-" جزى الله الانصار عنا خيرا، ولا سيما عبد الله بن عمرو بن حرام وسعد بن عبادة".-" جزى الله الأنصار عنا خيرا، ولا سيما عبد الله بن عمرو بن حرام وسعد بن عبادة".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے باپ نے مجھے خزیزہ (ایک کھانا جو قیمے اور آٹے سے بنایا جاتا ہے) تیار کرنے کا حکم دیا، جب میں وہ کھانا تیار کر کے فارغ ہوا تو مجھے حکم دیا کہ یہ کھانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤ۔ میں آپ کے پاس گیا، آپ گھر میں ہی تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”جابر! تمہارے کے پاس کون سی چیز ہے؟ آیا گوشت ہے؟“ میں نے کہا: نہیں۔ میں اپنے باپ کے پاس واپس آ گیا، انہوں نے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تیری ملاقات ہوئی؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ انہوں نے کہا: تو نے ان کی کوئی بات سنی؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جابر! تیرے پاس کیا ہے؟ آیا گوشت ہے؟“ میرے باپ نے کہا: ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گوشت کھانے کے خواہشمند ہوں۔ چنانچہ انہوں نے پالتو بکری ذبح کرنے کا حکم دیا۔ پس اسے ذبح کیا گیا، پھر اسے بھونا گیا۔ پھر میرے باپ نے مجھے حکم دیا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤ، میں لے گیا، جب آپ نے مجھے دیکھا تو پوچھا۔ ”جابر! تیرے پاس کیا ہے؟“، میں نے بتایا (کہ گوشت ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ہماری طرف سے انصاریوں کو جزائے خیر دے، بالخصوص عبداللہ بن عمرو بن حرام اور سعد بن عبادہ کو۔“
-" الانصار شعار والناس دثار ولو ان الناس استقبلوا واديا او شعبا واستقبلت الانصار واديا لسلكت وادي الانصار ولولا الهجرة لكنت امرا من الانصار".-" الأنصار شعار والناس دثار ولو أن الناس استقبلوا واديا أو شعبا واستقبلت الأنصار واديا لسلكت وادي الأنصار ولولا الهجرة لكنت امرأ من الأنصار".
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصار تحتانی لباس (یعنی مخصوص) لوگ ہیں اور دوسرے لوگ فوقانی لباس (یعنی عام لوگ) ہیں۔ اگر عام لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار ایک وادی میں تو میں انصاریوں کی وادی میں چلوں گا، اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصاری ہوتا۔“
- (من اخاف هذا الحي من الانصار؛ فقد اخاف ما بين هذين؛ يعني: جنبيه).- (مَنْ أَخافَ هذا الحيُّ من الأنصارِ؛ فقدْ أخافَ ما بين هذين؛ يعني: جَنْبَيْه).
عبدالرحمٰن بن جابر بن عبداللہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حرہ والے دن نکلے، جب ان کا پاؤں ایک پتھر سے ٹکرایا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈرانے والا ہلاک ہو جائے۔ میں نے کہا: کس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوفزدہ کیا؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے انصار کے اس قبیلے کو ڈرایا، اس نے میرے دل کو خوفزدہ کر دیا۔“
- (الا نصار كرشي وعيبتي، والناس سيكثرون، ويقلون فاقبلوا من محسنهم، وتجاوزوا عن مسيئهم).- (الأ نصار كَرِشي وعَيْبَتي، والناس سيكثرون، ويقلُّون فاقبلوا من محسنهم، وتجاوزوا عن مسيئهم).
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصار میرے مخلص ساتھی اور ہمراز ہیں، دوسرے لوگ گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں۔ انصاریوں کی اچھائیاں قبول کرو اور ان کی برائیاں نظر انداز کر دو۔“ یہ حدیث سیدنا انس، سیدنا اسید بن حضیر، سیدنا ابوسعید خدری اور سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
-" الانصار لا يحبهم إلا مؤمن ولا يغضهم إلا منافق، فمن احبهم احبه الله ومن ابغضهم ابغضه الله".-" الأنصار لا يحبهم إلا مؤمن ولا يغضهم إلا منافق، فمن أحبهم أحبه الله ومن أبغضهم أبغضه الله".
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصاریوں سے محبت کرنے والا مومن اور ان سے بغض رکھنے والا منافق ہی ہو سکتا ہے۔ اللہ اس سے محبت کرے جو ان سے محبت کرتا ہے اور اس سے بغض رکھے جو ان سے بغض رکھتا ہے۔“
-" إن الانصار قد قضوا الذي عليهم وبقي الذي عليكم، فاحسنوا إلى محسنهم وتجاوزوا عن مسيئهم".-" إن الأنصار قد قضوا الذي عليهم وبقي الذي عليكم، فأحسنوا إلى محسنهم وتجاوزوا عن مسيئهم".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن سر باندھ کر باہر تشریف لائے، انصاریوں کے بچے اور خدّام آپ کو ملے، جو اس وقت انصاریوں کا ذخیرہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین دفعہ فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! بیشک میں تم سے محبت کرتا ہوں۔“ پھر فرمایا: ”انصاریوں نے اپنی ذمہ داریاں ادا کر دیں، تمہاری ذمہ داریاں باقی ہیں، سو تم انصاریوں کی حسنات قبول کر لینا اور ان کی سیئات سے تجاوز کر جانا۔“
- (اما بعد؛ ايها الناس! إن الناس يكثرون وتقل الانصار؛ حتى يكونوا كالملح في الطعام، فمن ولي منكم امرا [من امة محمد - صلى الله عليه وسلم -، فاستطاع ان] يضر فيه احدا او ينفعه؛ فليقبل من محسنهم، ويتجاوز عن مسيئهم).- (أمّا بعدُ؛ أيّها الناسُ! إنّ النّاس يكثرون وتقلُّ الأنصارُ؛ حتى يكونُوا كالملح في الطعامِ، فمن وَليَ منكُم أمراً [من أمّةِ محمّدِ - صلى الله عليه وسلم -، فاستطاعَ أن] يضرّ فيه أحداً أو ينفعَه؛ فليقبلْ من محسنِهم، ويتجاوزْ عن مُسيئهم).
