-" قال الله تبارك وتعالى: الحسنة بعشر امثالها او ازيد والسيئة واحدة او اغفرها ولو لقيتني بقراب الارض خطايا ما لم تشرك بي لقيتك بقرابها مغفرة".-" قال الله تبارك وتعالى: الحسنة بعشر أمثالها أو أزيد والسيئة واحدة أو أغفرها ولو لقيتني بقراب الأرض خطايا ما لم تشرك بي لقيتك بقرابها مغفرة".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہمیں صادق و مصدوق (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنے رب سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”نیکی کا بدلہ دس گنا یا اس سے بھی زیادہ عطا کرتا ہوں اور برائی کا بدلہ ایک گنا دوں گا یا اسے بھی معاف کر دوں گا۔ (اے میرے بندے!) اگر تو زمین کے لگ بھگ گناہ لے کر مجھے ملے، تو میں تجھے اتنی ہی بخشش عطا کروں گا، بشرطیکہ تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو۔“
- (إذا احسن احدكم إسلامه؛ فكل حسنة يعملها تكتب بعشر امثالها؛ إلى سبع مئة ضعف، وكل سيئة يعملها تكتب له بمثلها، حتى يلقى الله عز وجل).- (إذا أحسَنَ أحدُكم إسلامَه؛ فكلُّ حسنةٍ يعمَلُها تُكتبُ بعشرِ أمثالِها؛ إلى سَبعِ مِئَةِ ضِعفٍ، وكلُّ سيئةٍ يعملُها تُكتبُ له بمثلها، حتّى يلقَى الله عزّ وجلّ).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے اسلام میں حسن پیدا کر لیتا ہے، تو اس کی ہر نیکی دس گنا سے لے کے سات سو گنا تک بڑھا کر لکھی جاتی ہے اور برائی کو ایک برائی کی صورت میں ہی لکھا جاتا ہے، (یہی سلسلہ جاری رہتا ہے حتیٰ کہ وہ فوت ہو کر) اللہ تعالیٰ سے جا ملتا ہے۔“
-" إذا اسلم العبد، فحسن إسلامه، كتب الله له كل حسنة كان ازلفها، ومحيت عنه كل سيئة كان ازلفها، ثم كان بعد ذلك القصاص، الحسنة بعشر امثالها إلى سبع مائة ضعف، والسيئة بمثلها إلا ان يتجاوز الله عز وجل عنها".-" إذا أسلم العبد، فحسن إسلامه، كتب الله له كل حسنة كان أزلفها، ومحيت عنه كل سيئة كان أزلفها، ثم كان بعد ذلك القصاص، الحسنة بعشر أمثالها إلى سبع مائة ضعف، والسيئة بمثلها إلا أن يتجاوز الله عز وجل عنها".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی اسلام قبول کرتا ہے اور اس کے اسلام میں حسن آ جاتا ہے، تو اس نے جو نیکی کی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اسے لکھ کر (محفوظ کر لیتا) ہے اور اس نے جس برائی کا ارتکاب کیا ہوتا ہے اسے مٹا دیا جاتا ہے۔ پھر (اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے) مزید بدلا یوں ہوتا ہے کہ ایک نیکی دس سے سات سو گنا تک کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور رہا مسلئہ برائی کا، تو وہ ایک ہی رہتی ہے، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے بھی معاف کر دے۔“
-" إذا اراد الله قبض عبد بارض جعل له فيها حاجة".-" إذا أراد الله قبض عبد بأرض جعل له فيها حاجة".
سیدنا ابوعزہ ہزلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو زمین کے کسی خطے میں فوت کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے لیے اس (مقام) کی طرف جانے کے لیے کسی ضرورت (کا بہانہ) بنا دیتے ہیں۔“
-" إذا تكلم الله تعالى بالوحي سمع اهل السماء للسماء صلصلة كجر السلسلة على الصفا، فيصعقون، فلا يزالون كذلك حتى ياتيهم جبريل، حتى إذا جاءهم جبريل فزع عن قلوبهم، قال: فيقولون: يا جبريل! ماذا قال ربك، فيقول: الحق، فيقولون: الحق الحق".-" إذا تكلم الله تعالى بالوحي سمع أهل السماء للسماء صلصلة كجر السلسلة على الصفا، فيصعقون، فلا يزالون كذلك حتى يأتيهم جبريل، حتى إذا جاءهم جبريل فزع عن قلوبهم، قال: فيقولون: يا جبريل! ماذا قال ربك، فيقول: الحق، فيقولون: الحق الحق".
