(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، اخبرنا شعبة، عن عاصم، قال: سمعت زر بن حبيش يحدث، عن ابي بن كعب، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال له: " إن الله امرني ان اقرا عليك القرآن , فقرا عليه " لم يكن الذين كفروا " وقرا فيها: إن ذات الدين عند الله الحنيفية المسلمة لا اليهودية , ولا النصرانية , ولا المجوسية، من يعمل خيرا فلن يكفره، وقرا عليه: لو ان لابن آدم واديا من مال لابتغى إليه ثانيا، ولو كان له ثانيا لابتغى إليه ثالثا، ولا يملا جوف ابن آدم إلا التراب، ويتوب الله على من تاب ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي من غير هذا الوجه، رواه عبد الله بن عبد الرحمن بن ابزى، عن ابيه، عن ابي بن كعب رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال له: " إن الله امرني ان اقرا عليك القرآن ". وقد رواه قتادة، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال لابي بن كعب: " إن الله امرني ان اقرا عليك القرآن ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمٍ، قَال: سَمِعْتُ زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ: " إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ , فَقَرَأَ عَلَيْهِ " لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا " وَقَرَأَ فِيهَا: إِنَّ ذَاتَ الدِّينِ عِنْدَ اللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ الْمُسْلِمَةُ لَا الْيَهُودِيَّةُ , وَلَا النَّصْرَانِيَّةُ , وَلَا الْمَجُوسِيَّةُ، مَنْ يَعْمَلْ خَيْرًا فَلَنْ يُكْفَرَهُ، وَقَرَأَ عَلَيْهِ: لَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ وَادِيًا مِنْ مَالٍ لَابْتَغَى إِلَيْهِ ثَانِيًا، وَلَوْ كَانَ لَهُ ثَانِيًا لَابْتَغَى إِلَيْهِ ثَالِثًا، وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُرَابُ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، رَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ: " إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ ". وَقَدْ رَوَاهُ قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: " إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ ".
ابی بن کعب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں، چنانچہ آپ نے انہیں «لم يكن الذين كفروا» پڑھ کر سنایا، اس میں یہ بات بھی کہ بیشک دین والی، اللہ کے نزدیک تمام ادیان وملل سے کٹ کر اللہ کی جانب یکسو ہو جانے والی مسلمان عورت ہے، نہ یہودی، نصرانی اور مجوسی عورت، جو کوئی نیکی کرے گا تو اس کی ناقدری ہرگز نہیں کی جائے گی اور آپ نے انہیں یہ بھی بتایا کہ انسان کے پاس مال سے بھری ہوئی ایک وادی ہو تو وہ دوسری بھی چاہے گا، اور اگر اسے دوسری مل جائے تو تیسری چاہے گا، اور انسان کا پیٹ صرف مٹی ہی بھر سکے گی اور اللہ اسی کی توبہ قبول کرتا ہے جو واقعی توبہ کرے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث اس کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی آئی ہے، اسے عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابزی نے اپنے والد سے انہوں نے ابی بن کعب رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں“، ۳- اسے قتادہ نے انس سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب سے فرمایا: ”اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 3793 (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حقیقت میں انسان ایسا حریص ہے کہ وہ دنیا کے مال و متاع سے کسی بھی طرح سیر نہیں ہوتا اسے قبر کی مٹی ہی آسودہ کر سکتی ہے۔ (دیکھئیے حدیث رقم: ۳۷۹۳ کا اور اس کے حواشی) یہ حدیث پیچھے معاذ بن جبل، زید بن ثابت، ابی بن کعب اور ابوعبیدہ بن جراح رضی الله عنہم کے اکٹھے باب میں بھی آ چکی ہے اور امام ترمذی نے اس حدیث پر ابی بن کعب کا باب قائم کر کے ان کی فضیلت مزید بیان کیا ہے، اس لیے کہ وہ بہت بڑے عالم بھی تھے۔
قال الشيخ الألباني: حسن، وجملة ابن آدم صحيحة تخريج المشكلة (14)
