سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس ایک آنے والا میرے پروردگار کے پاس سے آیا اور اس نے مجھے خبر دی یا یہ فرمایا: ”مجھے بشارت دی کہ جو شخص میری امت میں سے اس حال میں مرے گا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو وہ جنت میں ہو گا۔“ میں نے عرض کی اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور اگرچہ چوری کی ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگرچہ زنا کیا ہو اگرچہ چوری کی ہو۔“
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اس حال میں مر جائے کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہو تو وہ دوزخ میں داخل ہو گا۔“ میں (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما) کہتا ہوں کہ جو شخص اس حال میں مرے کہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتا ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات چیزوں کا حکم دیا تھا اور سات چیزوں سے منع فرمایا تھا ہم کو حکم دیا تھا: ”جنازوں کے ہمراہ جانے کا اور مریض کی عیادت کرنے کا اور دعوت قبول کرنے کا اور مظلوم کی مدد کرنے کا اور قسم کے پورا کرنے کا اور سلام کا جواب دینے کا اور چھینکنے والے کو (یرحمک اﷲ) کا۔“ اور ہمیں منع فرمایا تھا: ”چاندی کے برتن (کے استعمال) سے اور سونے کی انگوٹھی اور ریشم و دیباج، قز اور استبرق (کے پہننے) سے“(یہ سب ریشمی کپڑے ہیں۔ اور ساتویں چیز ان میں سے رہ گئی ہے)۔
ام العلاء ایک انصاری خاتون (بیان کرتی ہیں کہ جنہوں) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (اسلام پر) بیعت کی ہے کہ مہاجرین نے (انصار کی تقسیم کے لیے) باہم قرعہ ڈالا تو ہمارے حصے میں سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ آئے تو ہم نے انہیں اپنے گھر میں اتارا، پھر وہ اس مرض میں مبتلا ہوئے جس میں انہوں نے وفات پائی پس جب ان کی وفات ہو گئی اور ان کو غسل دیا جا چکا اور ان کے کپڑوں میں انہیں کفن دے دیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے کہا کہ اے ابوسائب! تم پر اللہ کی رحمت، میری شہادت تمہارے حق میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں سرفراز کر دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کیا معلوم کہ اللہ نے انہیں سرفراز کر دیا۔“ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میرے باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں (میں نے یہ اس سبب سے کہا کہ) اگر اللہ تعالیٰ انہیں سرفراز نہ فرمائے گا تو (پھر) وہ کون ہو گا جسے اللہ سرفراز کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک انہیں (اچھی حالت میں) موت آئی ہے اور میں بھی ان کے لیے بھلائی کی امید رکھتا ہوں (لیکن بالیقین میں نہیں کہہ سکتا کہ اللہ نے انہیں معاف کر دیا) اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا۔“ ام العلاء کہتی ہیں کہ اس کے بعد پھر میں نے کسی کے پاک ہونے کی شہادت نہیں دی۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے والد جب (غزوہ احد) میں شہید ہوئے تو میں باربار ان کے چہرے سے کپڑا ہٹاتا تھا اور روتا تھا تو لوگ مجھے منع کرتے تھے مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے منع نہ فرماتے تھے۔ پھر میری پھوپھی فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی رونے لگیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم روؤ یا نہ روؤ، فرشتے برابر ان پر اپنے پروں سے سایہ کیے رہے، یہاں تک کہ تم نے انہیں (میدان جنگ سے) اٹھایا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی موت کی خبر دی جس دن کہ انہوں نے وفات پائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کہ جگہ تشریف لے گئے اور لوگوں کو صف بستہ کھڑا کر کے چار تکبیریں کہیں یعنی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(جس دور میں غزوہ موتہ ہو رہی تھی اس دور میں ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ہم لوگوں سے) فرمایا: ”(اس وقت) زید نے جھنڈا لیا اور وہ شہید کر دیئے گئے پھر جعفر نے جھنڈا لے لیا اور وہ شہید کر دیئے گئے پھر عبداللہ بن رواحہ نے جھنڈا لیا اور وہ شہید کر دیے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں (اس وقت آنسوؤں کی کثرت کی وجہ سے) بہہ رہی تھیں پھر خالد بن ولید نے بغیر سرداری کے جھنڈا لیا اور ان کے ہاتھوں پر فتح ہوئی۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس مسلمان کے تین بچے جو بالغ نہ ہوئے ہوں، مر جاتے ہیں تو اللہ اسے جنت میں داخل فرماتا ہے بوجہ اس کثیر عنایت کے جو ان بچوں پر ہے۔“
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کو غسل دے رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں تین مرتبہ یا پانچ مرتبہ یا اس سے زیادہ غسل دینا (خالص) پانی سے اور بیری (کے پانی) سے اور آخر میں کافور ملا دو، پھر جب تم فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا۔“ چنانچہ جب ہم فارغ ہوئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازار (تہہ بند) ہمیں دی اور فرمایا: ”اس سے ان کے جسم کو لپیٹ دو۔“
ایک دوسری روایت میں ہے کہ (سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کی داہنی جانب سے اور وضو کے مقامات سے غسل کی ابتداء کرنا۔“(ام عطیہ رضی اللہ عنہا) کہتی ہیں کہ ہم نے ان کو کنگھی کر کے بالوں کے تین حصے کر دیے۔