سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(ایک دن) اس حالت میں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں لوگوں سے (کچھ) بیان کر رہے تھے کہ ایک اعرابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ قیامت کب (قائم) ہو گی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نے کچھ جواب نہ دیا اور اپنی بات) بیان کرتے رہے۔ اس پر کچھ لوگوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کہنا سن (تو) لیا مگر (چونکہ) اس کی بات آپ کو بری محسوس ہوئی اس لیے آپ نے جواب نہیں دیا اور کچھ لوگوں نے کہا کہ (یہ بات نہیں ہے) بلکہ آپ نے سنا ہی نہیں، یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بات ختم کر چکے تو فرمایا: ”کہاں ہے۔“ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد یہ لفظ تھے۔ ”قیامت کا پوچھنے والا؟“ تو سائل نے کہا یا رسول اللہ! میں (یہاں) ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس وقت امانت ضائع کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرنا (سمجھو قیامت آیا ہی چاہتی ہے)۔ اس نے پوچھا کہ امانت کا ضائع کرنا کس طرح ہو گا؟ فرمایا: جب کام (معاملہ) ناقابل (نااہل) کے سپرد کیا جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک سفر میں جو ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں کیا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اس حال میں ملے کہ نماز میں ہم نے دیر کر دی تھی اور ہم وضو کر رہے تھے تو (جلدی کی وجہ سے) ہم اپنے پیروں پر پانی لگانے لگے (کیونکہ دھونے میں دیر ہوتی) پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بلند آواز سے دو مرتبہ یا تین مرتبہ فرمایا: ایڑیوں کو آگ کے (عذاب) سے خرابی (ہونے والی) ہے (یعنی خشک رہنے کی صورت میں)۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے کہ اس کا پت جھڑ نہیں ہوتا اور وہ مسلمان کے مشابہ ہے، تو تم مجھے بتاؤ کہ وہ کون سا درخت ہے؟“ تو لوگ جنگلی درختوں (کے خیال) میں پڑ گئے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے مگر میں (کہتے ہوئے) شرما گیا، بالآخر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ہی ہمیں بتائیے کہ وہ کون سا درخت ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ کھجور کا درخت ہے۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے ایک شخص اونٹ پر (سوار) آیا اور اس نے اپنے اونٹ کو مسجد میں (لا کر) بٹھا کر اس کے پاؤں باندھ دیے پھر اس نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے دریافت کیا تم میں سے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کون ہیں؟ اور (اس وقت) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان تکیہ لگائے بیٹھے تھے، تو ہم لوگوں نے کہا یہ مرد صاف رنگ تکیہ لگائے ہوئے (جو بیٹھے ہیں انہی کا نام نامی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے)۔ پھر اس شخص نے آپ سے کہا کہ اے عبدالمطلب کے بیٹے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کہہ) میں سن رہا ہوں۔ اس نے کہا کہ میں آپ سے (کچھ) پوچھنے والا ہوں اور (پوچھنے میں) آپ پر سختی کروں گا تو آپ اپنے دل میں میرے اوپر ناخوش نہ ہونا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو تیری سمجھ میں آئے پوچھ لے۔ وہ بولا کہ میں آپ کو آپ کے پروردگار اور آپ سے پہلے لوگوں کے پروردگار کی قسم دے کر پوچھتا ہوں (سچ بتائیے) کہ کیا اللہ نے آپ کو تمام آدمیوں کی طرف (پیغمبر بنا کر) بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! ہاں (بیشک مجھے پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہے)۔ پھر اس نے کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں (سچ بتائیے) کیا دن رات میں پانچ نمازوں کے پڑھنے کا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! ہاں۔ پھر اس نے کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں (سچ بتائیے) کیا اس مہینے (یعنی رمضان) کے روزے رکھنے کا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! ہاں۔ پھر اس نے کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں (سچ بتائیے) کیا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ یہ صدقہ ہمارے مالداروں سے لیں اور اسے ہمارے مستحقین پر تقسیم کریں؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! ہاں۔ اس کے بعد وہ شخص کہنے لگا کہ میں اس (شریعت) پر ایمان لایا، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اور میں اپنی قوم کے ان لوگوں کا جو میرے پیچھے ہیں، بھیجا ہوا (نمائندہ) ہوں اور میں ضمام بن ثعلبہ ہوں (قبیلہ) بنی سعد بن بکر سے تعلق رکھتا ہوں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک خط ایک شخص کے ہاتھ بھیجا اور اسے حکم دیا کہ یہ خط بحرین کے حاکم کو دیدے۔ (چنانچہ اس نے دے دیا) اور بحرین کے حاکم نے اس کو کسریٰ (شاہ ایران) تک پہنچا دیا۔ پھر جب (کسریٰ نے) اس کو پڑھا تو (اپنی بدبختی سے) اس کو چاک کر ڈالا۔ (سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) ان لوگوں کو بددعا دی کہ ”وہ (لوگ بھی) بالکل (اسی طرح) ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط (شاہ روم یا ایران) کو لکھا یا لکھنے کا ارادہ کیا تو آپ سے یہ کہا گیا کہ وہ لوگ بے مہر کا خط نہیں پڑھتے، (یعنی اس کو وقعت نہیں دیتے) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اس میں ”محمد رسول اللہ“ کندہ تھا۔ (سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایسا محسوس ہو رہا ہے) گویا میں (اب بھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک میں اس کی سفیدی کی طرف دیکھ رہا ہوں۔
سیدنا ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ(ایک دن) اس حالت میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (بغرض استفادہ) بیٹھے ہوئے تھے، تین اشخاص آئے تو (ان میں سے) دو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ گئے اور ایک چلا گیا (ابوواقد رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ وہ دونوں (کچھ دیر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے رہے پھر ان میں سے ایک نے حلقہ میں گنجائش دیکھی تو وہ وہاں بیٹھ گیا اور دوسرا سب کے پیچھے (جہاں مجلس ختم ہوتی تھی) بیٹھ گیا اور تیسرا تو واپس ہی چلا گیا۔ پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (وعظ سے) فراغت پائی تو (صحابہ رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہو کر) فرمایا: کیا میں تمہیں تین آدمیوں کی حالت نہ بتاؤں کہ ان میں سے ایک نے اللہ کی طرف رجوع کیا اور اللہ نے اس کو جگہ دی اور دوسرا شرمایا تو اللہ نے (بھی) اس سے حیاء کی اور تیسرے نے منہ پھیرا تو اللہ نے (بھی) اس سے اعراض فرمایا۔
6. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ بسا اوقات وہ شخص جسے (بالواسطہ) حدیث پہنچائی جائے، (براہ راست) سننے والے کی بہ نسبت زیادہ یاد رکھنے والا ہوتا ہے۔
“ कभी-कभी जिस व्यक्ति को हदीस पहुंचाई जाती है वह सुनने वाले से अधिक याद रखने वाला होता है ”
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر بیٹھے تھے اور ایک شخص اس کی نکیل پکڑے ہوئے تھا آپ نے (صحابہ رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہو کر) فرمایا: یہ کون سا دن ہے؟ تو ہم چپ رہے، یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ عنقریب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے (اصلی) نام کے سوا کچھ اور (نام اس کا) بتائیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ قربانی کا دن نہیں ہے؟ ہم نے عرض کی کہ ہاں۔ پھر آپ نے پوچھا: یہ کون سا مہینہ ہے؟ تو ہم نے پھر سکوت کیا یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نام بدل کر بتائیں گے تو آپ نے فرمایا: کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟ ہم نے عرض کی ہاں۔ (اس کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں آپس میں ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارے اس دن میں، تمہارے اس مہینہ میں، تمہارے اس شہر میں حرام (سمجھے جاتے) ہیں، چاہیے کہ (جو لوگ) حاضر (ہیں وہ) ان کو یہ خبر پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں اس لیے کہ شاید اس وقت سننے والا ایسے شخص کو یہ حدیث پہنچائے جو اس سے کہیں زیادہ اس کو یاد رکھے۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نصیحت کرنے کے لیے وقت اور موقع کی رعایت فرماتے تھے، ہمارے اکتا جانے کے خیال سے (ہر روز وعظ نہ فرماتے تھے)۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (دین میں) آسانی کرو اور سختی نہ کرو اور (لوگوں کو) خوشخبری سناؤ اور (زیادہ تر ڈرا ڈرا کر انھیں) متنفر نہ کرو۔