سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”ہم باعتبار ترتیب امم، سب امتوں کے بعد آئے ہیں لیکن قیامت کے دن حساب و کتاب اور جنت میں جانے کے لحاظ سے سب سے آگے ہوں گے۔ ہاں یہود و نصاریٰ کو ہم سے پہلے کتاب ضرور دی گئی تھی پس جمعہ کے دن عبادت کرنا ان پر فرض کیا گیا تھا مگر انھوں نے اختلاف کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کی ہدایت کر دی۔ پس سب لوگ اس بات میں ہم سے پیچھے ہیں۔ یہود کا دن کل (ہفتہ) اور نصاریٰ کا دن پرسوں (یعنی اتوار) ہے۔“
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بالغ پر جمعہ کے دن نہانا ضروری ہے اور یہ کہ مسواک کرے اور اگر میسر ہو تو خوشبو لگائے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے رویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص جمعہ کے دن مثل غسل جنابت کے (خوب اچھی طرح) غسل کرے، اس کے بعد (نماز کے لیے) چلے تو گویا اس نے ایک اونٹ کا صدقہ کیا اور جو دوسری گھڑی میں چلے تو گویا اس نے ایک گائے صدقہ کی اور جو تیسری گھڑی میں چلے تو گویا اس نے ایک سینگوں والا مینڈھا صدقہ کیا اور جو چوتھی گھڑی میں چلے تو گویا اس نے ایک مرغی صدقہ میں دی اور جو پانچویں گھڑی میں چلے تو اس نے گویا ایک انڈا صدقہ میں دیا پس جس وقت امام (خطبہ دینے) نکل آتا ہے تو فرشتے خطبہ سننے کے لیے اندر آ جاتے ہیں (اور ثواب کا سلسلہ موقوف ہو جاتا ہے)۔“
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور جس قدر ممکن ہو طہارت کرے پھر (بالوں کو) تیل لگائے یا اپنے گھر کی خوشبو استعمال کرے پھر اس کے بعد (جمعہ کی نماز کے لیے) نکلے اور دو آدمیوں کے درمیان (جو مسجد کے اندر بیٹھے ہوئے ہوں) تفریق نہ کرے پھر جس قدر اس کی قسمت میں ہو نماز پڑھے اس کے بعد جس وقت امام خطبہ دینے لگے تو چپ رہے تو اس کے وہ گناہ جو اس جمعہ اور گزشتہ جمعہ کے درمیان (ہو گئے) ہیں، معاف کر دیے جائیں گے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جمعہ کے دن غسل کرو اور اپنے سروں کو اچھی طرح دھو ڈالو، اگرچہ تم جنبی نہ ہو اور خوشبو کا استعمال کرو۔“ ابن عباس رضی اللہ عنہما بولے کہ غسل تو ہاں (میں بھی جانتا ہوں کہ اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے) لیکن خوشبو کو میں نہیں جانتا۔
امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک مسجد کے پاس دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا فروخت ہوتے دیکھا تو انھوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! کاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو مول لے لیتے اور اس کو جمعہ کے دن اور قاصدوں کے سامنے جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے ہیں، پہن لیا کریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے تو وہی شخص پہنے گا جس کا آخرت میں کچھ حصہ نہ ہو۔“ اس کے بعد (کہیں سے) اسی قسم کے کئی ریشمی جوڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اس میں سے ایک حلہ (ریشمی جوڑا) دے دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ! آپ نے مجھے یہ دیدیا حالانکہ آپ حلہ عطارد کے بارے میں کچھ ارشاد فرما چکے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تم کو اس لیے نہیں دیا کہ تم خود اس کو پہنو۔“ پس عمر رضی اللہ عنہ نے وہ حلہ اپنے ایک مشرک بھائی کو جو مکہ میں تھا پہنا دیا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اپنی امت کے لوگوں کی تکلیف و مشقت کا خیال نہ ہوتا تو بیشک انھیں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(ایک مرتبہ ہم لوگوں سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہیں مسواک (کی فضیلتوں) کے بارے میں بہت کچھ سکھایا ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن فجر (کی نماز) میں الم السجدۃ (سورۃ السجدہ) اور ((ھل اتیٰ علی الا نسان حین مّن الدّھر))(سورۃ الدھر) پڑھا کرتے تھے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”تم سب لوگ مسؤل (یعنی حاکم و ذمہ دار) ہو اور تم سب لوگوں سے تمہاری رعیت کے بارے میں بازپرس ہو گی۔ امام (بھی) مسؤل ہے اور اس سے اس کی رعیت کی بابت بازپرس ہو گی اور مرد اپنے گھر میں مسؤل ہے اور اس سے اس کی رعیت کی بازپرس ہو گی اور عورت اپنے شوہر کے گھر میں مسؤلہ ہے اور اس سے اس کی اور رعیت کی بابت بازپرس ہو گی اور خادم اپنے آقا کے مال میں مسؤل ہے اور اس سے اس کی اور رعیت کی بابت بازپرس ہو گی۔“(راوی ابن شہاب) کہتے ہیں کہ مجھے خیال ہے کہ انھوں نے یہ بھی کہا: ”آدمی اپنے باپ کے مال میں مسؤل ہے اور اس سے اس کی رعیت کی بابت بازپرس ہو گی اور تم سب کے سب مسؤل (یعنی حاکم) ہو اور تم سب سے تمہاری رعیت کی بابت بازپرس ہو گی۔“