سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک جنازہ کی نماز پڑھی تو انہوں نے سورۃ الفاتحہ (بلند آواز سے) پڑھی اور کہا کہ (میں نے بلند آواز سے اس لیے پڑھا) تاکہ تم لوگ جان لو کہ سورۃ الفاتحہ کا نماز جنازہ میں پڑھنا سنت ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ جب اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس کو دفن کر کے واپس ہونے لگتے ہیں (تو مردے کو اس وقت ایسا ادراک ہوتا ہے کہ) وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں کہ تو اس شخص یعنی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نسبت کیا کہتا تھا پس اگر وہ کہہ دیتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے پیغمبر ہیں تو اس سے کہا جاتا ہے کہ اپنے مقام کو جو دوزخ میں تھا دیکھ۔ اس کے بدلے اللہ تعالیٰ نے تجھے جنت کا ایک مقام دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ وہ دونوں مقامات کو دیکھ لیتا ہے۔ لیکن کافر یا منافق، تو وہ یہ جواب دیتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا جو کچھ دوسرے لوگ کہتے تھے میں بھی وہی کہہ دیتا تھا۔ پس اس سے کہا جائے گا کہ نہ تو نے عقل کے ذریعہ پہچانا اور نہ (اچھے لوگوں کی) پیروی کی۔ اس کے بعد لوہے کے ہتھوڑے سے ایک ضرب اس کے دونوں کانوں کے درمیان ماری جائے گی جس کی وجہ سے وہ ایک چیخ مارے گا کہ اس کے قریب کے تمام ذی روح اس چیخ کو سنیں گے سوائے انسانوں اور جنوں کے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ملک الموت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا گیا تھا تو جب وہ آیا تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اس کے ایک ایسا طمانچہ مارا کہ اس کی ایک آنکھ پھوٹ گئی اور وہ اپنے پروردگار کے پاس واپس گیا اور عرض کی کہ تو نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ دوبارہ اسے عنایت فرمائی اور حکم دیا کہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس پھر جا اور ان سے کہہ کہ وہ اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھیں، پس جس قدر بال ان کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے، اتنے ہی سال کی زندگی انہیں اور دی جائے گی۔“(چنانچہ فرشتہ آیا اور موسیٰ علیہ السلام کو پیغام باری سنایا) تو انہوں نے کہا: ”اے پروردگار! (جب وہ سب برس گزر جائیں) گے تو پھر کیا ہو گا؟“ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”پھر موت آئے گی۔“ انہوں نے کہا: ”ابھی سہی۔“ پس انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی: ”انہیں ارض مقدس سے بقدر ایک پتھر پھینکنے کے قریب کر دے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرما کر مزید کہا: ”اگر میں اس مقام پر ہوتا تو تمہیں موسیٰ علیہ السلام کی قبر، راستہ کے ایک طرف سرخ ٹیلے کے پاس دکھا دیتا۔“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم احد کے شہیدوں میں سے دو دو آدمیوں کو ایک ہی کپڑے میں رکھتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے کہ ان میں قرآن کا زیادہ عالم کون ہے؟ پس ان میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کر دیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں پہلے اس کو رکھتے تھے اور فرماتے تھے: ”قیامت کے دن میں ان لوگوں کے مومن ہونے کا گواہ ہوں۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ان کے خون کے ساتھ دفن کرنے کا حکم دیا اور ان لوگوں کو نہ غسل دیا گیا نہ ان پر نماز پڑھی گئی۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مدینہ سے باہر تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے احد پر نماز پڑھی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میت پر پڑھتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے اور منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا: ”میں قیامت کے دن تمہارا پیش رو ہوں اور تمہارا گواہ بنوں گا اور میں، اللہ کی قسم! یقیناً اس وقت اپنے حوض کی طرف دیکھ رہا ہوں اور مجھے روئے زمین کے خزانوں کی چابیاں یا (یہ فرمایا: ”روئے) زمین کی چابیاں دے دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! مجھے تم لوگوں پر اس بات کا خوف نہیں کہ تم میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے بلکہ تم پر اس بات کا ڈر ہے کہ تم دنیا کی طرف رغبت کرو گے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ ابن صیاد کے پاس گئے یہاں تک کہ اس کو بنی مغالہ کے مکانوں کے پاس کچھ لڑکوں کے ساتھ کھیلتا ہوا پایا اور ابن صیاد (اس وقت) قریب بلوغ کے تھا۔ اس کو (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تشریف لے آنا) معلوم نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اسے مارا۔ پھر ابن صیاد سے فرمایا: ”کیا تو اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ میں، اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔“ ابن صیاد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں اس امر کی شہادت دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پڑھوں کے رسول ہیں۔ اس کے بعد ابن صیاد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ ”میں اللہ کا رسول ہوں“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے علیحدہ ہو گئے اور فرمایا: ”میں اللہ تعالیٰ پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لاتا ہوں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”تو کیا دیکھتا ہے؟