● صحيح البخاري | 6599 | عبد الرحمن بن صخر | ما من مولود إلا يولد على الفطرة فأبواه يهودانه وينصرانه كما تنتجون البهيمة هل تجدون فيها من جدعاء حتى تكونوا أنتم تجدعونها قالوا يا رسول الله أفرأيت من يموت وهو صغير قال الله أعلم بما كانوا عاملين |
● صحيح البخاري | 4775 | عبد الرحمن بن صخر | ما من مولود إلا يولد على الفطرة فأبواه يهودانه أو ينصرانه أو يمجسانه كما تنتج البهيمة بهيمة جمعاء هل تحسون فيها من جدعاء ثم يقول فطرة الله التي فطر الناس عليها لا تبديل لخلق الله |
● صحيح البخاري | 1358 | عبد الرحمن بن صخر | ما من مولود إلا يولد على الفطرة فأبواه يهودانه أو ينصرانه أو يمجسانه كما تنتج البهيمة بهيمة جمعاء هل تحسون فيها من جدعاء |
● صحيح البخاري | 1359 | عبد الرحمن بن صخر | ما من مولود إلا يولد على الفطرة فأبواه يهودانه وينصرانه أو يمجسانه كما تنتج البهيمة بهيمة جمعاء هل تحسون فيها من جدعاء |
● صحيح البخاري | 1385 | عبد الرحمن بن صخر | كل مولود يولد على الفطرة فأبواه يهودانه أو ينصرانه أو يمجسانه كمثل البهيمة تنتج البهيمة هل ترى فيها جدعاء |
● صحيح مسلم | 6760 | عبد الرحمن بن صخر | من يولد يولد على هذه الفطرة فأبواه يهودانه وينصرانه كما تنتجون الإبل فهل تجدون فيها جدعاء حتى تكونوا أنتم تجدعونها قالوا يا رسول الله أفرأيت من يموت صغيرا قال الله أعلم بما كانوا عاملين |
● صحيح مسلم | 6761 | عبد الرحمن بن صخر | كل إنسان تلده أمه على الفطرة وأبواه بعد يهودانه وينصرانه ويمجسانه فإن كانا مسلمين فمسلم كل إنسان تلده أمه يلكزه الشيطان في حضنيه إلا مريم وابنها |
● صحيح مسلم | 6757 | عبد الرحمن بن صخر | ما من مولود إلا يولد على الفطرة فأبواه يهودانه وينصرانه ويمجسانه كما تنتج البهيمة بهيمة جمعاء هل تحسون فيها من جدعاء ثم يقول أبو هريرة واقرءوا إن شئتم فطرة الله التي فطر الناس عليها لا تبديل لخلق الله |
● صحيح مسلم | 6759 | عبد الرحمن بن صخر | ما من مولود إلا يولد على الفطرة فأبواه يهودانه وينصرانه ويشركانه فقال رجل يا رسول الله أرأيت لو مات قبل ذلك قال الله أعلم بما كانوا عاملين |
● صحيح مسلم | 6758 | عبد الرحمن بن صخر | ما من مولود إلا يولد على الفطرة ثم يقول اقرءوا فطرة الله التي فطر الناس عليها لا تبديل لخلق الله ذلك الدين القيم |
● جامع الترمذي | 2138 | عبد الرحمن بن صخر | كل مولود يولد على الملة فأبواه يهودانه أو ينصرانه أو يشركانه قيل يا رسول الله فمن هلك قبل ذلك قال الله أعلم بما كانوا عاملين به |
● سنن أبي داود | 4714 | عبد الرحمن بن صخر | كل مولود يولد على الفطرة فأبواه يهودانه وينصرانه كما تناتج الإبل من بهيمة جمعاء هل تحس من جدعاء قالوا يا رسول الله أفرأيت من يموت وهو صغير قال الله أعلم بما كانوا عاملين |
● صحيفة همام بن منبه | 67 | عبد الرحمن بن صخر | من يولد يولد على هذه الفطرة فأبواه يهودانه وينصرانه كما تنتجون البهيمة هل تجدون فيها من جدعاء حتى تكونوا أنتم تجدعونها قالوا يا رسول الله أفرأيت من يموت وهو صغير قال الله أعلم بما كانوا عاملين |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 22 | عبد الرحمن بن صخر | كل مولود يولد على الفطرة، فابواه يهودانه وينصرانه كما تناتج الإبل من بهمية جمعاء |
