- (إذا ظننتم فلا تحققوا. وإذا حسدتم فلا تبغوا. وإذا تطيرتم فامضوا؛ وعلى الله توكلوا. وإذا وزنتم فارجحوا).- (إذا ظننتُم فلا تُحَقِّقوا. وإذا حسدتُم فلا تبغُوا. وإذا تطيَّرتُم فامضوا؛ وعلى الله توكلوا. وإذا وُزنتُم فأرجحُوا).
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم کو (کسی کے بارے میں سوئے) ظن ہو جائے تو اس کی چھان بین مت کرو، جب تم کسی سے حسد کرنے لگو تو ظلم مت کرو اور جب تم کو (اپنے کسی کام کے بارے میں) بدشگونی ہو جائے تو (مت رکو اور) اپنے کام کو جاری رکھو اور اللہ پر بھروسہ کرو اور جب تم (لین دین کے وقت) وزن کرو تو ترازو کا پلڑا جھکا دیا کرو (یعنی چیز وزن سے کچھ زیادہ دے دیا کرو)۔“
-" إذا لقي المسلم اخاه المسلم، فاخذ بيده فصافحه، تناثرت خطاياهما من بين اصابعهما كما يتناثر ورق الشجر بالشتاء".-" إذا لقي المسلم أخاه المسلم، فأخذ بيده فصافحه، تناثرت خطاياهما من بين أصابعهما كما يتناثر ورق الشجر بالشتاء".
عبدہ بن ابولبابہ، مجاہد سے اور وہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی مسلمان اپنے بھائی کو ملتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اس سے مصافحہ کرتا ہے تو ان کی انگلیوں کے بیچ سے اس طرح گناہ گرتے ہیں جس طرح موسم سرما میں درختوں کے پتے جھڑتے ہیں۔ عبدہ کہتے ہیں: میں نے مجاہد سے کہا: یہ عمل تو بہت معمولی ہے (اور اجر اتنا زیادہ)۔ مجاہد نے کہا: ایسا مت کہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا: اے نبی! اگر تم وہ سارے کا سارا بھی خرچ کر دیتے جو زمین میں ہے تو پھر بھی ان کے دلوں کو نہ جوڑ سکتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان محبت پیدا کر دی۔ عبدہ کہتے ہیں: اس سے میں نے دوسرے (اہل علم) پر مجاہد کی فضیلت پہچان لی۔
- (ارايت لو كان على ابيك دين اكنت قاضيه؟ قال: نعم. قال: حج عن ابيك).- (أرأيتَ لو كانَ على أبِيكَ دَيْنٌ أَكُنْتَ قاضِيَهُ؟ قال: نعم. قال: حُجَّ عَنْ أَبِيكَ).
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میرا باپ فوت ہو گیا ہے اور اس نے حج نہیں کیا، کیا میں اس کی طرف سے حج ادا کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس کے بارے میں) تیرا کیا خیال ہے کہ اگر تیرے باپ پر قرض ہوتا تو کیا تو اس کی طرف سے اس کی ادائیگی کرتا؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(یہی معاملہ حج کا ہے، اس لیے) اپنے باپ کی طرف سے حج ادا کرو۔“
-" اضمنوا لى ستا من انفسكم اضمن لكم الجنة: اصدقوا إذا حدثتم واوفوا إذا وعدتم وادوا إذا ائتمنتم واحفظوا فروجكم وغضوا ابصاركم وكفوا ايديكم".-" اضمنوا لى ستا من أنفسكم أضمن لكم الجنة: اصدقوا إذا حدثتم وأوفوا إذا وعدتم وأدوا إذا ائتمنتم واحفظوا فروجكم وغضوا أبصاركم وكفوا أيديكم".
سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دے دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں (۱) جب بات کرو تو سچ بولو، (۲) جب وعدہ کرو تو پورا کرو، (٣) جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو ادا کرو، (٤) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو، (٥) اپنی آنکھوں کو نیچا رکھو، (٦) اور اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو۔“
-" من ادرك والديه او احدهما ثم دخل النار من بعد ذلك فابعده الله واسحقه".-" من أدرك والديه أو أحدهما ثم دخل النار من بعد ذلك فأبعده الله وأسحقه".
سیدنا ابی بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنے ماں باپ دونوں یا کسی ایک کو پایا اور پھر آگ میں داخل ہو گیا تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو (اپنی رحمت سے) دور کر دے اور اسے ہلاک کر دے۔“
- (لا، ولكن بر اباك، واحسن صحبته).- (لا، ولكن برَّ أباك، وأحسن صحبته).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر عبداللہ بن ابی بن سلول کے پاس سے ہوا، وہ ایک جھاڑی کے سائے میں تھا، اس نے کہا: ابن ابی کبشہ ( یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہم پر گرد و غبار اڑایا ہے۔ اس کے بیٹے عبدالله بن عبدالله نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت دی اور آپ پر کتاب نازل کی! اگر آپ کی چاہت ہو تو میں اس کا سر (قلم کر کے) آپ کے پاس لے آتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ تو اپنے باپ سے نیکی کر اور حسن صحبت سے پیش آ۔“
-" دخلت الجنة فسمعت فيها قراءة، قلت: من هذا؟ فقالوا: حارثة بن النعمان، كذلكم البر كذلكم البر (وكان ابر الناس بامه)".-" دخلت الجنة فسمعت فيها قراءة، قلت: من هذا؟ فقالوا: حارثة بن النعمان، كذلكم البر كذلكم البر (وكان أبر الناس بأمه)".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جنت میں داخل ہوا، میں نے وہاں قراءت کی آواز سنی۔ میں نے پوچھا: (جس کی آواز آ رہی ہے) یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: حارثہ بن نعمان ہے۔ یہی نیکی اور (حسن سلوک) ہے، یہی نیکی اور (حسن سلوک) ہے، وہ (حارثہ) اپنی ماں کے ساتھ بہت زیادہ حسن سلوک کرنے والا تھا۔“
حمزہ بن عبداللہ بن عمر اپنے باپ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میری ایک بیوی تھی، جس سے میں محبت کرتا تھا اور (میرے باپ) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس سے نفرت کرتے تھے۔ میرے باپ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کو طلاق دے دو۔ لیکن میں نے انکار کر دیا۔ انہوں نے یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”اپنے باپ کی فرمانبرداری کرو اور اس کو طلاق دے دو۔“
-" رضى الرب في رضى الوالد وسخط الرب في سخط الوالد".-" رضى الرب في رضى الوالد وسخط الرب في سخط الوالد".
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی رضا مندی باپ کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں۔“