ابی بن کعب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی کا ایک فرد ہوتا“۱؎۔ اسی سند سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ”اگر انصار کسی وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں بھی انہیں کے ساتھ ہوں گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 33)، و مسند احمد (5/137، 138) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس فرمان سے انصار کی دل جمعی مقصود ہے، یعنی انصار کی خوشنودی کے لیے میں یہاں تک جا سکتا ہوں کہ اگر ممکن ہوتا تو میں بھی انصار ہی میں سے ہو جاتا، مگر نسب کی تبدیل تو ممکن نہیں یہ بات انصار کی اسلام کے لیے فدائیت اور قربانی کا اعتراف ہے، اگلا فرمان البتہ ممکن ہے کہ ”اگر انصار کسی وادی میں چلیں تو میں انہی کے ساتھ ہوں گا“ اگر اس کی نوبت آ پاتی تو مہاجرین و انصار کی آپسی محبت چونکہ اللہ و رسول کے حوالہ سے تھی اس لیے ان کے آپس میں اس طرح کی بات ہونے کی نوبت ہی نہیں آ سکی، رضی الله عنہم۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن عدي بن ثابت، عن البراء بن عازب، انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم، او قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم في الانصار: " لا يحبهم إلا مؤمن، ولا يبغضهم إلا منافق، من احبهم فاحبه الله، ومن ابغضهم فابغضه الله، " فقلت له: انت سمعته من البراء؟ فقال: إياي حدث. قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح، وبهذا الإسناد عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " لو سلك الانصار واديا , او شعبا لكنت مع الانصار ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْأَنْصَارِ: " لَا يُحِبُّهُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يَبْغَضُهُمْ إِلَّا مُنَافِقٌ، مَنْ أَحَبَّهُمْ فَأَحَبَّهُ اللَّهُ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَأَبْغَضَهُ اللَّهُ، " فَقُلْتُ لَهُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنَ الْبَرَاءِ؟ فَقَالَ: إِيَّايَ حَدَّثَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَوْ سَلَكَ الْأَنْصَارُ وَادِيًا , أَوْ شِعْبًا لَكُنْتُ مَعَ الْأَنْصَارِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
براء بن عازب رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، یا کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے بارے میں فرمایا: ”ان سے مومن ہی محبت کرتا ہے، اور ان سے منافق ہی بغض رکھتا ہے، جو ان سے محبت کرے گا اس سے اللہ محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا اس سے اللہ بغض رکھے گا“۱؎۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، قال: حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، قال: سمعت قتادة، عن انس رضي الله عنه، قال: جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم ناسا من الانصار، فقال: " هل فيكم احد من غيركم؟ "، قالوا: لا إلا ابن اخت لنا، فقال صلى الله عليه وسلم: " إن ابن اخت القوم منهم، ثم قال: إن قريشا حديث عهدهم بجاهلية , ومصيبة , وإني اردت ان اجبرهم , واتالفهم اما ترضون ان يرجع الناس بالدنيا وترجعون برسول الله صلى الله عليه وسلم إلى بيوتكم "، قالوا: بلى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو سلك الناس واديا او شعبا وسلكت الانصار واديا او شعبا لسلكت وادي الانصار او شعبهم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَال: سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاسًا مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: " هَلْ فِيكُمْ أَحَدٌ مِنْ غَيْرِكُمْ؟ "، قَالُوا: لَا إِلَّا ابْنَ أُخْتٍ لَنَا، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ ابْنَ أُخْتِ الْقَوْمِ مِنْهُمْ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ قُرَيْشًا حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ بِجَاهِلِيَّةٍ , وَمُصِيبَةٍ , وَإِنِّي أَرَدْتُ أَنْ أَجْبُرَهُمْ , وَأَتَأَلَّفَهُمْ أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَرْجِعَ النَّاسُ بِالدُّنْيَا وَتَرْجِعُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بُيُوتِكُمْ "، قَالُوا: بَلَى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا أَوْ شِعْبًا وَسَلَكَتِ الْأَنْصَارُ وَادِيًا أَوْ شِعْبًا لَسَلَكْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ أَوْ شِعْبَهُمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فتح مکہ کے وقت) انصار کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کیا ۱؎ اور فرمایا: ”کیا تمہارے علاوہ تم میں کوئی اور ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: نہیں سوائے ہمارے بھانجے کے، تو آپ نے فرمایا: ”قوم کا بھانجا تو قوم ہی میں داخل ہوتا ہے“، پھر آپ نے فرمایا: ”قریش اپنی جاہلیت اور (کفر کی) مصیبت سے نکل کر ابھی نئے نئے اسلام لائے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ کچھ ان کی دلجوئی کروں اور انہیں مانوس کروں، (اسی لیے مال غنیمت میں سے انہیں دیا ہے) کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ لوگ دنیا لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں اور تم اللہ کے رسول کو لے کر اپنے گھر جاؤ“، لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں، ہم اس پر راضی ہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگ ایک وادی یا گھاٹی میں چلیں اور انصار دوسری وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی و گھاٹی میں چلوں گا“۔
وضاحت: ۱؎: یہ غزوہ حنین کے بعد کا واقعہ ہے، جس کے اندر آپ نے قریش کے نئے مسلمانوں کو مال غنیمت میں سے بطور تالیف قلب عطا فرمایا تو بعض نوجوان انصاری حضرات کی طرف سے کچھ ناپسندیدہ رنجیدگی کا اظہار کیا گیا تھا، اسی پر آپ نے انصار کو جمع کر کے یہ ارشاد فرمایا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1776)، الروض النضير (961)
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا علي بن زيد بن جدعان، حدثنا النضر بن انس، عن زيد بن ارقم، انه كتب إلى انس بن مالك يعزيه فيمن اصيب من اهله وبني عمه يوم الحرة، فكتب إليه: إني ابشرك ببشرى من الله، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " اللهم اغفر للانصار , ولذراري الانصار , ولذراري ذراريهم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا علي بن زيد بن جدعان، حدثنا النضر بن انس، وقد رواه قتادة، عن النضر بن انس، عن زيد بن ارقم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ يُعَزِّيهِ فِيمَنْ أُصِيبَ مِنْ أَهْلِهِ وَبَنِي عَمِّهِ يَوْمَ الْحَرَّةِ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ: إِنِّي أُبَشِّرُكَ بِبُشْرَى مِنَ اللَّهِ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ , وَلِذَرَارِيِّ الْأَنْصَارِ , وَلِذَرَارِيِّ ذَرَارِيهِمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ أَنَسٍ، وَقَدْ رَوَاهُ قَتَادَةُ، عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ.
زید بن ارقم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے انس بن مالک رضی الله عنہ کو خط لکھا اس خط میں وہ ان کی ان لوگوں کے سلسلہ میں تعزیت کر رہے تھے جو ان کے گھر والوں میں سے اور چچا کے بیٹوں میں سے حرّہ ۱؎ کے دن کام آ گئے تھے تو انہوں نے (اس خط میں) انہیں لکھا: میں آپ کو اللہ کی طرف سے ایک خوشخبری سناتا ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! انصار کو، ان کی اولاد کو، اور ان کی اولاد کے اولاد کو بخش دے“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے قتادہ نے بھی نضر بن انس رضی الله عنہ سے اور انہوں نے زید بن ارقم رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے۔
وضاحت: ۱؎: ”حرّہ کا دن“ اس واقعے کو کہا جاتا ہے جس میں یزید کی فوجوں نے مسلم بن قتیبہ مُرّی کی سرکردگی میں سنہ ۶۳ھ میں مدینہ پر حملہ کر کے اہل مدینہ کو لوٹا تھا اور مدینہ کو تخت و تاراج کیا تھا، اس میں بہت سے صحابہ و تابعین کی جانیں چلی گئی تھیں، یہ فوج کشی اہل مدینہ کے یزید کی بیعت سے انکار پر کی گئی تھی، (عفا اللہ عنہ) یہ واقعہ چونکہ مدینہ کے ایک محلہ ”حرّہ“ میں ہوا تھا اس لیے اس کا نام ”یوم الحرّۃ“ پڑ گیا۔
۲؎: یعنی: اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کے کام آنے والے آپ کی اولاد کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت شامل ہے، اس لیے آپ کو ان کی موت پر رنجیدہ نہیں ہونا چاہیئے، ایک مومن کا منتہائے آرزو آخرت میں بخشش ہی تو ہے۔
ابوطلحہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنی قوم ۱؎ کو سلام کہو، کیونکہ وہ پاکباز اور صابر لوگ ہیں جیسا کہ مجھے معلوم ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3774) (ضعیف) (سند میں محمد بن ثابت بنانی ضعیف راوی ہے، مگر اس کا دوسرا ٹکڑا شواہد کی بنا پر صحیح ہے، الصحیحة 3096)»
وضاحت: ۱؎: یعنی: قوم انصار کو سلام کہو، اس میں انصار کی فضیلت ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، لكن، الصحيحة منه الشطر الثاني، المشكاة (6242)
قال الشيخ زبير على زئي: (3903) إسناده ضعيف محمد بن ثابت البناني: ضعيف (تقدم: 3510) وتابعه الحسن بن أبى جعفر وهو ضعيف (تقدم:334)
(مرفوع) حدثنا الحسين بن حريث، حدثني الفضل بن موسى، عن زكريا بن ابي زائدة، عن عطية، عن ابي سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " الا إن عيبتي التي آوي إليها اهل بيتي، وإن كرشي الانصار، فاعفوا عن مسيئهم واقبلوا من محسنهم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، قال: وفي الباب عن انس.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنِي الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَلَا إِنَّ عَيْبَتِيَ الَّتِي آوِي إِلَيْهَا أَهْلُ بَيْتِي، وَإِنَّ كَرِشِيَ الْأَنْصَارُ، فَاعْفُوا عَنْ مُسِيئِهِمْ وَاقْبَلُوا مِنْ مُحْسِنِهِمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَنَسٍ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری جامہ دانی جس کی طرف میں پناہ لیتا ہوں یعنی میرے خاص لوگ میرے اہل بیت ہیں، اور میرے راز دار اور امین انصار ہیں تو تم ان کے خطا کاروں کو درگزر کرو اور ان کے بھلے لوگوں کی اچھائیوں کو قبول کرو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں انس سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4198) (منکر) (اہل بیت کے ذکر کے ساتھ منکر ہے، سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، مگر حدیث رقم 3906 سے تقویت پا کر اس کا دوسرا ٹکڑا صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: «عيبه» جامہ دانی اور صندوق کو کہتے ہیں جس میں کپڑے حفاظت سے رکھے جاتے ہیں، آپ نے اپنے اہل بیت کو جامہ دانی اس لیے کہا کہ وہ آپ کے خدمت گار اور معاون تھے، اور «کرش» جانور کے اس عضو کا نام ہے جو مثل معدہ کے ہوتا ہے، آپ نے انصار کو «کرش» اس معنی میں کہا کہ جس طرح معدہ میں کھانا اور غذا جمع ہوتی ہے پھر اس سے سارے بدن و نفع پہنچتا ہے اسی طرح میرے لیے انصار ہیں کیونکہ وہ بے انتہا دیانت دار اور امانت دار ہیں اور میرے عہود و مواثیق اور اسرار کے حافظ و نگہبان اور مجھ پر دل و جان سے قربان ہیں۔
قال الشيخ الألباني: منكر - بذكر أهل البيت -، المشكاة (6240) // ضعيف الجامع الصغير (2175) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3904) إسناده ضعيف عطية: ضعيف (تقدم: 477)
سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو قریش کی رسوائی چاہے گا اللہ اسے رسوا کر دے گا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- ہم سے عبد بن حمید نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: مجھے یعقوب بن ابراہیم بن سعد نے خبر دی، وہ کہتے ہیں: مجھ سے میرے والد نے بیان کیا اور انہوں نے صالح بن کیسان سے اور صالح نے ابن شہاب سے اسی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو انصار سے بغض نہیں رکھ سکتا“۱؎۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، قال: سمعت قتادة يحدث، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الانصار كرشي وعيبتي، وإن الناس سيكثرون ويقلون فاقبلوا من محسنهم , وتجاوزوا عن مسيئهم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَال: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْأَنْصَارُ كَرِشِي وَعَيْبَتِي، وَإِنَّ النَّاسَ سَيَكْثُرُونَ وَيَقِلُّونَ فَاقْبَلُوا مِنْ مُحْسِنِهِمْ , وَتَجَاوَزُوا عَنْ مُسِيئِهِمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصار میرے راز دار اور میرے خاص الخاص ہیں، لوگ عنقریب بڑھیں گے اور انصار کم ہوتے جائیں گے، تو تم ان کے بھلے لوگوں کی اچھائیوں کو قبول کرو اور ان کے خطا کاروں کی خطاؤں سے درگزر کرو“۔