وقال قيس بن مسلم عن ابي جعفر قال ما بالمدينة اهل بيت هجرة إلا يزرعون على الثلث والربع. وزارع علي وسعد بن مالك وعبد الله بن مسعود وعمر بن عبد العزيز والقاسم وعروة وآل ابي بكر وآل عمر وآل علي وابن سيرين. وقال عبد الرحمن بن الاسود كنت اشارك عبد الرحمن بن يزيد في الزرع. وعامل عمر الناس على إن جاء عمر بالبذر من عنده فله الشطر، وإن جاءوا بالبذر فلهم كذا. وقال الحسن لا باس ان تكون الارض لاحدهما فينفقان جميعا فما خرج فهو بينهما، وراى ذلك الزهري. وقال الحسن لا باس ان يجتنى القطن على النصف. وقال إبراهيم وابن سيرين وعطاء والحكم والزهري وقتادة لا باس ان يعطي الثوب بالثلث او الربع ونحوه. وقال معمر لا باس ان تكون الماشية على الثلث والربع إلى اجل مسمى.وَقَالَ قَيْسُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ قَالَ مَا بِالْمَدِينَةِ أَهْلُ بَيْتِ هِجْرَةٍ إِلاَّ يَزْرَعُونَ عَلَى الثُّلُثِ وَالرُّبُعِ. وَزَارَعَ عَلِيٌّ وَسَعْدُ بْنُ مَالِكٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَالْقَاسِمُ وَعُرْوَةُ وَآلُ أَبِي بَكْرٍ وَآلُ عُمَرَ وَآلُ عَلِيٍّ وَابْنُ سِيرِينَ. وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الأَسْوَدِ كُنْتُ أُشَارِكُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ فِي الزَّرْعِ. وَعَامَلَ عُمَرُ النَّاسَ عَلَى إِنْ جَاءَ عُمَرُ بِالْبَذْرِ مِنْ عِنْدِهِ فَلَهُ الشَّطْرُ، وَإِنْ جَاءُوا بِالْبَذْرِ فَلَهُمْ كَذَا. وَقَالَ الْحَسَنُ لاَ بَأْسَ أَنْ تَكُونَ الأَرْضُ لأَحَدِهِمَا فَيُنْفِقَانِ جَمِيعًا فَمَا خَرَجَ فَهْوَ بَيْنَهُمَا، وَرَأَى ذَلِكَ الزُّهْرِيُّ. وَقَالَ الْحَسَنُ لاَ بَأْسَ أَنْ يُجْتَنَى الْقُطْنُ عَلَى النِّصْفِ. وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ وَابْنُ سِيرِينَ وَعَطَاءٌ وَالْحَكَمُ وَالزُّهْرِيُّ وَقَتَادَةُ لاَ بَأْسَ أَنْ يُعْطِيَ الثَّوْبَ بِالثُّلُثِ أَوِ الرُّبُعِ وَنَحْوِهِ. وَقَالَ مَعْمَرٌ لاَ بَأْسَ أَنْ تَكُونَ الْمَاشِيَةُ عَلَى الثُّلُثِ وَالرُّبُعِ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى.