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: یہ انصاری خواتین و حضرات مسجد میں جمع ہیں اور رو رہے ہیں۔ آپ نے پوچھا: ”یہ لوگ کیوں رو رہے ہیں؟“ اس نے کہا: انہیں آپ کی موت کا خطرہ ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکل پڑے، ایک چادر آپ نے کندھوں پر ڈالی ہوئی تھی اور مٹیالے رنگ کی پگڑی باندھی ہوئی تھی، آپ ممبر پر تشریف فرما ہوئے، یہ آپ کی آخری مجلس تھی۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا: اما بعد: لوگو! لوگوں کی تعداد میں اضافہ اور انصار کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے، حتیٰ کہ ان کی تعداد کھانے میں نمک کے برابر رہ جائے گی۔ (سنو!) تم میں سے جو آدمی، محمد کی امت کے امور کا والی بنے اور اسے یہ طاقت بھی ہو کہ وہ کسی کو نفع یا نقصان پہنچا سکے تو وہ انصاریوں کی نیکیوں کو قبول کرے اور برائیوں سے درگزر کرے۔“
- (الا إن لكل شيء تركة وضيعة، وإن تركتي وضيعتي الانصار، فاحفظوني فيهم).- (ألا إنّ لكل شيء تركة وضيعة، وإن ترِكَتي وضيعتي الأنصار، فاحفظوني فيهم).
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”آگاہ ہو جاؤ! ہر آدمی کی میراث اور جاگیر ہوتی ہے اور میری میراث اور جاگیر انصاری ہیں، ان کے بارے میں میرا خیال رکھنا۔“
-" الا إن الناس دثاري والانصار شعاري لو سلك الناس واديا وسلكت الانصار شعبة لاتبعت شعبة الانصار ولولا الهجرة لكنت رجلا من الانصار، فمن ولى امر الانصار، فليحسن إلى محسنهم وليتجاوز عن مسيئهم ومن افزعهم، فقد افزع هذا الذي بين هاتين. واشار إلى نفسه صلى الله عليه وسلم".-" ألا إن الناس دثاري والأنصار شعاري لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبة لاتبعت شعبة الأنصار ولولا الهجرة لكنت رجلا من الأنصار، فمن ولى أمر الأنصار، فليحسن إلى محسنهم وليتجاوز عن مسيئهم ومن أفزعهم، فقد أفزع هذا الذي بين هاتين. وأشار إلى نفسه صلى الله عليه وسلم".
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر انصاریوں کے حق میں یہ فرماتے ہوئے سنا: ”عام لوگ فوقانی لباس ہیں اور انصاری تحتانی لباس (یعنی مخصوص) لوگ) ہیں، اگر لوگ ایک وادی میں اور انصار کسی دوسری گھاٹی میں چل رہے ہوں تو میں انصاریوں کی گھاٹی میں چلوں گا، اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصاریوں میں سے ہوتا، جو آدمی انصار کے معاملات کا والی بنے وہ ان کے نیک لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے اور غلطیاں کرنے والوں سے تجاوز کر جائے۔ جس نے ان کو خوفزدہ کیا اس نے ان دو پہلوؤں کے درمیان والی چیز کو خوفزدہ کر دیا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ جملہ ارشاد فرمایا۔
ـ (الا اخبركم بخير دور الانصار ـ او بخير الانصار ـ؟! قالوا: بلى يا رسول الله! قال: بنو النجار، ثم الذين يلونهم؛ بنو عبد الاشهل، ثم الذين يلونهم؛ بنو الحارث بن الخزرج، ثم الذين يلونهم؛ بنو ساعدة، ثم قال بيديه، فقبض اصابعه ثم بسطهن ـ كالرامي بيده ـ، قال: وفي دور الانصار كلها خير).ـ (أَلا أخبرُكم بخيْرِ دُورِ الأنصارِ ـ أو بخيْرِ الأنصار ِـ؟! قالوا: بلَى يا رسولَ الله! قال: بَنُو النّجارِ، ثمّ الذين يلونَهم؛ بَنُو عبدِ الأشهلِ، ثمّ الذين يلونَهم؛ بنُو الحارثِ بن الخزرجِ، ثمّ الذين يلونَهم؛ بنُو ساعدةَ، ثمّ قال بيدَيهِ، فقبضَ أصابِعه ثمّ بسطهُنَّ ـ كالرامي بيدهِ ـ، قال: وفي دُورِ الأنصارِ كلِّها خيرٌ).
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہارے لیے انصار کے بہترین گھروں یا بہترین انصاریوں کا تعین نہ کر دوں۔“ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنو نجار سب سے بہتر ہیں ان کے بعد بنو عبدالاشھل، ان کے بعد بنو حارث بن خزرج اور ان کے بعد بنو ساعدہ۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیاں بند کیں اور کھولیں، جیسے کوئی چیز پھینک رہے ہیں اور فرمایا: ”سب انصاریوں کے گھروں میں خیر ہے۔“ یہ حدیث سیدنا انس، سیدنا ابو ایسد ساعدی، سیدنا ابو حمید ساعدی اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