● مشكوة المصابيح | 90 | عبد الرحمن بن صخر | ما من مولود إلا يولد على الفطرة فابواه يهودانه او ينصرانه او يمجسانه كما تنتج البهيمة بهيمة جمعاء هل تحسون فيها من جدعاء |
● صحيح مسلم | 6755 | عبد الرحمن بن صخر | ما من مولود إلا يولد على الفطرة، فابواه يهودانه، وينصرانه، ويمجسانه |
● مسندالحميدي | 1143 | عبد الرحمن بن صخر | الله أعلم بما كانوا عاملين |
● مسندالحميدي | 1145 | عبد الرحمن بن صخر | |
● مسندالحميدي | 1146 | عبد الرحمن بن صخر | الله أعلم بما كانوا عاملين |
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 22
تخریج الحدیث:
[وأخرجه ابوداود 4714، من حديث ما لك به ورواه مسلم فواد 2659، من حديث ابي الزناد به مختصراً]
تفقه:
➊ دنیا کے عام انسان دین فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے دلوں میں شرک و کفر کا شائبہ تک نہیں ہوتا لیکن ان کے والدین، رشتہ دار، دوست اور دوسرے لوگ انھیں کافر ومشرک بنا دیتے ہیں۔ اس کی تائید اس حدیث قدسی سے بھی ہوتی ہے جس میں آیا ہے کہ الله تعالی نے فرمایا: میں نے اپنے تمام بندوں کو مؤحد (مسلم) پیدا کیا ہے اور شیطانوں نے آ کر انھیں دین سے بھٹکا دیا ہے۔ [صحيح مسلم: 2865]
➋ اسلام دین فطرت ہے۔
➌ دوسرے دلائل سے ثابت ہے کہ کافروں کے مرنے والے نابالغ بچوں کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ دیکھئے میری کتاب: [اضواء المصابيح فى تحقيق مشكٰوة المصابيح ح 93]
➍ بعض لوگ صحیح احادیث اور صفات باری تعالیٰ کا انکار کرتے ہیں۔ یہ معتزلہ، خوارج، معطلہ، جہمیہ، روافض اور منکرین حدیث وغیرہ کہلاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے نظریات قرآن و حدیث اور سلف صائین سے نہیں لئے بلکہ اہل باطل أخلاف سے لئے ہیں یا خود گھڑ لئے ہیں۔
➎ تقدیر برحق ہے۔
➏ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایسے جانور پیدا ہوتے رہتے ہیں جن میں سے بعض کے اعضاء کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عام طور پر جانور صحیح و سالم پیدا ہوتے ہیں لیکن انسان اُن کے کان کاٹ کر کن کٹا بنا دیتے ہیں۔ اسی طرح عام طور پر انسان دین اسلام پر پیدا ہوتے ہیں لیکن ان کے والدین انھیں کافر و مشرک بنادیتے ہیں۔ ”یعنی ایسا کبھی نہیں ہوتا“ کے الفاظ حدیث میں نہیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات حقیقت پرمبنی ہے اور یہی حق ہے اگرچہ منکرین حدیث اس کا کتنا ہی انکار کرتے پھریں۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 338
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 90
´بچے فطرت پر پیدا ہوتے ہیں`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ كَانَ يحدث قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ ثُمَّ يَقُول أَبُو هُرَيْرَة رَضِي الله عَنهُ (فطْرَة الله الَّتِي فطر النَّاس عَلَيْهَا) الْآيَة» . . .»
”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بچہ فطرت یعنی دین اسلام ہی پر پیدا ہوتا ہے۔ (پیدائش کے وقت وہ کافر، مشرک، یہودی، عیسائی، مجوسی نہیں ہوتا) مگر بعد میں اس کے ماں باپ یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں“، (یعنی اپنے رنگ میں اس بچے کو بھی رنگ دیتے ہیں) جس طرح جانور جانور کو صحیح سالم بغیر کسی عیب کے جنتا ہے کیا تم اس میں کوئی نقص پاتے ہو۔ (یعنی کوئی نک کٹا، کن کٹا وغیرہ نہیں ہے بعد میں لوگ اس کے ناک کان وغیرہ کاٹ کر اسے عیب دار بنا دیتے ہیں۔) پھر آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی «فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ» ”اللہ کی فطرت یہی ہے جس پر لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی پیدا کی ہوئی چیز میں کوئی تبدیلی نہیں ہے اور یہی سیدھا دین ہے۔“ اس کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 90]
تخریج:
[صحيح بخاري 1358]،
[صحيح مسلم 6755]
فقہ الحدیث:
➊ دنیا کے عام انسان دین فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے دلوں میں شرک و کفر کا شائبہ تک نہیں ہوتا، لیکن ان کے والدین، رشتہ دار، دوست اور دوسرے لوگ انہیں کافر و مشرک بنا دیتے ہیں۔ اس کی تائید اس حدیث قدسی سے بھی ہوتی ہے جس میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”میں نے اپنے تمام بندوں کو موحد (مسلم) پیدا کیا ہے اور شیطانوں نے آ کر انہیں دین سے بھٹکا دیا ہے۔“ [صحيح مسلم: 2865]
➋ اسلام دین فطرت ہے۔
➌ دوسرے دلائل سے ثابت ہے کہ کافروں کے مرنے والے نابالغ بچوں کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ دیکھئے: [اضواء المصابيح ح93]
➍ بعض لوگ صحیح احادیث اور صفات باری تعالیٰ کا انکار کرتے ہیں۔ یہ معتزلہ، خوارج، معطلہ، جہمیہ، روافض اور منکرین حدیث وغیرہ کہلاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے نظریات قرآن و حدیث اور سلف صالحین سے نہیں لئے بلکہ اہل باطل اخلاف سے لئے ہیں یا خود گھڑ لئے ہیں۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 90
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4714
´کفار اور مشرکین کی اولاد کے انجام کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی بنا ڈالتے ہیں، جیسے اونٹ صحیح و سالم جانور سے پیدا ہوتا ہے تو کیا تمہیں اس میں کوئی کنکٹا نظر آتا ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے جو بچپنے میں مر جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے۔“ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4714]
فوائد ومسائل:
بچہ بنیادی طور ہر دین فطرت یعنی اگر و ہ والدین، اساتذہ اور ماحول سے متاثر نہ ہو تو دین حق ہی پر پروان چڑھے، مگر برے ماحول اور غلط تربیت کے زیر اثر وہ دین حق سے دور ہو جاتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4714
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2138
´ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے ۱؎، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی، یا مشرک بناتے ہیں“ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! جو اس سے پہلے ہی مر جائے؟ ۲؎ آپ نے فرمایا: ”اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے۔“ [سنن ترمذي/كتاب القدر/حدیث: 2138]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
فطرت اسلام پر پیدا ہونے کی علماء نے یہ تاویل کی ہے کہ چونکہ ﴿أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ﴾ کا عہد جس وقت اللہ رب العالمین اپنی مخلوق سے لے رہا تھا تو اس وقت سب نے اس عہد اور اس کی وحدانیت کا اقرار کیا تھا،
اس لیے ہر بچہ اپنے اسی اقرار پر پیدا ہوتا ہے،
یہ اور بات ہے کہ بعد میں وہ ماں باپ کی تربیت یا لوگوں کے بہکاوے میں آ کر یہودی،
نصرانی اور مشرک بن جاتا ہے۔
2؎:
یعنی بچپن ہی میں جس کا انتقال ہو جائے،
اس کے بارے میں آپﷺ کا کیا خیال ہے؟۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2138
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1143
1143- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کی اولاد کے بارے میں دریافت کیا گیا جو کم سنی میں انتقال کر جاتے ہیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ انہوں نے کیا عمل کرنے تھے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1143]
فائدہ:
اس حدیث میں مشرکین کے بچوں کا ذکر ہے کہ ان کے بچے، جو بچپن میں فوت ہو جائیں، کہاں جائیں گے؟ اس کے جواب سے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ مسلمانوں کے بچے جنت میں جائیں گے، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور رہے کافروں کے بچے، جو بچپن میں ہی وفات پاگئے ہوں، ان کے بارے میں یہ ہے کہ دنیا کے اندر اس بچے کا حکم مشرکین کے حکم کی طرح ہوگا، لہٰذا نہ اس کو غسل دیا جائے گا اور نہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اس لیے کہ وہ مشرکین کے تابع ہیں، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی اولاد میں سے مارے جانے والے کے بارے میں فرمایا: ”وہ انھی میں سے ہے“۔
البتہ آخرت میں ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے جو وہ عمل کرتے“۔ [صحيح البخاري: 1384 صـحـيـح مسلم: 2658 فتاوي اللجنة الدائمه: 3/ 501]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1141
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1146
1146- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی یا عیسائی بنا دیتے ہیں۔“ ابو زناد نامی راوی نے یہ الفاظ مزید نقل کیے ہیں۔ ”اسے مجوسی یا مشرک بنا دیتے ہیں۔“ راوی بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کی اس اولاد کے بارے میں دریافت کیا گیا: جو کم سنی میں فوت ہوجاتے ہیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ زیادہ بہتر جانتا ہے انہوں نے جو عمل کرنے تھے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1146]
فائدہ:
اس حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر بچہ مسلمان پیدا ہوتا ہے، پھر جیسے اس کو ماحول ملتا ہے، وہ وہی مذہب اختیار کر لیتا ہے، اصل کے اعتبار سے ہر بچہ مسلمان ہوتا ہے، خواہ وہ عیسائی کے گھر ہی میں کیوں نہ پیدا ہوا ہو۔
نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بچوں کو چھوٹی عمر میں جیسا ماحول دیں گے، وہ بڑے ہو کر اس کے مطابق ہوں گے، لہٰذا زندگی میں تربیت کی اصل عمر بچپن کی عمر ہے، لہٰذا بچپن میں ان پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے، جو والد چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر دیگر ملکوں کا رخ کر جاتے ہیں، ان کے بچے تربیت سے محروم ہو جاتے ہیں، اور پھر وہ ایسے بگڑتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ نیز دیکھیں حدیث (142)
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1144
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6755
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ہر مولود (پیدا ہونے والا) فطرت پر پیدا ہوتا ہے، چنانچہ اس کے والدین اس کو یہودی، عیسائی اور مجوسی بنا ڈالتے ہیں، جیسے چوپائے کا بچہ، کامل الاعضاء پیدا ہوتا ہے، کیا تمھیں ان میں کوئی کٹے ہوئے کان والا نظر آتا ہے۔"پھر ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو۔"اس فطرت کی پابندی کرو، جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ سرشت... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6755]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اللہ تعالیٰ نے تمام بنو آدم کی روحوں سے عہد ربوبیت (عہد الست)
لیا تھا اور اس کے مطابق،
تمام انسانوں کی فطرت و سرشت یا جبلت میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار رکھ لیا ہے اور اللہ کی ربوبیت ہی دین کا بیج ہے،
اس لیے ہر انسان فطرت اسلامیہ پر پیدا ہوتا ہے،
اس میں قبول کرنے کی صلاحیت و استعداد رکھ دی گئی ہے،
لیکن ماحول انسان کو متاثر کرتا ہے اور سب سے زیادہ انسان اپنے والدین سے متاثر ہوتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6755
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6758
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔"چنانچہ اس کے والدین اسے یہودی یا عیسائی یا مشرک بنا ڈالتے ہیں۔"تو ایک آدمی نے کہا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!بتائیے،اگر وہ اس سے پہلے مرجائے؟آپ نے فرمایا:"اللہ کو خوب علم ہے، انھوں نے جو عمل کرنے تھے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6758]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
يلد:
اصل میں ولد تھا،
بعض دفعہ "واو" کو "يا" سے بدل دیتے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6758
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6759
امام صاحب یہی روایت اپنے تین اساتذہ کی دو سندوں سےا عمش ہی کی مذکورہ بالا سند سے بیان کرتے ہیں، ابن نمیر کی روایت میں ہے۔"ہر بچہ پیدا ہوتا ہے، وہ ملت پر پیدا ہوتا ہے۔"ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے،"مگر اس ملت پر حتی کہ وہ زبان سے اس کا اظہار کرے۔"اور ابو کریب کی روایت ہے۔"ہر بچہ اس فطرت پر پیدا ہوتا ہے حتی کہ اس کی زبان اس کو بیان کرے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6759]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
الله اعلم بما كانواعاملين:
اللہ کو خوب معلوم ہے،
اگر وہ زندہ رہتے تو بالغ ہونے کے بعد کون سے عمل کرتے،
کیونکہ اس کا علم ازلی بھی ہے اور ابدی بھی،
اس لیے وہی ان کا انجام بتا سکتا ہے۔
حتي يبين عنه اويعبر عنه لسانه:
جب تک وہ شعور اور تمیز کی عمر کو پہنچ کر اپنے موقف اور دین کا اظہار نہیں کرتا،
وہ فطرت پر قائم ہوتا ہے اور ملت اسلامیہ پر عمل پیرا ہونے اور اس کو قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے،
اس کی فطرت میں بگاڑ اگر پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنے ماحول اور گردوپیش کی بنا پر ہوتا ہے اور عام طور پر زیادہ اثر والدین کی رائے اور فکر کا ہوتا ہے اور انہی کا دین قبول کرتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6759
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6760
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمام بن منبہ کو بہت سی احادیث سنائیں، ان میں سے ایک یہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جو بچہ پیدا ہوتا ہے، فطرت پر پیدا ہوتا ہے(اس کی فطرت میں کوئی بگاڑاور خرابی نہیں ہوتی)چنانچہ اس کے والدین اس کو یہودی اور نصرانی بناتے ہیں، جس طرح تم اونٹ کا بچہ لیتے ہو، کیا تم ان میں کان کٹے پاتے ہو؟ حتی کہ تم خود ہی ان کا کان کاٹتے ہو۔"صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے پوچھا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6760]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جو بچے بلوغت سے پہلے پہلے فوت ہو جاتے ہیں،
اگر ان کے والدین مسلمان ہیں تو اہل سنت کے نزدیک وہ جنتی ہیں،
لیکن اگر وہ ابھی مشرک ہیں تو پھر اس مسئلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں،
ان میں سے اہم اقوال چھ ہیں: 1۔
جمہور ائمہ کے نزدیک وہ جنتی ہیں،
کیونکہ وہ فطرت پر مرے ہیں اور جنہوں نے دوزخ میں جانا ہے،
انہوں نے اپنی فطرت کے خلاف برے اعمال کیے اور شرک و کفر کے نتیجہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنمی بنے یا ایمان لانے کے بعد،
بد اعمال کی پاداش میں عارضی طور پر دوزخ میں داخل ہوئے،
لیکن ان کو تو عمل کا موقعہ ہی نہیں ملا اور بخاری شریف،
کتاب العتبیر میں روایت ہے کہ جو بچہ فطرت پر فوت ہوتا ہے،
وہ جنتی ہے،
خواہ اس کے والدین مشرک ہی کیوں نہ ہوں،
صحیح موقف یہی ہے کیونکہ وہ ابھی مکلف ہی نہ تھے۔
2۔
وہ اپنے والدین کے تابع ہیں،
چونکہ ان کے والدین مشرک تھے،
اس لیے وہ بھی ان کے حکم میں ہیں اور دوزخی ہیں،
یہ انتہا پسند،
خارجیوں کے گروہ ازارقہ کا موقف ہے۔
3۔
وہ جنت اور دوزخ کے درمیان میں اصحاب الاعراف ہوں گے۔
4۔
یہ جنتیوں کے خدام ہوں گے۔
5۔
ان کا آخرت میں امتحان ہو گا۔
6۔
ان کے بارے میں توقف اختیار کریں گے،
کوئی رائے قائم نہیں کریں گے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6760
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6761
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ہر انسان جسے اس کی والدہ جنتی ہے وہ فطرت پر ہے بعد میں اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی اور مجوسی بناتے ہیں، اگر والدین مسلمان ہوں تو وہ مسلمان رہتا ہے، ہر انسان جسے والدہ جنتی ہے شیطان اس کی کوکھوں میں (دونوں پہلوؤں میں) مکہ مارتا ہے، سوائے مریم اور اس کے بیٹے کے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6761]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
يلكنره:
اس کو مکامارتا ہے،
حضنيه:
حضن:
پہلو،
کوکھ۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6761
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1385
1385. حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”ہر بچے کی پیدائش فطرت پر ہوتی ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یامجوسی بنادیتے ہیں، جیسا کہ حیوانات کے بچے صحیح وسلامت پیداہوتے ہیں، کیا تم نے (پیدائشی طور پر) ان کے جسم کا کوئی حصہ کٹا ہوا دیکھا ہے؟“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1385]
حدیث حاشیہ:
مگر بعد میں لوگ ان کے کان وغیرہ کاٹ کر ان کو عیب دار کردیتے ہیں۔
اس حدیث سے امام بخاری نے اپنا مذہب ثابت کیا کہ جب ہر بچہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے تو اگر وہ بچپن ہی میں مرجائے تو اسلام پر مرے گا اور جب اسلام پر مراتو بہشتی ہوگا۔
اسلام میں سب سے بڑا جزو توحید ہے تو ہر بچہ کے دل میں خدا کی معرفت اور اس کی توحید کی قابلیت ہوتی ہے۔
اگر بری صحبت میں نہ رہے تو ضرور وہ موحد ہوں، لیکن مشرک ماں باپ، عزیز واقرباء اس فطرت سے اس کا دل پھرا کر شرک میں پھنسا دیتے ہیں۔
(وحیدي)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1385
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1358
1358. حضرت شعیب سے روایت ہے کہ امام ابن شہاب زہری بیان کرتے ہیں کہ ہر فوت ہونے والے بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اگرچہ وہ زنا کی پیداوارہی کیوں نہ ہو کیونکہ اسکی پیدائش فطرت اسلام پر ہوئی ہے۔ بشرط یہ کہ اس کے والدین دونوں یاصرف باپ مسلمان ہو۔ اس کی ماں خواہ غیر مسلم ہو۔ اور یہ بھی شرط ہے کہ وہ بچہ پیدائش کے وقت چیخ مارکر رویاہو۔ اگر اس نے پیدائش کے وقت چیخ نہیں ماری تو وہ ناتمام بچہ ہے۔ اس لیے اس کی نماز جنازہ ادا نہیں کی جائے گیو کیونکہ حضرت ابو ہریرۃ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”ہربچہ فطرت(اسلام) پر پیدا ہوتا ہے۔اس کے ماں باپ اسے یہودی،نصرانی یا مجوسی بنالیتے ہیں، جیسا کہ جانور صحیح وسالم عضو والا بچہ جنتا ہے،کیا تم ان میں کوئی کان کٹا ہوا دیکھتے ہو؟“ پھر حضرت ابو ہریرہ ؓ نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی:”(یہ) اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1358]
حدیث حاشیہ:
قسطلانی نے کہا اگر وہ چار مہینے کا بچہ ہوتو اس کو غسل اور کفن دینا واجب ہے‘ اسی طرح دفن کرنا، لیکن نماز واجب نہیں، کیونکہ اس نے آواز نہیں کی اور اگر چار مہینے سے کم کاہوتو ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کردیں
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1358
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1359
1359. حضرت ابو ہریرۃ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”ہر بچہ فطرت اسلام ہی پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنالیتے ہیں، جس طرح کوئی جانور بچہ جنم دیتا ہے، کیا تم اس میں کوئی کان کٹا ہوا پاتے ہو؟“ پھر حضرت ابوہریرہ ؓ یہ آیت کریمہ پڑھنے:”یہ اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کے پیدا کرنے میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ یہی اللہ کا سیدھا دین ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1359]
حدیث حاشیہ:
باب کامطلب اس حدیث سے یوں نکلتاہے کہ جب ہر ایک آدمی کی فطرت اسلام پر ہوئی ہے تو بچے پر بھی اسلام پیش کرنا اور اس کا اسلام لانا صحیح ہوگا۔
ابن شہاب نے اس حدیث سے یہ نکالا کہ ہر بچے پر نماز جنازہ پڑھی جائے، کیونکہ وہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوا ہے۔
اس یہودی بچے نے اپنے باپ کی طرف دیکھا، گویا اس سے اجازت چاہی جب اس نے اجازت دی تو وہ شوق سے مسلمان ہوگیا۔
باب اور حدیث میں مطابقت یہ کہ آپ ﷺ نے بچے سے مسلمان ہونے کے لیے فرمایا۔
اس حدیث سے اخلاق محمدی پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ آپ ازراہ ہمدردی مسلمان اور غیر مسلمان سب کے ساتھ محبت کا برتاؤ فرماتے اور جب بھی کوئی بیمار ہوتا اس کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے جاتے۔
(صلی اللہ علیه وسلم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1359
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1359
1359. حضرت ابو ہریرۃ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”ہر بچہ فطرت اسلام ہی پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنالیتے ہیں، جس طرح کوئی جانور بچہ جنم دیتا ہے، کیا تم اس میں کوئی کان کٹا ہوا پاتے ہو؟“ پھر حضرت ابوہریرہ ؓ یہ آیت کریمہ پڑھنے:”یہ اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کے پیدا کرنے میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ یہی اللہ کا سیدھا دین ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1359]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی حدیث کو انقطاع کے ساتھ بیان کیا ہے، کیونکہ اس سے صرف حضرت ابن شہاب زہری کا ”استنباط“ بیان کرنا مقصود ہے، اصل اعتماد حضرت ابو ہریرہ ؓ کی مرفوع متصل حدیث پر ہے جسے انہوں نے اس کے بعد بیان کیا ہے۔
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ ولد الزنا کی نماز جنازہ صحیح ہے۔
قتادہ کے علاوہ تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ ولد الزنا بچے کا جنازہ جائز ہے، کیونکہ وہ فطرت اسلام پر پیدا ہوا ہے۔
اسی طرح نومولود کی نماز جنازہ بھی پڑھی جائے، اگرچہ ناتمام ہی کیوں نہ ہو بشرطیکہ اس نے پیدائش کے وقت چیخ ماری ہو۔
(فتح الباري: 282/3) (2)
ہمارے نزدیک ناتمام بچے کے متعلق نماز جنازہ کی شرائط محل نظر ہیں کہ اگر وہ پیدائش کے وقت چیخ مارے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے بصورت دیگر نہ پڑھی جائے، کیونکہ جس روایات پر اس موقف کی بنیاد ہے وہ صحیح نہیں، جیسا کہ علامہ البانی ؒ نے اس کے متعلق تفصیل بیان کی ہے۔
(أحکام الجنائز، ص: 105،104)
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”ناتمام بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔
“ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3180)
واضح رہے کہ ناتمام سے مراد وہ بچہ ہے جس کے چار ماہ مکمل ہو چکے ہوں اور اس میں روح پھونک دی گئی ہو، پھر وفات پا جائے۔
اگر اس مدت سے پہلے ساقط ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی، کیونکہ وہ اس صورت میں میت کہلا ہی نہیں سکتا۔
حدیث میں ہے کہ بچہ جب اپنی ماں کے پیٹ میں چار ماہ کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔
(صحیح البخاري، بدءالخلق، حدیث: 3208)
اس لیے ناتمام بچے پر نماز جنازہ کے لیے اس کے چیخ مار کر رونے کی شرط لگانا صحیح نہیں۔
والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1359
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1385