(یہ بلا تردد جائز ہے) اور قیس بن مسلم نے بیان کیا اور ان سے ابوجعفر نے بیان کیا کہ مدینہ میں مہاجرین کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جو تہائی یا چوتھائی حصہ پر کاشتکاری نہ کرتا ہو۔ علی رضی اللہ عنہ اور سعد بن مالک اور عبداللہ بن مسعود، اور عمر بن عبدالعزیز اور قاسم اور عروہ اور ابوبکر کی اولاد اور عمر کی اولاد اور علی رضی اللہ عنہ کی اولاد اور ابن سیرین سب بٹائی پر کاشت کیا کرتے تھے۔ اور عبدالرحمٰن بن اسود نے کہا کہ میں عبدالرحمٰن بن یزید کے ساتھ کھیتی میں ساجھی رہا کرتا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے کاشت کا معاملہ اس شرط پر طے کیا تھا کہ اگر بیج وہ خود (عمر رضی اللہ عنہ) مہیا کریں تو پیداوار کا آدھا حصہ لیں اور اگر تخم ان لوگوں کا ہو جو کام کریں گے تو پیداوار کے اتنے حصے کے وہ مالک ہوں۔ حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ زمین کسی ایک شخص کی ہو اور اس پر خرچ دونوں (مالک اور کاشتکار) مل کر کریں۔ پھر جو پیداوار ہو اسے دونوں بانٹ لیں۔ زہری رحمہ اللہ نے بھی یہی فتوی دیا تھا۔ اور حسن نے کہا کہ کپاس اگر آدھی (لینے کی شرط) پر چنی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ ابراہیم، ابن سیرین، عطاء، حکم، زہری اور قتادہ رحمہم اللہ نے کہا کہ (کپڑا بننے والوں کو) دھاگا اگر تہائی، چوتھائی یا اسی طرح کی شرکت پر دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ معمر نے کہا کہ اگر جانور ایک معین مدت کے لیے اس کی تہائی یا چوتھائی کمائی پر دیا جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
حدثنا إبراهيم بن المنذر، حدثنا انس بن عياض، عن عبيد الله، عن نافع، ان عبد الله بن عمر رضي الله عنهما اخبره، ان النبي صلى الله عليه وسلم" عامل خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر او زرع، فكان يعطي ازواجه مائة وسق، ثمانون وسق تمر، وعشرون وسق شعير"، فقسم عمر خيبر، فخير ازواج النبي صلى الله عليه وسلم ان يقطع لهن من الماء والارض او يمضي لهن، فمنهن من اختار الارض، ومنهن من اختار الوسق، وكانت عائشة اختارت الارض.حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" عَامَلَ خَيْبَرَ بِشَطْرِ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا مِنْ ثَمَرٍ أَوْ زَرْعٍ، فَكَانَ يُعْطِي أَزْوَاجَهُ مِائَةَ وَسْقٍ، ثَمَانُونَ وَسْقَ تَمْرٍ، وَعِشْرُونَ وَسْقَ شَعِيرٍ"، فَقَسَمَ عُمَرُ خَيْبَرَ، فَخَيَّرَ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُقْطِعَ لَهُنَّ مِنَ الْمَاءِ وَالْأَرْضِ أَوْ يُمْضِيَ لَهُنَّ، فَمِنْهُنَّ مَنِ اخْتَارَ الْأَرْضَ، وَمِنْهُنَّ مَنِ اخْتَارَ الْوَسْقَ، وَكَانَتْ عَائِشَةُ اخْتَارَتِ الْأَرْضَ.
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ عمری نے، ان سے نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (خیبر کے یہودیوں سے) وہاں (کی زمین میں) پھل کھیتی اور جو بھی پیداوار ہو اس کے آدھے حصے پر معاملہ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنی بیویوں کو سو وسق دیتے تھے۔ جس میں اسی وسق کھجور ہوتی اور بیس وسق جو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے (اپنے عہد خلافت میں) جب خیبر کی زمین تقسیم کی تو ازواج مطہرات کو آپ نے اس کا اختیار دیا کہ (اگر وہ چاہیں تو) انہیں بھی وہاں کا پانی اور قطعہ زمین دے دیا جائے۔ یا وہی پہلی صورت باقی رکھی جائے۔ چنانچہ بعض نے زمین لینا پسند کیا۔ اور بعض نے (پیداوار سے) وسق لینا پسند کیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے زمین ہی لینا پسند کیا تھا۔
Narrated `Abdullah bin `Umar: The Prophet concluded a contract with the people of Khaibar to utilize the land on the condition that half the products of fruits or vegetation would be their share. The Prophet used to give his wives one hundred Wasqs each, eighty Wasqs of dates and twenty Wasqs of barley. (When `Umar became the Caliph) he gave the wives of the Prophet the option of either having the land and water as their shares, or carrying on the previous practice. Some of them chose the land and some chose the Wasqs, and `Aisha chose the land.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 39, Number 521
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى بن سعيد، عن عبيد الله، قال: حدثني نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال:" عامل النبي صلى الله عليه وسلم خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر او زرع".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" عَامَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ بِشَطْرِ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا مِنْ ثَمَرٍ أَوْ زَرْعٍ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے پھل اور اناج کی آدھی پیداوار پر وہاں کے رہنے والوں سے معاملہ کیا تھا۔
Narrated Ibn `Umar: The Prophet made a deal with the people of Khaibar that they would have half the fruits and vegetation of the land they cultivated.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 39, Number 522
