ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم کسی سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، یہاں تک کہ جب ہم بیداء یا ذات الجیش میں پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ (کر گر) گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ڈھونڈنے کے لیے قیام کیا اور لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ٹھہر گئے اور اس مقام پر کہیں پانی نہ تھا، (اور نہ ہی لوگوں کے پاس پانی تھا) لہٰذا لوگ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کہا کہ آپ نہیں دیکھتے کہ (ام المؤمنین) عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے کیا کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سب لوگوں کو ٹھہرا لیا اور وہ بےآب مقام پر ہیں؟ اور نہ ہی ان کے ہمراہ پانی ہے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھ پر غصہ کیا اور جو کچھ اللہ نے چاہا کہ کہیں، وہ انھوں نے کہہ ڈالا اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کونچہ مارنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سرمبارک میری ران پر تھا اور آپ سو رہے تھے اس لیے میں درد کی شدت سے جنبش بھی نہ کر سکی پھر صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ بیٹھے درآنحالیکہ آپ بغیر پانی والے (مقام) پر تھے چنانچہ اللہ بزرگ و برتر نے آیت تیمم نازل فرمائی۔ پس سب نے تیمم کیا تو اسی دن سیدنا ابن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے آل ابوبکر! یہ تمہاری پہلی برکت نہیں ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جس اونٹ پر میں تھی، اس کو اٹھایا تو اس کے نیچے سے ہار مل گیا۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہ دی گئی تھیں۔ (1)۔ مجھے ایک مہینے کی مسافت پر رعب کے ذریعہ مدد دی گئی۔ (2) پوری زمین میرے لیے مسجد بنا دی گئی اور پاک بنا دی گئی، پس میری امت میں سے جس شخص پر (جہاں بھی) نماز کا وقت ہو جائے اسے چاہیے کہ (اسی مقام پر) نماز پڑھ لے۔ (3)۔ میرے لیے غنیمت کے مال حلال کر دیے گئے ہیں اور مجھ سے پہلے کسی (نبی) کے لیے حلال نہ کیے گئے تھے۔ (4) مجھے شفاعت کی اجازت دی گئی۔ (5) ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا جبکہ میں تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔“
سیدنا ابوجہیم بن حارث انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بئر جمل کی طرف سے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شخص (خود ابوجہیم) مل گیا اور اس نے آپ کو سلام کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب نہیں دیا یہاں تک کہ آپ دیوار کی طرف آئے (اس پر ہاتھ مارا)، اپنے منہ اور ہاتھوں پر مسح فرمایا پھر اسے سلام کا جواب دیا۔
سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے امیرالمؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کیا آپ کو یاد نہیں کہ ہم اور آپ سفر میں تھے اور جنبی ہو گئے تو آپ نے تو نماز نہیں پڑھی اور میں (مٹی میں) الٹ پلٹ گیا اور نماز پڑھ لی، پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو بیان کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھے اس طرح کرنا کافی تھا۔“(یہ کہہ کر) آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارا اور ان میں پھونک دیا پھر ان سے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مسح کر لیا۔
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے اور ہم رات کو چلے، یہاں تک کہ جب اخیر رات (ہوئی تو اس وقت) میں ہم مقیم ہوئے اور سب سو گئے اور مسافر کے نزدیک اس سے زیادہ کوئی نیند میٹھی نہیں ہوتی۔ پھر ہمیں آفتاب کی گرمی نے بیدار کیا، پس سب سے پہلے جو جاگا فلاں شخص تھا، پھر فلاں شخص، پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ چوتھے جاگنے والے ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سوتے تھے تو ان کو کوئی بیدار نہ کرتا تھا یہاں تک کہ آپ خود بیدار ہو جائیں کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ آپ کے لیے آپ کے خواب میں کیا ہو رہا ہے مگر جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیدار ہوئے اور انھوں نے وہ حالت دیکھی جو لوگوں پر طاری تھی اور وہ سخت مزاج کے آدمی تھے تو انھوں نے تکبیر کہی اور تکبیر کے ساتھ اپنی آواز بلند کی اور برابر تکبیر کہتے رہے کہ تکبیر کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے رہے، یہاں تک کہ ان کی آواز کے سبب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے۔ پس جب آپ بیدار ہوئے تو جو مصیبت لوگوں پر پڑی تھی اس کی شکایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی۔ تو آپ نے فرمایا: ”کچھ نقصان نہیں“ یا (یہ فرمایا کہ)”کچھ نقصان نہ کرے گا، چلو (اس لیے کہ یہ عمداً نہیں تھا)۔“ پھر چلے اور تھوڑی دور جا کر اتر پڑے اور وضو کا پانی منگوایا، پھر وضو کیا اور نماز کی اذان کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی تو جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو یکایک ایک ایسے شخص پر آپ کی نظر پڑی جو گوشہ میں بیٹھا ہوا تھا، لوگوں کے ساتھ اس نے نماز نہ پڑھی تھی، تو آپ نے فرمایا: ”اے فلاں! تجھے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا؟“ تو اس نے کہا کہ جنابت ہو گئی تھی اور پانی نہ تھا آپ نے فرمایا: ”تو لازم پکڑ مٹی کو (تیمم کر) وہ تجھے کافی ہے۔“ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلے تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیاس کی شکایت کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر اتر پڑے اور ایک شخص کو بلایا اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا کہ دونوں جاؤ اور پانی تلاش کرو۔ پس دونوں چلے تو ایک عورت ملی جو پانی کی دو مشکوں کے درمیان اپنے اونٹ پر بیٹھی جا رہی تھی۔ تو ان دونوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ہے؟ اس نے کہا میں کل اسی وقت پانی پر تھی اور ہمارے مرد پیچھے رہ گئے ہیں۔ ان دونوں نے اس سے کہا خیر اب تو چل۔ وہ بولی کہاں؟ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس۔ اس نے کہا وہی شخص جسے بےدین کہا جاتا ہے؟ انھوں نے کہا ہاں! وہیں جن کو (تم یہ خیال کرتی ہو)، تو چل تو سہی۔ پس وہ دونوں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ساری کیفیت بیان کی۔ سیدنا عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر لوگوں نے اسے اس کے اونٹ سے اتارا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ظرف (یعنی برتن) منگوایا اور دونوں مشکوں کے منہ کھول کر اس میں سے کچھ پانی اس برتن میں نکالا۔ (اس کے بعد) ان کے اوپر والے منہ کو بند کر دیا اور نچلے منہ کو کھول دیا اور لوگوں میں آواز دے دی گئی کہ پانی پیو اور (اپنے جانوروں کو بھی) پلا لو۔ جس نے چاہا خود پیا اور جس نے چاہا پلایا اور اخیر میں یہ ہوا کہ جس شخص کو جنابت ہو گئی تھی اس کو ایک برتن پانی کا دیا اور آپ نے فرمایا: ”جا اور اس کو اپنے اوپر ڈال لے۔“ اور وہ عورت کھڑی ہوئی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی کہ اس کے پانی کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے اور اللہ کی قسم (جب پانی لینا) اس کے مشکوں سے موقوف کیا گیا تو یہ حال تھا کہ ہمارے خیال میں وہ اب اس وقت سے بھی زیادہ بھری ہوئی تھیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پانی لینا شروع کیا تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کچھ اس کے لیے جمع کر دو۔“ تو لوگوں نے اس کے لیے عجوہ کھجور، آٹا اور ستو وغیرہ جمع کر دیے جہاں تک کہ ایک اچھی مقدار کا کھانا اس کے لیے جمع کر دیا اور اس کو ایک کپڑے میں باندھ دیا اور اس عورت کو اس کے اونٹ پر سوار کر دیا اور کپڑا اس کے سامنے رکھ دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”تم جانتی ہو کہ ہم نے تمہارے پانی میں سے کچھ کم نہیں کیا، لیکن اللہ ہی نے ہمیں پلایا۔“ پھر وہ عورت اپنے گھر والوں کے پاس آئی چونکہ وہ راہ میں روک لی گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ تجھے کس نے روک لیا تھا؟ تو اس نے کہا (کہ عجیب بات ہوئی) مجھے دو آدمی ملے اور وہ مجھے اس شخص کے پاس لے گئے، جسے بےدین کہا جاتا ہے اور اس نے ایسا ایسا کام کیا۔ پس قسم اللہ کی! یقیناً وہ شخص اس کے اور اس کے درمیان میں سب سے بڑا جادوگر ہے اور اس نے اپنی دو انگلیوں یعنی انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا پھر ان کو آسمان کی طرف اٹھایا مراد اس کی آسمان و زمین تھی یا وہ سچ مچ اللہ کا رسول ہے۔ پس مسلمان اس کے بعد، اس کے آس پاس کے مشرکوں سے لڑتے رہے اور جس آبادی (بستی) میں وہ عورت رہتی تھی۔ تو اس نے ایک دن اپنی قوم سے کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ بیشک یہ لوگ عمداً تمہیں چھوڑ دیتے ہیں، پس کیا تمہیں اسلام میں کچھ (رغبت) ہے؟ تو انھوں نے اس کی بات مان لی اور اسلام میں داخل ہو گئے۔