کھائے اور سیر نہ ہو اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ سیدنا حکیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! قسم ہے اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی سے کچھ نہ لوں گا یہاں تک کہ دنیا سے جدا ہو جاؤں پس (جب) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو وہ سیدنا حکیم رضی اللہ عنہ کو وظیفہ کے لیے (جو تمام اصحاب کے لیے مقرر ہوا تھا) بلاتے رہے مگر انہوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں انہیں بلایا تاکہ انہیں وظیفہ دیں مگر انہوں نے اس کے قبول کرنے سے انکار کر دیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”اے مسلمانو! میں تمہیں گواہ کرتا ہوں کہ میں حکیم (رضی اللہ عنہ) کے روبرو ان کا حق پیش کرتا ہوں مگر وہ اس غنیمت میں سے اپنا حق لینے سے انکار کرتے ہیں۔ القصہ سیدنا حکیم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی سے کچھ نہیں لیا یہاں تک کہ فوت ہو گئے۔
امیرالمؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے مال دیتے تھے تو میں کہتا تھا کہ یہ اس شخص کو دیجئیے جو مجھ سے زیادہ حاجت مند ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسے لے لو جب اس مال میں سے کچھ تمہارے پاس آئے اور تم کو لالچ نہ ہو اور نہ ہی تم نے سوال کیا ہوا سے قبول کر لیا کرو اور جو نہ ملے تو اس کے حاصل کرنے کی پروا نہ کرو اور اس کے پیچھے نہ پڑو۔“