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب اللہ تعالیٰ وحی کرنے کے لیے کلام کرتا ہے تو آسمان والوں کو چکنے پتھر پر گھسیٹنے والے زنجیر کی سی جھنکار کی آواز سنائی دیتی ہے اور وہ بے ہوش ہو جاتے ہیں اور جبرائیل کے آنے تک اسی حالت پر رہتے ہیں۔ جب وہ پہنچتا ہے تو ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو جاتی ہے، وہ پوچھتے ہیں: اے جبرائیل! تیرے رب نے کیا فرمایا؟ وہ جواباً کہتا ہے: حق فرمایا۔ (یہ سن کر) وہ بھی کہتے ہیں: حق فرمایا، حق فرمایا۔“
- (إنها لايرمى بها لموت احد ولا لحياته؛ ولكن ربنا تبارك وتعالى اسمه إذا قضى امرا؛ سبح حملت العرش، ثم سبح اهل السماء الذين يلونهم،. حتى يبلغ التسبيح اهل هذه السماء الدنيا، ثم قال الذين يلون حملة العرش لحملة العرش: ماذا قال ربكم؟ فيخبرونهم ماذا قال، قال: فيستخبر بعض اهل السماوات بعضا، حتى يبلغ الخبر هذه السماء الد نيا، فتخطف الجن السمع، فيقذفون إلى اوليائهم، ويرمون به، فما جاؤوا به على وجهه؛ فهو حق، ولكنهم يقرفون فيه ويزيدون).- (إنّها لايُرمى بها لموت أحدٍ ولا لحياته؛ ولكن ربّنا تبارك وتعالى اسمه إذا قضى أمراً؛ سبّح حملت العرش، ثم سبّح أهل السماء الذين يلونهم،. حتى يبلغ التسبيح أهل هذه السماء الدنيا، ثم قال الذين يلون حملة العرش لحملة العرش: ماذا قال ربكم؟ فيخبرونهم ماذا قال، قال: فيستخبر بعض أهل السماوات بعضاً، حتى يبلغ الخبر هذه السماء الد نيا، فتخطف الجن السمع، فيقذفونّ إلى أوليائهم، ويرمون به، فما جاؤوا به على وجهه؛ فهو حق، ولكنّهم يقرفون فيه ويزيدون).
علی بن حسین سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: مجھے ایک انصاری صحابی نے بیان کیا کہ وہ ایک رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، ایک سیارہ ٹوٹ کر گر پڑا اور اس کی وجہ سے روشنی پھیل گئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”تم جاہلیت میں اس قسم کے سیارے کے بارے میں کیا کہتے تھے؟“ انہوں نے کہا: (حقیقی صورت حال تو) اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ ہم یوں کہا کرتے تھے: آج رات کوئی عظیم آدمی پیدا ہوا ہے یا فوت ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی کی موت و حیات کی وجہ سے سیارے نہیں ٹوٹتے۔ (درحقیقت) جب اللہ تبارک و تعالیٰ کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو حاملین عرش اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں، پھر اس سے نچلے والے آسمان کے فرشتے اللہ کی تسبیح شروع کرتے ہیں، حتیٰ کہ آسمان دنیا والے فرشتے بھی تسبیح میں مصروف ہو جاتے ہیں پھر (ساتویں) آسمان والے فرشتے حاملین عرش سے پوچھتے ہیں: تمہارے رب نے کیا کہا؟ وہ انہیں جواب دیتے ہیں کہ یہ کچھ کہا، اسی طرح ایک آسمان والے دوسرے سے پوچھتے ہیں اور بات چلتے چلتے آسمان دنیا تک پہنچ جاتی ہے، (جب آسمان دنیا پر اللہ تعالیٰ کے فیصلے کی بات ہوتی ہے تو اس کے نیچے تک پہنچ جانے والے) جن بات اچک کر اپنے (شیطانی) اولیا تک پہچانے کی کوشش کرتے ہیں، (ان کو جلانے کے لیے) ان پر سیارے گرائے جاتے ہیں۔ (وہ بسا اوقات جل جاتے ہیں اور بعض اوقات نکل آتے ہیں) وہ جو کچھ وہاں سے سن کر آتے ہیں وہ تو حق ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ کئی جھوٹ گھڑتے ہیں اور اپنی طرف سے اضافے کرتے ہیں۔“
- (إنها لايرمى بها لموت احد ولا لحياته؛ ولكن ربنا تبارك وتعالى اسمه إذا قضى امرا؛ سبح حملت العرش، ثم سبح اهل السماء الذين يلونهم،. حتى يبلغ التسبيح اهل هذه السماء الدنيا، ثم قال الذين يلون حملة العرش لحملة العرش: ماذا قال ربكم؟ فيخبرونهم ماذا قال، قال: فيستخبر بعض اهل السماوات بعضا، حتى يبلغ الخبر هذه السماء الد نيا، فتخطف الجن السمع، فيقذفون إلى اوليائهم، ويرمون به، فما جاؤوا به على وجهه؛ فهو حق، ولكنهم يقرفون فيه ويزيدون).- (إنّها لايُرمى بها لموت أحدٍ ولا لحياته؛ ولكن ربّنا تبارك وتعالى اسمه إذا قضى أمراً؛ سبّح حملت العرش، ثم سبّح أهل السماء الذين يلونهم،. حتى يبلغ التسبيح أهل هذه السماء الدنيا، ثم قال الذين يلون حملة العرش لحملة العرش: ماذا قال ربكم؟ فيخبرونهم ماذا قال، قال: فيستخبر بعض أهل السماوات بعضاً، حتى يبلغ الخبر هذه السماء الد نيا، فتخطف الجن السمع، فيقذفونّ إلى أوليائهم، ويرمون به، فما جاؤوا به على وجهه؛ فهو حق، ولكنّهم يقرفون فيه ويزيدون).