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال عمرو:" قلت لطاوس: لو تركت المخابرة فإنهم يزعمون ان النبي صلى الله عليه وسلم نهى عنه، قال: اي عمرو، إني اعطيهم واغنيهم وإن اعلمهم. اخبرني يعني ابن عباس رضي الله عنهما، ان النبي صلى الله عليه وسلم لم ينه عنه، ولكن قال:" ان يمنح احدكم اخاه خير له من ان ياخذ عليه خرجا معلوما".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ عَمْرٌو:" قُلْتُ لِطَاوُسٍ: لَوْ تَرَكْتَ الْمُخَابَرَةَ فَإِنَّهُمْ يَزْعُمُونَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهُ، قَالَ: أَيْ عَمْرُو، إِنِّي أُعْطِيهِمْ وَأُغْنِيهِمْ وَإِنَّ أَعْلَمَهُمْ. أَخْبَرَنِي يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَنْهَ عَنْهُ، وَلَكِنْ قَالَ:" أَنْ يَمْنَحَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَأْخُذَ عَلَيْهِ خَرْجًا مَعْلُومًا".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہ عمرو بن دینار نے کہا کہ میں نے طاؤس سے عرض کیا، کاش! آپ بٹائی کا معاملہ چھوڑ دیتے، کیونکہ ان لوگوں (رافع بن خدیج اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم وغیرہ) کا کہنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ اس پر طاؤس نے کہا کہ میں تو لوگوں کو زمین دیتا ہوں اور ان کا فائدہ کرتا ہوں۔ اور صحابہ میں جو بڑے عالم تھے انہوں نے مجھے خبر دی ہے۔ آپ کی مراد ابن عباس رضی اللہ عنہما سے تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نہیں روکا۔ بلکہ آپ نے صرف یہ فرمایا تھا کہ اگر کوئی شخص اپنے بھائی کو (اپنی زمین) مفت دیدے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ اس کا محصول لے۔
Narrated `Amr: I said to Tawus, "I wish you would give up Mukhabara (Sharecropping), for the people say that the Prophet forbade it." On that Tawus replied, "O `Amr! I give the land to sharecroppers and help them. No doubt; the most learned man, namely Ibn `Abbas told me that the Prophet had not forbidden it but said, 'It is more beneficial for one to give his land free to one's brother than to charge him a fixed rental."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 39, Number 523
(مرفوع) حدثنا محمد بن مقاتل، اخبرنا عبد الله، اخبرنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اعطى خيبر اليهود على ان يعملوها ويزرعوها، ولهم شطر ما خرج منها".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَى خَيْبَرَ الْيَهُودَ عَلَى أَنْ يَعْمَلُوهَا وَيَزْرَعُوهَا، وَلَهُمْ شَطْرُ مَا خَرَجَ مِنْهَا".
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں عبیداللہ نے خبر دی، انہیں نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین یہودیوں کو اس شرط پر سونپی تھی کہ اس میں محنت کریں اور جوتیں بوئیں اور اس کی پیداوار کا آدھا حصہ لیں۔
Narrated Ibn `Umar: Allah's Apostle gave the land of Khaibar to the Jew's on the condition that they work on it and cultivate it, and be given half of its yield.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 39, Number 524
(مرفوع) حدثنا صدقة بن الفضل، اخبرنا ابن عيينة، عن يحيى، سمع حنظلة الزرقي، عن رافع رضي الله عنه، قال:" كنا اكثر اهل المدينة حقلا، وكان احدنا يكري ارضه، فيقول: هذه القطعة لي وهذه لك، فربما اخرجت ذه ولم تخرج ذه، فنهاهم النبي صلى الله عليه وسلم".(مرفوع) حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ يَحْيَى، سَمِعَ حَنْظَلَةَ الزُّرَقِيَّ، عَنْ رَافِعٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنَّا أَكْثَرَ أَهْلِ الْمَدِينَةِ حَقْلًا، وَكَانَ أَحَدُنَا يُكْرِي أَرْضَهُ، فَيَقُولُ: هَذِهِ الْقِطْعَةُ لِي وَهَذِهِ لَكَ، فَرُبَّمَا أَخْرَجَتْ ذِهِ وَلَمْ تُخْرِجْ ذِهِ، فَنَهَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید انصاری نے، انہوں نے حنظلہ زرقی سے سنا کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہمارے پاس مدینہ کے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زمین زیادہ تھی۔ ہمارے یہاں طریقہ یہ تھا کہ جب زمین بصورت جنس کرایہ پر دیتے تو یہ شرط لگا دیتے کہ اس حصہ کی پیداوار تو میری رہے گی اور اس حصہ کی تمہاری رہے گی۔ پھر کبھی ایسا ہوتا کہ ایک حصہ کی پیداوار خوب ہوتی اور دوسرے کی نہ ہوتی۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس طرح معاملہ کرنے سے منع فرما دیا۔
Narrated Rafi`: We worked on farms more than anybody else in Medina. We used to rent the land and say to the owner, "The yield of this portion is for us and the yield of that portion is for you (as the rent)." One of those portions might yield something and the other might not. So, the Prophet forbade us to do so.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 39, Number 525
13. باب: جب کسی کے مال سے ان کی اجازت کے بغیر ہی کاشت کی اور اس میں ان کا ہی فائدہ رہا ہو۔
(13) Chapter. If a person invests the money of someone else in cultivation without taking his permission and the enterprise effects profit, (to whom will the profit belong?)