1385. حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”ہر بچے کی پیدائش فطرت پر ہوتی ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یامجوسی بنادیتے ہیں، جیسا کہ حیوانات کے بچے صحیح وسلامت پیداہوتے ہیں، کیا تم نے (پیدائشی طور پر) ان کے جسم کا کوئی حصہ کٹا ہوا دیکھا ہے؟“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1385]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر والدین کی تعلیم و تربیت اور سوسائٹی کا اثرورسوخ بچے کی فطرت سے چھیڑ چھاڑ نہ کرے تو بچہ دین اسلام کا پیروکار اور اس کے احکام پر کاربند ہو گا، جیسا کہ بچہ اپنی ماں کی چھاتی سے دودھ پینے کی محبت پر پیدا ہوتا ہے اور اسے اس محبت سے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔
فطرت کو دودھ سے تشبیہ دی گئی ہے، بلکہ خواب میں بھی اس کی یہی تعبیر کی جاتی ہے۔
(2)
اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ ہر بچہ دین کا علم حاصل کر کے پیدا ہوتا ہے کیونکہ اس کے متعلق خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَاللَّـهُ أَخْرَجَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿٧٨﴾ ) (النحل78: 16)
”اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے اس حالت میں برآمد کیا ہے کہ تم کچھ نہ جانتے تھے۔
اور اس نے تمہارے کان، آنکھیں اور دل بنا دیے تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو۔
“ بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ ہر بچہ دین اسلام سے محبت، اس کی معرفت اور اقرار ربوبیت پر پیدا ہوتا ہے۔
اگر وہ خالی الذہن رہے اور اس کے معارض کوئی چیز اس کے سامنے نہ آئے تو وہ اقرار و محبت سے نہیں ہٹ سکے گا۔
(3)
امام بخاری ؒ کے نزدیک فطرت سے مراد اسلام ہے جیسا کہ انہوں نے سورہ روم کی تفسیر میں اس کی صراحت کی ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، قبل الحدیث: 4775)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے اپنا مسلک ثابت کیا ہے کہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔
اگر وہ بچپن میں مر جائے تو فطرت اسلام پر مرے گا اور جب اسلام پر موت آئے تو وہ جنتی ہو گا۔
اسلام میں توحید کو ایک رکن اعظم کی حیثیت حاصل ہے، ہر بچے کے دل میں اللہ کی معرفت اور توحید کی قابلیت ہوتی ہے، اگر اسے بری صحبت میسر نہ آئے تو موحد ہو گا، اس لیے بچے جنتی ہیں، خواہ مشرکین ہی کے کیوں نہ ہوں۔
والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1385
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4775
4775. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے۔ کیا تم نے کبھی پیدائشی طور پر ناک یا کان کٹا ہوا کوئی بچہ دیکھا ہے؟ اس کے بعد آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿فِطْرَتَ ٱللَّـهِ ٱلَّتِى فَطَرَ ٱلنَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ ٱللَّـهِ ۚ ذَٰلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُ﴾ یعنی اللہ تعالٰی کی اس فطرت کا اتباع کرو جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالٰی کی بنائی ہوئی فطرت میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ یہی سیدھا دین ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4775]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔
اگر اس سے چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے تو وہ بڑا ہوکر اسلام پر کار بند ہوگا لیکن انسان کی اس فطرت اصلی پر والدین یا ماحول کا گہرا ثر ہوتا ہے اور غلط ماحول میں وہ فطرت اصلیہ دب جاتی ہے۔
اس دبی ہوئی فطرت سے ماحول کے دباؤ کا اثر ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام بھیجتا اور آسمان سے کتابیں نازل کرتا ہے۔
2۔
بہرحال ہر انسان کی فطرت میں قبول حق کی قوت رکھ دی گئی ہے اور اسی لیے اسے حق قبول کرنے کا پابند ٹھہرایا گیا، مثلاً:
اگر فرعون اور ابوجہل میں قبول حق کی یہ صلاحیت نہ ہوتی تو انھیں حق کی طرف دعوت دینا ہی فضول ہوتا، اس لیے انسان کو ایسے اسباب ووسائل سے پرہیز کرنا چاہیے جو اس کی قبول حق کی استعداد ختم یا کمزور کردے اور وہ اسباب اکثر غلط ماحول اور بری صحبت ہیں، اسی طرح اہل باطل کی کتابیں پڑھنا جبکہ خود اپنے مذہب اسلام کا پورا عالم نہ ہو۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4775