-" ثلاثة يدعون فلا يستجاب لهم: رجل كانت تحته امراة سيئة الخلق فلم يطلقها، ورجل كان له على رجل مال فلم يشهد عليه، ورجل آتى سفيها ماله وقد قال الله عز وجل: * (ولا تؤتوا السفهاء اموالكم) *".-" ثلاثة يدعون فلا يستجاب لهم: رجل كانت تحته امرأة سيئة الخلق فلم يطلقها، ورجل كان له على رجل مال فلم يشهد عليه، ورجل آتى سفيها ماله وقد قال الله عز وجل: * (ولا تؤتوا السفهاء أموالكم) *".
سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین قسم کے آدمی دعا تو کرتے ہیں لیکن ان کی دعا قبول نہیں ہوتی: (۱) وہ شخص جس کی بیوی برے اخلاق والی ہو اور وہ اسے طلاق نہ دے۔ (۲) وہ آدمی جس نے کسی سے قرضہ لینا ہو لیکن اس پر کوئی گواہ نہ بنایا ہو اور (۳) وہ آدمی جس نے بیوقوف (یعنی مال کے انتظام کی صلاحیت نہ رکھنے والے چھوٹے یا ناتجربہ کار) آدمی کو مال دے دیا ہو، حالانکہ الله تعالیٰ نے فرمایا: اپنے اموال بیوقوفوں کے حوالے نہ کر دو۔“
-" لا تسال المراة طلاق اختها لتكتفئ ما في صحفتها، فإنما رزقها على الله عز وجل".-" لا تسأل المرأة طلاق أختها لتكتفئ ما في صحفتها، فإنما رزقها على الله عز وجل".
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی عورت اپنی کسی بہن کے برتن کو انڈیلنے (یعنی اس کا گھر برباد کرنے) کے لیے اس کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے اور (یاد رکھے کہ) اس کا رزق الله تعالیٰ پر ہے۔“
- (إن إبليس! يضع عرشه على الماء (وفي طريق: البحر)، ثم يبعث سراياه؛ فادناهم منه منزلة اعظمهم فتنة، يجيء احدهم فيقول: فعلت كذا وكذا، فيقول: ما صنعت شيئا، ثم يجيء احدهم فيقول: ما تركته حتى فرقت بينه وبين امراته، فيدنيه منه ويقول: نعم انت! قال الاعمش: اراه قال: فيلتزمه).- (إنّ إبليس! يضعُ عرشهُ على الماءِ (وفي طريق: البحر)، ثم يبعثُ سراياهُ؛ فأدناهُم منه منزلةُ أعظمُهم فتنةً، يجيءُ أحدُهم فيقولُ: فعلتُ كذا وكذا، فيقولُ: ما صنعتَ شيئاً، ثمَّ يجيءُ أحدُهم فيقولُ: ما تركتُه حتى فرّقتُ بينهُ وبين امرأتهِ، فيُدنِيه منه ويقولُ: نِعم أنت! قال الأعمش: أراه قال: فيلتزِمُه).
سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابلیس پانی پر (ایک روایت کے مطابق سمندر پر) اپنا تخت رکھتا ہے، پھر (لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے) اپنے لشکروں کو روانہ کرتا ہے۔ سب سے بڑا فتنہ برپا کرنے والا (شیطان) منزلت میں اس کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ ایک واپس آ کر کہتا ہے کہ میں نے ایسے ایسے کیا۔ ابلیس کہتا ہے: تو نے تو کچھ نہیں کیا۔ ایک دوسرا آ کر کہتا ہے: میں نے اسے اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک کہ اس کے اور اس کی بیوی کے مابین جدائی نہیں ڈال دی۔ وہ اسے اپنے قریب کرتا ہے اور کہتا ہے: واہ تیری کیا بات ہے!“ اعمش روی کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ میرے شیخ نے یہ الفاظ بھی نقل کئے: ”پھر وہ اسے اپنے گلے لگا لیتا ہے۔“
-" إنما النفقة والسكن للمراة إذا كان لزوجها عليها الرجعة".-" إنما النفقة والسكن للمرأة إذا كان لزوجها عليها الرجعة".
سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: میں آل خالد کی ہوں، میرے خاوند نے مجھے طلاق دے دی ہے، میں نے اس کے قرابتداروں سے نفقہ اور رہائش کا مطالبہ کیا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور (رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو آ کر بتلایا کہ) اس نے اس کو تین طلاقیں دے دی ہیں۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خاوند عورت کے نفقہ و سکنی کا ذمہ دار اس وقت ہوتا ہے جب اسے رجوع کا حق حاصل ہو۔“
-" المتلاعنان إذا تفرقا، لا يجتمعان ابدا".-" المتلاعنان إذا تفرقا، لا يجتمعان أبدا".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب لعان کرنے والے (میاں بیوی) جدا ہو جائیں، تو کبھی (نکاح میں) جمع نہیں ہو سکتے۔“ یہ حدیث سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا سہل بن سعد، سیدنا عبداللہ بن مسعود اور سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
-" ليس على ولد الزنا من وزر ابويه شيء * (ولا تزر وازرة وزر اخرى) * (¬1)".-" ليس على ولد الزنا من وزر أبويه شيء * (ولا تزر وازرة وزر أخرى) * (¬1)".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زنا کی اولاد پر اپنے والدین کے گناہ کا کوئی وبال نہیں ہو گا، (ارشاد باری تعالیٰ ہے:) «وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى» اور قیامت کے دن کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔“(سورہ فاطر:۱۸)
-" ما احرز الولد او الوالد فهو لعصبته من كان".-" ما أحرز الولد أو الوالد فهو لعصبته من كان".
سیدنا عبدالله بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رئاب بن حذیفہ نے ایک عورت سے شادی کی، اس سے اس کے تین بچے پیدا ہوئے۔ جب ان کی ماں فوت ہوئی تو وہ اس کی جائداد اور اس کے آزاد کردہ غلاموں کی ولا کے وارث بن گئے۔ عمرو بن عاص اس کے بیٹوں کے عصبہ تھے، انہوں نے ان (بچوں) کو شام کی طرف بھیجا، وہ وہیں فوت ہو گئے، جب عمرو بن عاص آئے تو اس عورت کا (آزاد کردہ) غلام کچھ مال چھوڑ کر مر گیا۔ اس عورت کے بھائی جھگڑا لے کر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچہ یا باپ جو کچھ جمع کرے گا وہ اس کے عصبہ کو ملے گا، وہ جو بھی ہوں۔“
-" افما يسرك إذا ادخلك الله الجنة ان تجده على باب من ابوابها فيفتحه لك. يعني ابنه الصغير".-" أفما يسرك إذا أدخلك الله الجنة أن تجده على باب من أبوابها فيفتحه لك. يعني ابنه الصغير".
سیدنا معاویہ بن قرہ اپنے چچا یعنی قرہ بن ایاس کے بھائی سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اپنے چھوٹے بچے کے ہمراہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اور اسے اپنے سامنے بٹھا لیتے تھے۔ (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”کیا تم اس سے محبت کرتے ہو؟“ انہوں نے کہا: بہت زیادہ محبت کرتا ہوں۔ (الله کا کرنا کہ) وہ بچہ فوت ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”تم (بچے کی جدائی پر) غمگین تو ہو گے؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں، الله کے رسول! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر خوش ہو جاؤ گے کہ جب تم کو الله تعالیٰ جنت میں داخل کرے تو تم اس بچے کو جنت کے دروازے پر پاؤ اور وہ تمہارے لیے دروازہ کھولے؟“ اس نے کہا: کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سو اسی طرح ہو گا، ان شاء اللہ۔“
-" ما من امراة تقدم ثلاثا من الولد تحتسبهن إلا دخلت الجنة. فقالت امراة منهن: او اثنان؟ قال: او اثنان".-" ما من امرأة تقدم ثلاثا من الولد تحتسبهن إلا دخلت الجنة. فقالت امرأة منهن: أو اثنان؟ قال: أو اثنان".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: اے الله کے رسول! آپ مردوں کی مجلس میں بیٹھے ہوتے ہیں، ہم وہاں نہیں آ سکتیں، لہٰذا آپ ہمارے لیے کوئی دن مقرر کر دیں، ہم پہنچ جائیں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فلاں کے گھر میں (فلاں دن) پہنچ جانا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسب وعدہ اسی دن تشریف لائے اور انہیں جو کچھ فرمایا (اس کا ایک اقتباس) یہ تھا: ”جس عورت کے تین بچے فوت ہو جاتے ہیں اور وہ ثواب کی امید رکھتے ہوئے صبر کرتی ہے تو وہ جنت میں داخل ہو گی۔“ ایک عورت نے کہا: اگر بچے دو ہوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو بھی ہوں تب۔“