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن المنذر، حدثنا ابو ضمرة، حدثنا موسى بن عقبة، عن نافع، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" بينما ثلاثة نفر يمشون، اخذهم المطر، فاووا إلى غار في جبل، فانحطت على فم غارهم صخرة من الجبل، فانطبقت عليهم، فقال بعضهم لبعض: انظروا اعمالا عملتموها صالحة لله، فادعوا الله بها لعله يفرجها عنكم، قال احدهم: اللهم إنه كان لي والدان شيخان كبيران ولي صبية صغار كنت ارعى عليهم، فإذا رحت عليهم حلبت، فبدات بوالدي اسقيهما قبل بني، وإني استاخرت ذات يوم فلم آت حتى امسيت، فوجدتهما ناما، فحلبت كما كنت احلب، فقمت عند رءوسهما اكره ان اوقظهما، واكره ان اسقي الصبية، والصبية يتضاغون عند قدمي حتى طلع الفجر، فإن كنت تعلم اني فعلته ابتغاء وجهك فافرج لنا فرجة نرى منها السماء، ففرج الله، فراوا السماء. وقال الآخر: اللهم إنها كانت لي بنت عم احببتها كاشد ما يحب الرجال النساء، فطلبت منها فابت علي حتى اتيتها بمائة دينار، فبغيت حتى جمعتها، فلما وقعت بين رجليها، قالت: يا عبد الله، اتق الله ولا تفتح الخاتم إلا بحقه، فقمت، فإن كنت تعلم اني فعلته ابتغاء وجهك فافرج عنا فرجة، ففرج. وقال الثالث: اللهم إني استاجرت اجيرا بفرق ارز، فلما قضى عمله، قال: اعطني حقي، فعرضت عليه، فرغب عنه، فلم ازل ازرعه حتى جمعت منه بقرا وراعيها، فجاءني، فقال: اتق الله، فقلت: اذهب إلى ذلك البقر ورعاتها فخذ، فقال: اتق الله ولا تستهزئ بي، فقلت: إني لا استهزئ بك فخذ، فاخذه، فإن كنت تعلم اني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج ما بقي، ففرج الله". قال ابو عبد الله: وقال إسماعيل بن إبراهيم بن عقبة: عن نافع، فسعيت.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" بَيْنَمَا ثَلَاثَةُ نَفَرٍ يَمْشُونَ، أَخَذَهُمُ الْمَطَرُ، فَأَوَوْا إِلَى غَارٍ فِي جَبَلٍ، فَانْحَطَّتْ عَلَى فَمِ غَارِهِمْ صَخْرَةٌ مِنَ الْجَبَلِ، فَانْطَبَقَتْ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: انْظُرُوا أَعْمَالًا عَمِلْتُمُوهَا صَالِحَةً لِلَّهِ، فَادْعُوا اللَّهَ بِهَا لَعَلَّهُ يُفَرِّجُهَا عَنْكُمْ، قَالَ أَحَدُهُمْ: اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَ لِي وَالِدَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ وَلِي صِبْيَةٌ صِغَارٌ كُنْتُ أَرْعَى عَلَيْهِمْ، فَإِذَا رُحْتُ عَلَيْهِمْ حَلَبْتُ، فَبَدَأْتُ بِوَالِدَيَّ أَسْقِيهِمَا قَبْلَ بَنِيَّ، وَإِنِّي اسْتَأْخَرْتُ ذَاتَ يَوْمٍ فَلَمْ آتِ حَتَّى أَمْسَيْتُ، فَوَجَدْتُهُمَا نَامَا، فَحَلَبْتُ كَمَا كُنْتُ أَحْلُبُ، فَقُمْتُ عِنْدَ رُءُوسِهِمَا أَكْرَهُ أَنْ أُوقِظَهُمَا، وَأَكْرَهُ أَنْ أَسْقِيَ الصِّبْيَةَ، وَالصِّبْيَةُ يَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ قَدَمَيَّ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُهُ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ لَنَا فَرْجَةً نَرَى مِنْهَا السَّمَاءَ، فَفَرَجَ اللَّهُ، فَرَأَوْا السَّمَاءَ. وَقَالَ الْآخَرُ: اللَّهُمَّ إِنَّهَا كَانَتْ لِي بِنْتُ عَمٍّ أَحْبَبْتُهَا كَأَشَدِّ مَا يُحِبُّ الرِّجَالُ النِّسَاءَ، فَطَلَبْتُ مِنْهَا فَأَبَتْ عَلَيَّ حَتَّى أَتَيْتُهَا بِمِائَةِ دِينَارٍ، فَبَغَيْتُ حَتَّى جَمَعْتُهَا، فَلَمَّا وَقَعْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا، قَالَتْ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَفْتَحْ الْخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ، فَقُمْتُ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُهُ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا فَرْجَةً، فَفَرَجَ. وَقَالَ الثَّالِثُ: اللَّهُمَّ إِنِّي اسْتَأْجَرْتُ أَجِيرًا بِفَرَقِ أَرُزٍّ، فَلَمَّا قَضَى عَمَلَهُ، قَالَ: أَعْطِنِي حَقِّي، فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ، فَرَغِبَ عَنْهُ، فَلَمْ أَزَلْ أَزْرَعُهُ حَتَّى جَمَعْتُ مِنْهُ بَقَرًا وَرَاعِيَهَا، فَجَاءَنِي، فَقَالَ: اتَّقِ اللَّهَ، فَقُلْتُ: اذْهَبْ إِلَى ذَلِكَ الْبَقَرِ وَرُعَاتِهَا فَخُذْ، فَقَالَ: اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَسْتَهْزِئْ بِي، فَقُلْتُ: إِنِّي لَا أَسْتَهْزِئُ بِكَ فَخُذْ، فَأَخَذَهُ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ مَا بَقِيَ، فَفَرَجَ اللَّهُ". قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ: عَنْ نَافِعٍ، فَسَعَيْتُ.
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، ان سے ابوضمرہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تین آدمی کہیں چلے جا رہے تھے کہ بارش نے ان کو آ لیا۔ تینوں نے ایک پہاڑ کی غار میں پناہ لے لی، اچانک اوپر سے ایک چٹان غار کے سامنے آ گری، اور انہیں (غار کے اندر) بالکل بند کر دیا۔ اب ان میں سے بعض لوگوں نے کہا کہ تم لوگ اب اپنے ایسے کاموں کو یاد کرو۔ جنہیں تم نے خالص اللہ تعالیٰ کے لیے کیا ہو اور اسی کام کا واسطہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ ممکن ہے اس طرح اللہ تعالیٰ تمہاری اس مصیبت کو ٹال دے، چنانچہ ایک شخص نے دعا شروع کی۔ اے اللہ! میرے والدین بہت بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔ میں ان کے لیے (جانور) چرایا کرتا تھا۔ پھر جب واپس ہوتا تو دودھ دوہتا۔ سب سے پہلے، اپنی اولاد سے بھی پہلے، میں والدین ہی کو دودھ پلاتا تھا۔ ایک دن دیر ہو گئی اور رات گئے گھر واپس آیا، اس وقت میرے ماں باپ سو چکے تھے۔ میں نے معمول کے مطابق دودھ دوہا اور (اس کا پیالہ لے کر) میں ان کے سرہانے کھڑا ہو گیا۔ میں نے پسند نہیں کیا کہ انہیں جگاؤں۔ لیکن اپنے بچوں کو بھی (والدین سے پہلے) پلانا مجھے پسند نہیں تھا۔ بچے صبح تک میرے قدموں پر پڑے تڑپتے رہے۔ پس اگر تیرے نزدیک بھی میرا یہ عمل صرف تیری رضا کے لیے تھا تو (غار سے اس چٹان کو ہٹا کر) ہمارے لیے اتنا راستہ بنا دے کہ آسمان نظر آ سکے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے راستہ بنا دیا اور انہیں آسمان نظر آنے لگا۔ دوسرے نے کہا اے اللہ! میری ایک چچازاد بہن تھی۔ مرد عورتوں سے جس طرح کی انتہائی محبت کر سکتے ہیں، مجھے اس سے اتنی ہی محبت تھی۔ میں نے اسے اپنے پاس بلانا چاہا لیکن وہ سو دینار دینے کی صورت راضی ہوئی۔ میں نے کوشش کی اور وہ رقم جمع کی۔ پھر جب میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان بیٹھ گیا، تو اس نے مجھ سے کہا، اے اللہ کے بندے! اللہ سے ڈر اور اس کی مہر کو حق کے بغیر نہ توڑ۔ میں یہ سنتے ہی دور ہو گیا، اگر میرا یہ عمل تیرے علم میں بھی تیری رضا ہی کے لیے تھا تو (اس غار سے) پتھر کو ہٹا دے۔ پس غار کا منہ کچھ اور کھلا۔ اب تیسرا بولا کہ اے اللہ! میں نے ایک مزدور تین فرق چاول کی مزدوری پر مقرر کیا تھا جب اس نے اپنا کام پورا کر لیا تو مجھ سے کہا کہ اب میری مزدوری مجھے دیدے۔ میں نے پیش کر دی لیکن اس وقت وہ انکار کر بیٹھا۔ پھر میں برابر اس کی اجرت سے کاشت کرتا رہا اور اس کے نتیجہ میں بڑھنے سے بیل اور چرواہے میرے پاس جمع ہو گئے۔ اب وہ شخص آیا اور کہنے لگا کہ اللہ سے ڈر! میں نے کہا کہ بیل اور اس کے چرواہے کے پاس جا اور اسے لے لے۔ اس نے کہا اللہ سے ڈر! اور مجھ سے مذاق نہ کر، میں نے کہا کہ مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ (یہ سب تیرا ہی ہے) اب تم اسے لے جاؤ۔ پس اس نے ان سب پر قبضہ کر لیا۔ الہٰی! اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیری خوشنودی ہی کے لیے کیا تھا تو تو اس غار کو کھول دے۔ اب وہ غار پورا کھل چکا تھا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ ابن عقبہ نے نافع سے (اپنی روایت میں «فبغيت» کے بجائے) «فسعيت» نقل کیا ہے۔
Narrated `Abdullah bin `Umar: The Prophet said, "While three men were walking, It started raining and they took shelter (refuge) in a cave in a mountain. A big rock rolled down from the mountain and closed the mouth of the cave. They said to each other, "Think of good deeds which you did for Allah's sake only, and invoke Allah by giving reference to those deeds so that He may remove this rock from you." One of them said, 'O Allah! I had old parents and small children and I used to graze the sheep for them. On my return to them in the evening, I used to milk (the sheep) and start providing my parents first of all before my children. One day I was delayed and came late at night and found my parents sleeping. I milked (the sheep) as usual and stood by their heads. I hated to wake them up and disliked to give milk to my children before them, although my children were weeping (because of hunger) at my feet till the day dawned. O Allah! If I did this for Your sake only, kindly remove the rock so that we could see the sky through it.' So, Allah removed the rock a little and they saw the sky. The second man said, 'O Allah! I was in love with a cousin of mine like the deepest love a man may have for a woman. I wanted to outrage her chastity but she refused unless I gave her one hundred Dinars. So, I struggled to collect that amount. And when I sat between her legs, she said, 'O Allah's slave! Be afraid of Allah and do not deflower me except rightfully (by marriage).' So, I got up. O Allah! If I did it for Your sake only, please remove the rock.' The rock shifted a little more. Then the third man said, 'O Allah! I employed a laborer for a Faraq of rice and when he finished his job and demanded his right, I presented it to him, but he refused to take it. So, I sowed the rice many time till I gathered cows and their shepherd (from the yield). (Then after some time) He came and said to me, 'Fear Allah (and give me my right)." I said, 'Go and take those cows and the shepherd.' He said, 'Be afraid of Allah! Don't mock at me.' I said, 'I am not mocking at you. Take (all that).' So, he took all that. O Allah! If I did that for Your sake only, please remove the rest of the rock.' So, Allah removed the rock."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 39, Number 526
14. باب: صحابہ کرام کے اوقاف، خراجی زمین اور اس کی بٹائی کا بیان۔
(14) Chapter. The Auqaf ( i.e., endowments) of the companions of the Prophet ﷺ and the land of Kharaj (Zakat), the contract of share-cropping and other agreements of the companions.
وقال النبي صلى الله عليه وسلم لعمر: تصدق باصله لا يباع، ولكن ينفق ثمره فتصدق به.وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ: تَصَدَّقْ بِأَصْلِهِ لَا يُبَاعُ، وَلَكِنْ يُنْفَقُ ثَمَرُهُ فَتَصَدَّقَ بِهِ.
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا(جب وہ اپنا ایک کھجور کا باغ للہ وقف کر رہے تھے) اصل زمین کو وقف کر دے، اس کو کوئی بیچ نہ سکے، البتہ اس کا پھل خرچ کیا جاتا رہے چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا۔
(مرفوع) حدثنا صدقة، اخبرنا عبد الرحمن، عن مالك، عن زيد بن اسلم، عن ابيه، قال: قال عمر رضي الله عنه:" لولا آخر المسلمين ما فتحت قرية، إلا قسمتها بين اهلها كما قسم النبي صلى الله عليه وسلم خيبر".(مرفوع) حَدَّثَنَا صَدَقَةُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" لَوْلَا آخِرُ الْمُسْلِمِينَ مَا فَتَحْتُ قَرْيَةً، إِلَّا قَسَمْتُهَا بَيْنَ أَهْلِهَا كَمَا قَسَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ".
ہم سے صدقہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبدالرحمٰن بن مہدی نے خبر دی، انہیں امام مالک نے، انہیں زید بن اسلم نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اگر مجھے بعد میں آنے والے مسلمانوں کا خیال نہ ہوتا تو جتنے شہر بھی فتح کرتا، انہیں فتح کرنے والوں میں تقسیم کرتا جاتا، بالکل اسی طرح جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین تقسیم فرما دی تھی۔
Narrated Zaid bin Aslam from his father: `Umar said, "But for the future Muslim generations, I would have distributed the land of the villages I conquer among the soldiers as the Prophet distributed the land of Khaibar."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 39, Number 527
وراى ذلك علي في ارض الخراب بالكوفة موات، وقال عمر: من احيا ارضا ميتة فهي له، ويروى عن عمرو بن عوف، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وقال في غير حق مسلم وليس لعرق ظالم فيه حق، ويروى فيه، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم.وَرَأَى ذَلِكَ عَلِيٌّ فِي أَرْضِ الْخَرَابِ بِالْكُوفَةِ مَوَاتٌ، وَقَالَ عُمَرُ: مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيِّتَةً فَهِيَ لَهُ، وَيُرْوَى عَنْ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ فِي غَيْرِ حَقِّ مُسْلِمٍ وَلَيْسَ لِعِرْقٍ ظَالِمٍ فِيهِ حَقٌّ، وَيُرْوَى فِيهِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
اور علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں ویران علاقوں کو آباد کرنے کے لیے یہی حکم دیا تھا۔ اور عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو کوئی بنجر زمین کو آباد کرے، وہ اسی کی ہو جاتی ہے۔ اور عمر رضی اللہ عنہ اور ابن عوف رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت ہے۔ البتہ ابن عوف رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (اپنی روایت میں) یہ زیادتی کی ہے کہ بشرطیکہ وہ (غیرآباد زمین) کسی مسلمان کی نہ ہو، اور ظالم رگ والے کا زمین میں کوئی حق نہیں ہے۔ اور اس سلسلے میں جابر رضی اللہ عنہ کی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسی ہی روایت ہے۔