سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: اللہ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے اور (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور دیتا تو اللہ ہی ہے اور یاد رکھو کہ یہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم (دین) پر قائم رہے گی تو جو شخص ان کا مخالف ہو گا ان کو نقصان نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ آپ کے پاس ایک کھجور کا گابھہ لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے۔۔ الخ اور پوری حدیث بیان کی۔ (دیکھئیے کتاب: علم کا بیان۔۔۔ باب: امام کا اپنے ساتھیوں کی علمی آزمائش کے لیے سوال کرنا۔۔۔) اور اس روایت میں (ابن عمر رضی اللہ عنہما) نے اتنا زیادہ کہا کہ میں سب سے چھوٹا تھا اس لیے چپ رہا۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حسد (رشک) جائز نہیں مگر دو شخصوں (کی عادتوں) پر۔ (1) اس شخص (کی عادت) پر جس کو اللہ نے مال دیا ہو اور اس بات کی توفیق و ہمت بھی کہ اسے (راہ) حق میں صرف کرے (2) اس شخص (کی عادت) پر جس کو اللہ نے علم و حکمت عنایت کی ہو اور اس کے ذریعہ سے فیصلے (اور عمل) کرتا ہو اور (لوگوں) کو اس کی تعلیم کرتا ہو۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (ایک مرتبہ) اپنے سینے سے لپٹا لیا اور فرمایا: ”اے اللہ! اس کو (اپنی) کتاب کا علم فرما۔“
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں (ایک مرتبہ) ایک گدھی پر سوار ہو کر چلا اور اس وقت میں بلوغت کے قریب تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں بغیر کسی دیوار (سترہ) کے نماز پڑھ رہے تھے تو میں صف کے کچھ حصے کے آگے سے گزرا اور میں نے گدھی کو چھوڑ دیا تاکہ وہ چر لے اور میں صف میں شامل ہو گیا، مجھے (کسی نے) اس بات سے منع نہیں کیا۔
سیدنا محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک کلی یاد ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈول سے (پانی) لے کر میرے منہ پہ ماری تھی اور میں اس وقت پانچ برس کا تھا۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ہدایت اور علم کی مثال، جس کے ساتھ مجھے اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے، مثل تیز بارش کے ہے جو زمین پر برسے، تو جو زمین صاف ہوتی ہے وہ پانی کو جذب کر لیتی ہے پھر اس سے بہت سارا چارا اور گھاس اگتی ہے اور جو زمین سخت ہوتی ہے وہ پانی روک لیتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ (اس کو) پیتے ہیں اور (اپنے جانوروں کو) پلاتے ہیں اور زراعت (کو سیراب) کرتے ہیں اور کچھ بارش (زمین کے) دوسرے حصہ کو پہنچی کہ جو بالکل چٹیل میدان ہے نہ پانی کو روکتا ہے اور نہ سبزہ اگاتا ہے۔ پس یہی مثال ہے اس شخص کی جو اللہ کے دین کی سمجھ حاصل کی اور جس چیز کے ساتھ مجھے اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے، اس کو فائدہ دے اور وہ (اس کو) پڑھے اور پڑھائے اور مثال اس شخص کی جس نے اس کی طرف سر (تک) نہ اٹھایا اور اللہ کی اس ہدایت کو، جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں قبول نہ کیا۔ (بےآب بنجر زمین اور چٹیل میدان کی ہے)۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک (یہ باتیں) قیامت کی علامات میں سے ہیں کہ علم اٹھ جائے اور جہالت باقی رہ جائے اور شراب نوشی (کثرت سے) ہونے لگے اور علانیہ زنا ہونے لگے۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ (آج) میں تم (لوگوں) کو ایک ایسی حدیث بیان کروں گا کہ میرے بعد (شاید) کوئی تم سے نہ بیان کرے گا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”قیامت کی علامات میں سے (ایک علامت) یہ ہے کہ علم کم ہو جائے اور جہالت غالب آ جائے اور زنا علانیہ ہونے لگے اور عورتوں کی کثرت ہو جائے اور مردوں کی قلت، یہاں تک کہ پچاس عورتوں کا سرپرست، (کفیل) صرف ایک مرد ہو گا۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”اس حالت میں کہ میں سو رہا تھا، (خواب میں) مجھے ایک پیالہ دودھ کا دیا گیا، تو میں نے پی لیا، یہاں تک کہ میں یہ سمجھنے لگا کہ سیر ہونے (کے سبب سے رطوبت) میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے، پھر میں نے اپنا بچا ہوا عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) کو دے دیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علم۔“