سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص حدث کرے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ وضو کر لے۔ حضرموت (شہر) کے ایک شخص نے پوچھا کہ اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ! ”حدث“ کیا چیز ہے؟ انھوں نے جواب دیا ”بےآواز یا باآواز ریح خارج ہونا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: ”میری امت کے لوگ قیامت کے دن بلائے جائیں گے، درانحآلیکہ وضو کے نشانات کے سبب ان کے بعض اعضاء مثلاً ہاتھ پاؤں وغیرہ وضو کرنے کے سبب چمک رہے ہوں گے۔ پس تم میں سے جو کوئی چمک و سفیدی بڑھانا چاہے تو بڑھا لے۔“
سیدنا عبداللہ بن زید الانصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک ایسے شخص کی حالت بیان کی گئی جس کو خیال بندھ جاتا ہے کہ نماز میں وہ کسی چیز (یعنی ہوا) کو (نکلتے ہوئے) محسوس کر رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ (نماز سے) لوٹے نہیں یا پھرے نہیں یہاں تک کہ (خروج ریح کی) آواز سن لے یا بو پائے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک رات میں اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ٹھہرا۔ جب رات کا کچھ حصہ گزرا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لٹکی ہوئی مشک سے ہلکا سا وضو کیا .... (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہجد کی نماز ادا فرمائی .... یہ حدیث متعدد ابواب میں ہے)۔
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ سے چلے یہاں تک کہ جب گھاٹی میں پہنچے تو اترے اور پیشاب کیا پھر وضو کیا، مگر وضو پورا نہیں کیا۔ تو میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! نماز (کا وقت قریب آ گیا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز تمہارے آگے ہے (یعنی مزدلفہ میں پڑھیں گے)۔“ پھر جب مزدلفہ آ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور پورا وضو کیا پھر نماز کی اقامت کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز پڑھی (پڑھائی) اس کے بعد ہر شخص نے اپنے اونٹ کو اپنے مقام پر بٹھا دیا پھر عشاء کی نماز کی اقامت کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز) پڑھی (پڑھائی) اور دونوں کے درمیان میں کوئی (نفل) نماز نہیں پڑھی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انھوں نے وضو کیا، چنانچہ پانی کا ایک چلو لے کر اسی سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ پھر ایک چلو پانی لیا اور اسے اس طرح کیا یعنی دونوں ہاتھوں کو آپس میں ملایا اس لپ سے منہ دھویا، پھر ایک چلو پانی لیا اور اپنا داہنا ہاتھ دھویا، پھر ایک چلو پانی لیا اور اپنا بایاں ہاتھ دھویا، (کہنی تک)، پھر ایک چلو پانی لیا اور اپنے داہنے پاؤں پر ڈالا یہاں تک کہ اسے دھو ڈالا، پھر دوسرا چلو پانی کا لیا اور اس سے اپنے بائیں پیر کو دھویا، پھر (ابن عباس رضی اللہ عنہما نے) کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو کہتے ”اے اللہ میں خبیث جنوں اور جنیوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ(ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء میں داخل ہوئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے لیے پانی رکھ دیا۔ (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نکلے تو) فرمایا: ”یہ پانی کس نے رکھا ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ اسے دین کی سمجھ عنایت فرما۔“
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تم میں سے کوئی بیت الخلاء میں جائے تو قبلہ کی طرف منہ نہ کرے اور نہ اس کی طرف پشت کرے۔ بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرو۔ (ان ممالک میں جہاں قبلہ مغربی سمت پڑتا ہے، شمالاً جنوباً کیا جائے)۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ لوگ کہتے ہیں کہ جب تم اپنی قضائے حاجت کے لیے بیٹھو تو نہ قبلہ کی طرف منہ کرو اور نہ بیت المقدس کی طرف۔ مگر میں ایک دن اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (قضائے) حاجت کے لیے دو اینٹوں پر بیٹھے ہوئے بیت المقدس کی جانب منہ کیے ہوئے دیکھا۔