-" اتاني جبريل عليه الصلاة والسلام، فاخبرني ان امتي ستقتل ابني هذا (يعني الحسين)، فقلت: هذا؟ فقال: نعم، واتاني بتربة من تربته حمراء".-" أتاني جبريل عليه الصلاة والسلام، فأخبرني أن أمتي ستقتل ابني هذا (يعني الحسين)، فقلت: هذا؟ فقال: نعم، وأتاني بتربة من تربته حمراء".
سیدہ ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے رات کو قبیح خواب دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”وہ کیا ہے؟“ اس نے کہا: وہ بہت سخت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”آخر وہ ہے کیا؟“ اس نے کہا: مجھے ایسے لگا کہ آپ کے جسم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں پھینکا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے تو عمدہ خواب دیکھا ہے، (اس کی تعبیر یہ ہے کہ ان شاءاللہ میری بیٹی) فاطمہ کا بچہ پیدا ہو گا جو تیری گود میں ہو گا۔“ واقعی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بچہ حسین پیدا ہوا، جو میری گود میں تھا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور حسین کو آپ کی گود میں رکھ دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوئی تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کو کیا ہو گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے بتلایا کہ میری امت میرے اس بیٹے کو قتل کر دے گی۔“ میں نے کہا: یہ بیٹا (حسین)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، وہ میرے پاس اس علاقے کی سرخ مٹی بھی لائے۔“
-" لقد دخل علي البيت ملك لم يدخل علي قبلها، فقال لي: إن ابنك هذا: حسين مقتول وإن شئت اريتك من تربتة الارض التي يقتل بها".-" لقد دخل علي البيت ملك لم يدخل علي قبلها، فقال لي: إن ابنك هذا: حسين مقتول وإن شئت أريتك من تربتة الأرض التي يقتل بها".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا و سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی ایک کو فرمایا: ” آج گھر میں میرے پاس ایسا فرشتہ، جو پہلے کبھی نہیں آیا تھا، اس نے مجھے کہا: آپ کا یہ حسین بیٹا قتل ہو جائے گا، اگر آپ چاہتے ہیں تو میں اس کے مقتل کی مٹی آپ کو دکھا دیتا ہوں۔ پھر اس نے سرخ مٹی نکال ( کر مجھے دکھائی)۔“
-" قام من عندي جبريل قبل، فحدثني ان الحسين يقتل بشط الفرات".-" قام من عندي جبريل قبل، فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات".
عبداللہ بن نجی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ طہارت والے پانی کا برتن اٹھا کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ چل رہے تھے، جب صفین کی طرف جاتے ہوئے نینوی مقام تک پہنچے، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے آواز دی: ابوعبداللہ! ٹھہر جاؤ، دریائے فرات کے کنارے ٹھہر جاؤ۔ میں نے کہا: ادھر کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اس حال میں آپ کی آنکھیں اشک بار تھیں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! کسی نے آپ کو غصہ دلایا ہے؟ آپ کی آنکھیں کیوں آنسو بہا رہی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری کی آمد سے قبل جبریل امین میرے پاس سے اٹھ کر گئے ہیں، انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ حسین کو دریائے فرات کے کنارے قتل کر دیا جائے گا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اس نے کہا کہ میں آپ کو اس کی مٹی کو خوشبو سونگھاؤں؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ پس انہوں نے اپنا ہاتھ لمبا کیا، مٹی کی مٹھی بھری اور مجھے دے دی۔ میں اپنے آپ پر قابو نہ پا سکا اور رونے لگ گیا۔“
-" اتركوا الحبشة ما تركوكم، فإنه لا يستخرج كنز الكعبة إلا ذو السويقتين من الحبشة".-" اتركوا الحبشة ما تركوكم، فإنه لا يستخرج كنز الكعبة إلا ذو السويقتين من الحبشة".
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حبشیوں کو اس وقت تک نہ چھیڑو، جب تک وہ تمہیں نہ چھیڑیں، کیونکہ کعبہ کے خزانے کو لوٹنے والا حبشہ کا چھوٹی پنڈلیوں والا آدمی ہو گا۔“
-" يبايع لرجل بين الركن والمقام، ولن يستحل البيت إلا اهله، فإذا استحلوه فلا تسال عن هلكة العرب، ثم تاتي الحبشة فيخربونه خرابا لا يعمر بعده ابدا، وهم الذين يستخرجون كنزه".-" يبايع لرجل بين الركن والمقام، ولن يستحل البيت إلا أهله، فإذا استحلوه فلا تسأل عن هلكة العرب، ثم تأتي الحبشة فيخربونه خرابا لا يعمر بعده أبدا، وهم الذين يستخرجون كنزه".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی کی حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان بیعت کی جائے گی۔ بیت اللہ کی حرمتوں کو پامال کرنے والے اہل بیت اللہ ہی ہوں گے۔ جب وہ ایسا کریں گے تو پھر عربوں کی ہلاکت و بردبادی محتاج بیان نہ رہے گی، پھر حبشی لوگ کعبہ کو ویران کر دیں اور اس کے بعد اسے آباد نہیں کیا جائے، یہی لوگ اس کے خزانے نکال لیں گے۔“
-" يبايع لرجل ما بين الركن والمقام ولن يستحل البيت إلا اهله، فإذا استحلوه فلا يسال عن هلكة العرب، ثم تاتي الحبشة فيخربونه خرابا لا يعمر بعده ابدا وهم الذين يستخرجون كنزه".-" يبايع لرجل ما بين الركن والمقام ولن يستحل البيت إلا أهله، فإذا استحلوه فلا يسأل عن هلكة العرب، ثم تأتي الحبشة فيخربونه خرابا لا يعمر بعده أبدا وهم الذين يستخرجون كنزه".
سعید بن سمعان کہتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، سیدنا ابو قادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی کی حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان بیعت کی جائے گی اور بیت اللہ کی حرمتوں کو پامال کرنے والے اہل بیت اللہ ہی ہوں گے۔ جب وہ بیت اللہ کی حرمتوں کو پامال کریں گے، تو پھر عربوں کی ہلاکت و بربادی عروج پر ہو گی، پھر حبشی آ کر اسے ویران کر دیں گے، پھر بیت اللہ کو آباد نہیں کیا جائے گا، یہی لوگ کعبہ کے خزانے نکالیں گے۔“
-" لا تغزى هذه (يعني: مكة) بعد اليوم إلى يوم القيامة".-" لا تغزى هذه (يعني: مكة) بعد اليوم إلى يوم القيامة".
سیدنا حارث بن مالک بن برصاء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج کے بعد روز قیامت تک اس (یعنی مکہ) پر حملہ نہیں کیا جائے گا اور نہ کسی قریشی کو باند کر قتل کیا جائے گا۔“
-" لا تنتهي البعوث عن غزو هذا البيت، حتى يخسف بجيش منهم".-" لا تنتهي البعوث عن غزو هذا البيت، حتى يخسف بجيش منهم".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مختلف لشکر بیت اللہ میں جنگ کرنے سے باز نہیں آئیں گے، حتیٰ کہ ان کے ایک لشکر کو زمین میں دھنسا دیا جائےگا۔“
-" اتزعمون اني من آخركم وفاة الا إني من اولكم وفاة وتتبعوني افنادا يهلك بعضكم بعضا".-" أتزعمون أني من آخركم وفاة ألا إني من أولكم وفاة وتتبعوني أفنادا يهلك بعضكم بعضا".
سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”کیا تم لوگ یہ خیال کرتے ہو کہ میں تم میں وفات کے لحاظ سے آخری ہوں؟ آگاہ رہو! میں تو بلحاظ وفات کے تم میں سب سے پہلا ہوں، پھر تم گروہوں (جماعتوں) کی شکل میں میرے پیچھے آؤ گے، تمہارے بعض لوگ بعضوں کو ہلاک کریں گے۔“
-" إذا جمع الله الاولى والاخرى يوم القيامة، جاء الرب تبارك وتعالى إلى المؤمنين، فوقف عليهم، والمؤمنون على كوم (فقالوا لعقبة: ما الكوم؟ قال: مكان مرتفع) فيقول: هل تعرفون ربكم؟ فيقولون: إن عرفنا نفسه عرفناه، ثم يقول لهم الثانية، فيضحك في وجوههم، فيخرون له سجدا".-" إذا جمع الله الأولى والأخرى يوم القيامة، جاء الرب تبارك وتعالى إلى المؤمنين، فوقف عليهم، والمؤمنون على كوم (فقالوا لعقبة: ما الكوم؟ قال: مكان مرتفع) فيقول: هل تعرفون ربكم؟ فيقولون: إن عرفنا نفسه عرفناه، ثم يقول لهم الثانية، فيضحك في وجوههم، فيخرون له سجدا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ روز قیامت اگلوں پچھلوں کو جمع کرے گا، تو وہ مومنوں کے پاس آئے گا، اس وقت مومن کسی اونچی جگہ پر ہوں گے۔ ( راویوں نے عقبہ سے «کوم» کا معنی پوچھا: تو انہوں نے اس کا معنی ”اونچی جگہ“ بتایا) اللہ تعالیٰ پوچھے گا: ( مومنو!) کیا تم اپنے رب کو پہچانتے ہو؟ وہ کہیں گے: اگر وہ اپنا تعارف کروا دے تو ہم پہچان لیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ دوسری دفعہ بات کرے گا اور ان کے سامنے ہنسے گا، (یہ منظر دیکھ کر) وہ سجدے میں گر پڑیں گے۔“