“ ابن صیاد نے جواب دیا کہ ”میرے پاس ایک سچا آتا ہے اور ایک جھوٹا“ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے اوپر بات خلط ملط کر دی گئی۔“ اس کے بعد اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تیری نسبت ایک بات اپنے دل میں رکھ لی ہے، بتا وہ کیا ہے؟“(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الدخان کی آیت ((فارتقب یوم تاتی السّماء بدخانٍ مّبینٍ)) کا تصور کیا تھا) تو ابن صیاد نے جواب دیا کہ ”وہ دخ ہے“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اپنی حد سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔“ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ وہی (دجال) ہے تو تم ہرگز اس پر قابو نہیں پا سکتے اور اگر وہ نہیں ہے تو اس کے قتل کرنے میں کچھ فائدہ نہیں ہے۔“ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اس کے بعد (ایک مرتبہ پھر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اس باغ میں گئے جس میں ابن صیاد تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ ابن صیاد سے پوشیدہ طور پر قبل اس کے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھے، کچھ سنیں۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس حالت میں دیکھا کہ وہ لیٹا ہوا اپنی ایک چادر میں لپٹا ہوا تھا اس سے کچھ گنگنانے کی آواز آ رہی تھی پس ابن صیاد کی ماں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آتے دیکھ لیا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجوروں کے درختوں میں چھپ (چھپ کر جا) رہے تھے تو اس نے ابن صیاد سے کہا کہ اے صاف! اور صاف ابن صیاد کا نام تھا۔ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے تو ابن صیاد اٹھ بیٹھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ عورت اس کو اس کے حال پر رہنے دیتی یعنی میرے آنے کی اطلاع نہ دیتی تو حقیقت حال واضح ہو جاتی۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا، وہ بیمار ہو گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اس کے سر کے پاس بیٹھ گئے پھر اس سے فرمایا: ”تو مسلمان ہو جا۔“ تو اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور اس کے پاس ہی وہ بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے باپ نے اس سے کہا کہ تو ابوالقاسم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کر پس وہ مسلمان ہو گیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت یہ فرما رہے تھے: ’ ’ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے لڑکے کو آگ سے بچا لیا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا کیا جاتا ہے مگر اس کے ماں باپ اسے یہودی بنا لیتے ہیں یا نصرانی یا مجوسی، جس طرح جانور صحیح و سالم بچہ جنتا ہے کیا تم اس میں کوئی ناک کان کٹا ہوا دیکھتے ہو؟“ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کر کے یہ آیت پڑھتے تھے: ”اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت تبدیل نہیں کی جا سکتی یہی صحیح اور بالکل سیدھا دین ہے۔“(سورۃ الروم آیت: 30)
سیدنا مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ابوطالب کی موت قریب آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس ابوجہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ کو پایا۔ سیدنا مسیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطالب سے فرمایا: ”اے چچا لا الہٰ الا اللہ کہہ دو، میں تمہارے لیے اللہ کے ہاں اس کی گواہی دوں گا۔“ ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا کہ اے ابوطالب! کیا تم عبدالمطلب کے طریقے سے پھرے جاتے ہو؟ پھر رسول اللہ متواتر کلمہ شہادت پر ان کو دعوت دیتے رہے اور وہ دونوں وہی بات کہتے رہے یہاں تک کہ ابوطالب نے سب سے آخری بات جو ان سے سنی گئی، اس میں یہ کہا کہ وہ عبدالمطلب کے طریقے پر ہیں اور انہوں نے لا الہٰ الا اللہ کہنے سے انکار کر دیا (پھر وہ مر گئے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں میں اللہ کی قسم! تمہارے لیے استغفار کروں گا جب تک کہ مجھ کو اس ممانعت نہ کی جائے۔“(چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم استغفار کرنے لگے) جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”پیغمبر اور ایمان والوں کو زیبا نہیں کہ مشرکوں کے لیے دعا کریں۔“(سورۃ التوبہ: 133)
امیرالمؤمنین علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک جنازہ کے ساتھ بقیع کے قبرستان میں تھے، اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور بیٹھ گئے اور ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے زمین پر مارنے لگے پھر فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص یا (یہ فرمایا) ہر جاندار کے لیے اس کا مقام جنت یا دوزخ میں لکھ دیا گیا ہے اور یہ بھی لکھ دیا گیا ہے کہ گنہگار ہے یا پرہیزگار۔“ تو ایک شخص نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! کیا ہم اسی بات پر اعتماد کر کے عمل کو چھوڑ نہ دیں کیونکہ جس کا نام پرہیزگاروں میں لکھا ہے وہ ضرور نیک کام کی طرف رجوع کرے گا اور جس کا نام گنہگاروں میں لکھا ہے وہ برائی کی طرف جائے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ ’ ہاں! جن کا نام پرہیزگاروں میں ہے ان کو نیک کام کرنے کی توفیق دی جائے گی اور جو گنہگار ہیں ان کو برائی کرنے کی توفیق ملے گی۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی: ”جس نے اللہ کی راہ میں مال دیا اور پرہیزگاری اختیار کی اور دین اسلام کو سچ مانا اس کو ہم آسانی کے گھر یعنی جنت میں پہنچنے کی توفیق دیں گے۔“(سورۃ واللیل 5 , 7)