علی بن حسین سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: مجھے ایک انصار صحابی نے بیان کیا کہ وہ ایک رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، ایک سیارہ ٹوٹ کر گر پڑا اور اس کی وجہ سے روشنی پھیل گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”تم جاہلیت میں اس قسم کے سیارے کے بارے میں کیا کہتے تھے؟“ انہوں نے کہا: (حقیقی صورت حال تو) اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ ہم یوں کہا کرتے تھے: آج رات کوئی عظیم آدمی پیدا ہوا ہے یا فوت ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی کی موت و حیات کی وجہ سے سیارے نہیں ٹوٹتے۔ (درحقیقت) جب اللہ تبارک و تعالیٰ کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو حاملین عرش اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں، پھر اس سے نچلے والے آسمان کے فرشتے اللہ کی تسبیح شروع کرتے ہیں، حتیٰ کہ آسمان دنیا والے فرشتے بھی تسبیح میں مصروف ہو جاتے ہیں پھر (ساتویں) آسمان والے فرشتے حاملین عرش سے پوچھتے ہیں: تمہارے رب نے کیا کہا؟ وہ انہیں جواب دیتے ہیں کہ یہ کچھ کہا، اسی طرح ایک آسمان والے دوسرے سے پوچھتے ہیں اور بات چلتے چلتے آسمان دنیا تک پہنچ جاتی ہے، (جب آسمان دنیا پر اللہ تعالیٰ کے فیصلے کی بات ہوتی ہے تو اس کے نیچے تک پہنچ جانے والے) جن بات اچک کر اپنے (شیطانی) اولیا تک پہچانے کی کوشش کرتے ہیں، (ان کو جلانے کے لیے) ان پر سیارے گرائے جاتے ہیں۔ (بسا اوقات جل جاتے ہیں اور بعض اوقات نکل آتے ہیں) وہ جو کچھ وہاں سے سن کر آتے ہیں وہ تو حق ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ کئی جھوٹ گھڑتے ہیں اور اپنی طرف سے اضافے کرتے ہیں۔“
-" إذا سرتك حسنتك وساءتك سيئتك، فانت مؤمن".-" إذا سرتك حسنتك وساءتك سيئتك، فأنت مؤمن".
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تجھے تیری نیکی خوش کرے اور برائی ناگوار گزرے تو تو مومن ہے۔“ اس نے کہا: ”اے اللہ کے رسول! گناہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی چیز تیرے دل میں کھٹکنے لگے تو اسے (گناہ سمجھ کر) چھوڑ دے۔“
-" لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن، ولا يشرب الخمر حين يشرب وهو مؤمن، ولا يسرق حين يسرق وهو مؤمن، ولا ينتهب نهبة يرفع الناس إليه ابصارهم وهو مؤمن".-" لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن، ولا يشرب الخمر حين يشرب وهو مؤمن، ولا يسرق حين يسرق وهو مؤمن، ولا ينتهب نهبة يرفع الناس إليه أبصارهم وهو مؤمن".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب زانی زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا، جب شرابی شراب پیتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا، جب چور چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا، اور جب (ڈاکو) زبردستی لوٹ مار کرتا ہے اور لوگ اس کو دیکھ رہے ہوتے ہیں تو وہ مومن نہیں ہوتا۔“
-" إذا زنى العبد خرج منه الإيمان وكان كالظلة، فإذا انقلع منها رجع إليه الإيمان".-" إذا زنى العبد خرج منه الإيمان وكان كالظلة، فإذا انقلع منها رجع إليه الإيمان".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بندہ زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان (کا نور) نکل جاتا اور اس کے اوپر سائبان کی طرح (منتظر) رہتا ہے، جب وہ باز آ جاتا ہے تو ایمان اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔“