84- مالك عن ابن شهاب عن رجل من آل خالد بن اسيد انه سال عبد الله ابن عمر فقال: يا ابا عبد الرحمن، إنا نجد صلاة الخوف وصلاة الحضر فى القرآن ولا نجد صلاة السفر، فقال عبد الله بن عمر: يا ابن اخي، إن الله تعالى بعث إلينا محمدا صلى الله عليه وسلم ولا نعلم شيئا، فإنما نفعل كما رايناه يفعل. كمل حديث الزهري وهو خمسة وثمانون حديثا.84- مالك عن ابن شهاب عن رجل من آل خالد بن أسيد أنه سأل عبد الله ابن عمر فقال: يا أبا عبد الرحمن، إنا نجد صلاة الخوف وصلاة الحضر فى القرآن ولا نجد صلاة السفر، فقال عبد الله بن عمر: يا ابن أخي، إن الله تعالى بعث إلينا محمدا صلى الله عليه وسلم ولا نعلم شيئا، فإنما نفعل كما رأيناه يفعل. كمل حديث الزهري وهو خمسة وثمانون حديثا.
آل خالد بن اسید کے ایک آدمی (امیہ بن عبداللہ بن خالد) سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: اے ابوعبدالرحمٰن! ہم قرآن میں نماز خوف اور نماز حضر کا ذکر پاتے ہیں اور نماز سفر کا ذکر نہیں پاتے؟ تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اے بھتیجے! اللہ نے ہمارے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا اور ہم کچھ بھی نہیں جانتے تھے، لہٰذا ہم تو اسی طرح عمل کرتے ہیں جیسے ہم نے آپ کو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ زہری کی حدیثیں مکمل ہو گئیں، یہ پچاسی (85) حدیثیں ہیں۔
تخریج الحدیث: «84- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 145/1، 146ح 332، ك 9 ب 2 ح 7) التمهيد 161/11، الاستذكار: 303 و أخرجه الحاكم الكبير فى عوالي مالك (209) من حديث مالك به ورواه محمد بن عبدالله الشعيثي عن اميه بن عبدالله بن خالد بن اسيدانه قال لا بن عمر به، أخرجه النسائي (226/1 ح 458) وسنده حسن، وصرح الزهري بالسماع من عبدالملك بن ابي بكر بن عبدالرحمٰن عند البيهقي (136/3) ويعقوب بن سفيان الفارسي في المعرفة والتاريخ (372/1) وللحديث طريق آخر عند ابي داود (457) والنسائي (1435) وابن ماجه (1066) وسنده حسن وصححه ابن خزيمة (946) وابن حبان (الموارد: 101) والحاكم (258/1) ووافقه الذهبي.»
338- وبه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”كل مولود يولد على الفطرة، فابواه يهودانه وينصرانه كما تناتج الإبل من بهمية جمعاء، هل تحس من جدعاء؟“ فقالوا: يا رسول الله، افرايت من يموت وهو صغير؟، قال: ”الله اعلم بما كانوا عاملين“.338- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”كل مولود يولد على الفطرة، فأبواه يهودانه وينصرانه كما تناتج الإبل من بهمية جمعاء، هل تحس من جدعاء؟“ فقالوا: يا رسول الله، أفرأيت من يموت وهو صغير؟، قال: ”الله أعلم بما كانوا عاملين“.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی (وغیرہ) بنا دیتے ہیں جیسا کہ اونٹوں سے صحیح سالم بچے پیدا ہوتے ہیں، کیا تم ان میں سے کوئی کان کٹا یا ناک کٹا دیکھتے ہو؟“ تو لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر کوئی بچہ بچپن میں ہی مر جائے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ جانتا ہے کہ وہ (بچے) کیا عمل کرنے والے تھے۔“
تخریج الحدیث: «338- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 241/1 ح 572، ك 16 ب 16 ح 52) التمهيد 57/18، الاستذكار: 526 و أخرجه أبوداود (4714) من حديث مالك به ورواه مسلم (2659) من حديث ابي الزناد به مختصراً.»
365- وبه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”من شر الناس ذو الوجهين الذى ياتي هؤلاء بوجه وياتي هؤلاء بوجه.“365- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”من شر الناس ذو الوجهين الذى يأتي هؤلاء بوجه ويأتي هؤلاء بوجه.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں میں سب سے زیادہ شریر وہ شخص ہے جس کے دو چہرے ہوں، ایک گروہ کے سامنے وہ ایک چہرہ لے کر آئے اور دوسرے گروہ کے سامنے دوسرا چہرہ لے کر آئے۔“
تخریج الحدیث: «365- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 991/2 ح 1930، ك 56 ب 8 ح 21) التمهيد 261/18، الاستذكار: 1866 وأخرجه مسلم (2526 بعد ح 2604) من حديث مالك به.»
374- وبه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”نار بني آدم التى توقدون جزء من سبعين جزءا من نار جهنم“، فقالوا: يا رسول الله، إن كانت لكافية، قال: ”فإنها فضلت عليها بتسعة وستين جزءا“.374- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”نار بني آدم التى توقدون جزء من سبعين جزءا من نار جهنم“، فقالوا: يا رسول الله، إن كانت لكافية، قال: ”فإنها فضلت عليها بتسعة وستين جزءا“.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی آدم کی آگ جو تم جلاتے ہو جہنم کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔“ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہی آگ کافی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہنم کی آگ اس پر انہتر (۶۹) درجے زیادہ ہے۔“
تخریج الحدیث: «374- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 994/2، ح 1937، ك 57 ب 1 ح 1) التمهيد 162/18، الاستذكار: 1874 و أخرجه البخاري (3265) من حديث مالك به، و مسلم (2843) من حديث ابي الزناد به.»
376- مالك عن عبد الله بن يزيد مولى الاسود بن سفيان عن ابى سلمة بن عبد الرحمن وعن محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان عن ابى هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا كان الحر فابردوا عن الصلاة فإن شدة الحر من فيح جهنم“ وذكر ”ان النار اشتكت إلى ربها فاذن لها فى كل عام بنفسين، نفس فى الشتاء ونفس فى الصيف“.376- مالك عن عبد الله بن يزيد مولى الأسود بن سفيان عن أبى سلمة بن عبد الرحمن وعن محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا كان الحر فأبردوا عن الصلاة فإن شدة الحر من فيح جهنم“ وذكر ”أن النار اشتكت إلى ربها فأذن لها فى كل عام بنفسين، نفس فى الشتاء ونفس فى الصيف“.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب گرمی (زیادہ) ہو تو نماز ٹھنڈی کر کے پڑھو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کے سانس لینے میں سے ہے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ (جہنم کی) آگ نے اپنے رب سے شکایت کی تو اسے ہر سال میں دو سانسوں کی اجازت دی، ایک سردیوں میں اور دوسرا گرمیوں میں۔
تخریج الحدیث: «376- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 16/1، ح 27، ك 1 ب 7 ح 28) التمهيد 112/19، الاستذكار: دیکھئے 97/1 ح 25، و أخرجه مسلم (617/186) من حديث مالك به.»
253- وبه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”اراني الليلة عند الكعبة، فرايت رجلا آدم كاحسن ما انت راء من ادم الرجال، له لمة كاحسن ما انت راء من اللمم، قد رجلها فهي تقطر ماء، متكئا على رجلين، او على عواتق رجلين يطوف بالبيت، فسالت: من هذا؟، فقيل لي: المسيح ابن مريم، ثم إذا انا برجل جعد قطط اعور العين اليمنى، كانها عنبة طافية، فسالت: من هذا؟، فقيل: هذا المسيح الدجال“.253- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”أراني الليلة عند الكعبة، فرأيت رجلا آدم كأحسن ما أنت راء من أدم الرجال، له لمة كأحسن ما أنت راء من اللمم، قد رجلها فهي تقطر ماء، متكئا على رجلين، أو على عواتق رجلين يطوف بالبيت، فسألت: من هذا؟، فقيل لي: المسيح ابن مريم، ثم إذا أنا برجل جعد قطط أعور العين اليمنى، كأنها عنبة طافية، فسألت: من هذا؟، فقيل: هذا المسيح الدجال“.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج رات (اللہ نے) مجھے خواب دکھایا کہ میں کعبہ کے پاس ہوں، پھر میں نے ایک گندمی رنگ کا آدمی دیکھا، تم نے جو گندمی لوگ دیکھے ہیں وہ ان میں سب سے خوبصورت تھا، تم نے کندھوں تک سر کے جو لمبے بال دیکھے ہیں ان میں سب سے زیادہ خوبصورت اس کے بال تھے جنہیں اس نے کنگھی کیا تھا، پانی کے قطرے اس کے بالوں سے گر رہے تھے، اس شخص نے دو آدمیوں یا ان کے کندھوں پر سہارا لیا ہوا تھا اور بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ بتایا گیا کہ یہ مسیح ابن مریم ہیں، پھر میں نے ایک آدمی دیکھا جو دائیں آنکھ سے کانا تھا اور اس کے بال بہت زیادہ گھنگریالے تھے، اس کی (کانی) آنکھ اس طرح تھی جیسے پھولے ہوئے انگور کا دانہ ہے میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ کہا گیا: یہ مسیح دجال ہے۔“
تخریج الحدیث: «253- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 920/2 ح 1773، ك 49 ب 2 ح 2) التمهيد 187/14، الاستذكار:1705 أخرجه البخاري (5902) و مسلم (169/273) من حديث مالك به.»
253- وبه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”اراني الليلة عند الكعبة، فرايت رجلا آدم كاحسن ما انت راء من ادم الرجال، له لمة كاحسن ما انت راء من اللمم، قد رجلها فهي تقطر ماء، متكئا على رجلين، او على عواتق رجلين يطوف بالبيت، فسالت: من هذا؟، فقيل لي: المسيح ابن مريم، ثم إذا انا برجل جعد قطط اعور العين اليمنى، كانها عنبة طافية، فسالت: من هذا؟، فقيل: هذا المسيح الدجال“.253- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”أراني الليلة عند الكعبة، فرأيت رجلا آدم كأحسن ما أنت راء من أدم الرجال، له لمة كأحسن ما أنت راء من اللمم، قد رجلها فهي تقطر ماء، متكئا على رجلين، أو على عواتق رجلين يطوف بالبيت، فسألت: من هذا؟، فقيل لي: المسيح ابن مريم، ثم إذا أنا برجل جعد قطط أعور العين اليمنى، كأنها عنبة طافية، فسألت: من هذا؟، فقيل: هذا المسيح الدجال“.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج رات (اللہ نے) مجھے خواب دکھایا کہ میں کعبہ کے پاس ہوں، پھر میں نے ایک گندمی رنگ کا آدمی دیکھا، تم نے جو گندمی لوگ دیکھے ہیں وہ ان میں سب سے خوبصورت تھا، تم نے کندھوں تک سر کے جو لمبے بال دیکھے ہیں ان میں سب سے زیادہ خوبصورت اس کے بال تھے جنہیں اس نے کنگھی کیا تھا، پانی کے قطرے اس کے بالوں سے گر رہے تھے، اس شخص نے دو آدمیوں یا ان کے کندھوں پر سہارا لیا ہوا تھا اور بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ بتایا گیا کہ یہ مسیح ابن مریم ہیں، پھر میں نے ایک آدمی دیکھا جو دائیں آنکھ سے کانا تھا اور اس کے بال بہت زیادہ گھنگریالے تھے، اس کی (کانی) آنکھ اس طرح تھی جیسے پھولے ہوئے انگور کا دانہ ہے میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ کہا گیا: یہ مسیح دجال ہے۔“
تخریج الحدیث: «253- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 920/2 ح 1773، ك 49 ب 2 ح 2) التمهيد 187/14، الاستذكار:1705 أخرجه البخاري (5902) و مسلم (169/273) من حديث مالك به.»