ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سلطنت (حکومت) قریش میں رہے گی، اور قضاء انصار میں اور اذان حبشہ میں اور امانت قبیلہ ازد میں یعنی یمن میں“۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا اور عبدالرحمٰن نے معاویہ بن صالح سے اور معاویہ نے ابومریم انصاری کے واسطہ سے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی، اور اسے مرفوع نہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اور یہ زید بن حباب کی (اوپر والی) حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔
(مرفوع) حدثنا عبد القدوس بن محمد العطار، حدثني عمي صالح بن عبد الكبير بن شعيب بن الحبحاب، حدثني عمي عبد السلام بن شعيب، عن ابيه، عن انس رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الازد اسد الله في الارض، يريد الناس ان يضعوهم , ويابى الله إلا ان يرفعهم، ولياتين على الناس زمان يقول الرجل: يا ليت ابي كان ازديا، يا ليت امي كانت ازدية ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه , وروي هذا الحديث بهذا الإسناد عن انس موقوف وهو عندنا اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنِي عَمِّي صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الْكَبِيرِ بْنِ شُعَيْبِ بْنِ الْحَبْحَابِ، حَدَّثَنِي عَمِّي عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْأَزْدُ أُسْدُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ، يُرِيدُ النَّاسُ أَنْ يَضَعُوهُمْ , وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يَرْفَعَهُمْ، وَلَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَقُولُ الرَّجُلُ: يَا لَيْتَ أَبِي كَانَ أَزْدِيًّا، يَا لَيْتَ أُمِّي كَانَتْ أَزْدِيَّةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ , وَرُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ أَنَسٍ مَوْقُوفٌ وَهُوَ عِنْدَنَا أَصَحُّ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «ازد»(اہل یمن) زمین میں اللہ کے شیر ہیں، لوگ انہیں گرانا چاہتے ہیں اور اللہ انہیں اٹھانا چاہتا ہے، اور لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ آدمی کہے گا، کاش! میرا باپ ازدی ہوتا، کاش میری ماں! ازدیہ ہوتی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- یہ حدیث اس سند سے انس سے موقوف طریقہ سے آئی ہے، اور یہ ہمارے نزدیک زیادہ صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 919) (ضعیف) (سند میں صالح بن عبد الکریم مجہول ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (2467) // ضعيف الجامع الصغير (2275) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3937) سنده حسن صالح بن عبدالكبير حسن له ابن شاهين (تاريخ دمشق 248/42۔249) و روي له الضياء فى المختارة
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن زنجويه بغدادي , حدثنا عبد الرزاق، اخبرني ابي، عن ميناء مولى عبد الرحمن بن عوف، قال: سمعت ابا هريرة، يقول: كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم فجاء رجل احسبه من قيس، فقال: يا رسول الله، العن حميرا فاعرض عنه، ثم جاءه من الشق الآخر فاعرض عنه، ثم جاءه من الشق الآخر فاعرض عنه، ثم جاءه من الشق الآخر فاعرض عنه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " رحم الله حميرا افواههم سلام , وايديهم طعام , وهم اهل امن وإيمان ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه من حديث عبد الرزاق، ويروى عن ميناء هذا احاديث مناكير.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ زَنْجُوَيْهِ بَغْدَادِيٌّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ مِينَاءَ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ رَجُلٌ أَحْسِبُهُ مِنْ قَيْسٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْعَنْ حِمْيَرًا فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ جَاءَهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ جَاءَهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ جَاءَهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رَحِمَ اللَّهُ حِمْيَرًا أَفْوَاهُهُمْ سَلَامٌ , وَأَيْدِيهِمْ طَعَامٌ , وَهُمْ أَهْلُ أَمْنٍ وَإِيمَانٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، وَيُرْوَى عَنْ مِينَاءَ هَذَا أَحَادِيثُ مَنَاكِيرُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا (میرا خیال ہے کہ وہ قبیلہ قیس کا تھا) اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قبیلہ حمیر پر لعنت فرمائیے، تو آپ نے اس سے چہرہ پھیر لیا، پھر وہ دوسری طرف سے آپ کے پاس آیا، آپ نے پھر اس سے اپنا چہرہ پھیر لیا، پھر وہ دوسری طرف سے آیا تو آپ نے پھر اپنا چہرہ پھیر لیا، پھر وہ دوسری طرف سے آیا تو آپ نے اپنا چہرہ پھیر لیا اور فرمایا: ”اللہ حمیر پر رحم کرے، ان کے منہ میں سلام ہے، ان کے ہاتھ میں کھانا ہے، اور وہ امن و ایمان والے لوگ ہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے عبدالرزاق کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- اور میناء سے بہت سی منکر حدیثیں روایت کی جاتی ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14633)، و مسند احمد (2/278) (موضوع) (سند میں مینا بن ابی مینا متروک شیعی راوی ہے، نیز ملاحظہ ہو: الضعیفة 349)»
قال الشيخ الألباني: موضوع، الضعيفة (349) // ضعيف الجامع الصغير (3109) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3939) إسناده ضعيف جدًا ميناء متروك ورمي بالرفض وكذبه أبو حاتم (تق:7059) وقال الهيثمي: وضعفه الجمهور (مجمع الزوائد 22/9)
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يزيد بن هارون، حدثنا ابو مالك الاشجعي، عن موسى بن طلحة، عن ابي ايوب الانصاري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الانصار، ومزينة، وجهينة، وغفار، واشجع، ومن كان من بني عبد الدار موالي، ليس لهم مولى دون الله , والله ورسوله مولاهم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا أَبُو مَالِكٍ الْأَشْجَعِيُّ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْأَنْصَارُ، وَمُزَيْنَةُ، وَجُهَيْنَةُ، وَغِفَارٌ، وَأَشْجَعُ، وَمَنْ كَانَ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ مَوَالِيَّ، لَيْسَ لَهُمْ مَوْلًى دُونَ اللَّهِ , وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ مَوْلَاهُمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصار، مزینہ، جہینہ، غفار، اشجع اور جو قبیلہ عبدالدار کے ہوں وہ میرے رفیق ہیں، ان کا اللہ کے علاوہ کوئی اور رفیق نہیں، اور اللہ اور اس کے رسول ان کے رفیق ہیں“۔
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " اسلم سالمها الله، وغفار غفر الله لها، وعصية عصت الله ورسوله ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ، وَغِفَارٌ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا، وَعُصَيَّةُ عَصَتِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی اسلم کو اللہ صحیح سالم رکھے، غفار کو اللہ بخشے اور عصیہ (قبیلہ) نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی“۱؎۔
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ثقیف کے تیروں نے ہمیں زخمی کر دیا، تو آپ اللہ سے ان کے لیے بد دعا فرمائیں، آپ نے فرمایا: «اللهم اهد ثقيفا»”اے اللہ! ثقیف کو ہدایت دے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 2779) (ضعیف) (سند میں ابوالزبیر محمد بن مسلم مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5986)
قال الشيخ زبير على زئي: (3942) إسناده ضعيف أبو الزبير عنعن (تقدم: 10) و رواه عبدالرحمن بن سابط عن جابر به مختصراً (مسند أحمد:343/3) وعبدالرحمن لم يسمع من جابر رضى الله عنه
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور آپ تین قبیلوں ثقیف، بنی حنیفہ اور بنی امیہ کو ناپسند کرتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10813) (ضعیف الإسناد) (حسن بصری مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت ہے، جب کہ عمران بن حصین رضی الله عنہ“ سے ان کا سماع بھی نہیں ہے)»
وضاحت: ۱؎: اس سلسلہ میں علماء کا کہنا ہے کہ ثقیف کو حجاج بن یوسف اور بنی حنیفہ کو مسیلمہ کذاب اور بنی امیہ کو عبیداللہ بن زیاد کی وجہ سے ناپسند کرتے تھے (واللہ اعلم)۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: (3943) إسناده ضعيف هشام بن حسان والحسن البصري عنعنا (تقدما:21،460)