سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: فضائل و مناقب
Chapters on Virtues
حدیث نمبر: 3850M
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا محمد بن يحيى، حدثنا محمد بن عبد الله الانصاري نحوه، ولم يذكر فيه قول الانصاري.(موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ قَوْلَ الْأَنْصَارِيِّ.
ہم سے محمد بن یحییٰ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے اسی جیسی حدیث بیان کی لیکن اس میں انصاری کا قول ذکر نہیں کیا۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
53. باب فِي مَنَاقِبِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رضى الله عنهما
53. باب: جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3851
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله، قال: " جاءني رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس براكب بغل ولا برذون ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: " جَاءَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بِرَاكِبِ بَغْلٍ وَلَا بِرْذَوْنٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے ۱؎، آپ نہ کسی خچر پر سوار تھے نہ ترکی گھوڑے پر۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المرضی 15 (5664)، سنن ابی داود/ الجنائز 6 (3096)، وانظر ماتقدم برقم 2097) (تحفة الأشراف: 3021) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: صحیح بخاری اور دیگر کتب سنن میں ہے کہ آپ میری عیادت کو آئے … بہرحال اس میں جابر رضی الله عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غایت درجہ محبت کرنے کی دلیل ہے، کہ سواری نہ ہونے پر پیدل چل کر ان کی عیادت کو گئے، رضی الله عنہ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح مختصر الشمائل (291)
حدیث نمبر: 3852
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا بشر بن السري، عن حماد بن سلمة، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: " استغفر لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة البعير خمسا وعشرين مرة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب، ومعنى قوله: ليلة البعير ما روي عن جابر من غير وجه انه كان مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر , فباع بعيره من النبي صلى الله عليه وسلم , واشترط ظهره إلى المدينة، يقول جابر: ليلة بعت من النبي صلى الله عليه وسلم البعير استغفر لي خمسا وعشرين مرة، وكان جابر قد قتل ابوه عبد الله بن عمرو بن حرام يوم احد وترك بنات، فكان جابر يعولهن وينفق عليهن وكان النبي صلى الله عليه وسلم يبر جابرا , ويرحمه لسبب ذلك. هكذا روي في حديث عن جابر نحو هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: " اسْتَغْفَرَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْبَعِيرِ خَمْسًا وَعِشْرِينَ مَرَّةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: لَيْلَةَ الْبَعِيرِ مَا رُوِيَ عَنْ جَابِرٍ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ أَنَّهُ كَانَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ , فَبَاعَ بَعِيرَهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَاشْتَرَطَ ظَهْرَهُ إِلَى الْمَدِينَةِ، يَقُولُ جَابِرٌ: لَيْلَةَ بِعْتُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَعِيرَ اسْتَغْفَرَ لِي خَمْسًا وَعِشْرِينَ مَرَّةً، وَكَانَ جَابِرٌ قَدْ قُتِلَ أَبُوهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ يَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَكَ بَنَاتٍ، فَكَانَ جَابِرٌ يَعُولُهُنَّ وَيُنْفِقُ عَلَيْهِنَّ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبَرُّ جَابِرًا , وَيَرْحَمُهُ لِسَبَبِ ذَلِكَ. هَكَذَا رُوِيَ فِي حَدِيثٍ عَنْ جَابِرٍ نَحْوَ هَذَا.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «ليلة البعير» (اونٹ کی رات) میں میرے لیے پچیس بار دعائے مغفرت کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- ان کے قول «ليلة البعير» اونٹ کی رات سے وہ رات مراد ہے جو جابر سے کئی سندوں سے مروی ہے کہ وہ ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، انہوں نے اپنا اونٹ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ بیچ دیا اور مدینہ تک اس پر سوار ہو کر جانے کی شرط رکھ لی، جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں: جس رات میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اونٹ بیچا آپ نے پچیس بار میرے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔ اور جابر کے والد عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی الله عنہما احد کے دن شہید کر دیئے گئے تھے اور انہوں نے کچھ لڑکیاں چھوڑی تھیں، جابر ان کی پرورش کرتے تھے اور ان پر خرچ دیتے تھے، اس کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ حسن سلوک فرماتے تھے اور ان پر رحم کرتے تھے،
۳- اسی طرح ایک اور حدیث میں جابر سے ایسے ہی مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي) (تحفة الأشراف: 2691) (ضعیف) (ابوالزبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6238)

قال الشيخ زبير على زئي: (3852) إسناده ضعيف
أبو الزبير عنعن (تقدم:927) و أخر جه مسلم (715 بعد ح 1599) من حديث أبى الزبير بغير هذا اللفظ وهو المحفوظ
54. باب فِي مَنَاقِبِ مُصْعَبِ بْنِ عُمَيْرٍ رضى الله عنه
54. باب: مصعب بن عمیر رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3853
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو احمد، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن ابي وائل، عن خباب، قال: هاجرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم نبتغي وجه الله، فوقع اجرنا على الله فمنا من مات ولم ياكل من اجره شيئا، ومنا من اينعت له ثمرته فهو يهدبها، وإن مصعب بن عمير مات , ولم يترك إلا ثوبا كانوا إذا غطوا به راسه خرجت رجلاه، وإذا غطى بها رجليه خرج راسه , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " غطوا راسه واجعلوا على رجليه الإذخر ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ خَبَّابٍ، قَالَ: هَاجَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبْتَغِي وَجْهَ اللَّهِ، فَوَقَعَ أَجْرُنَا عَلَى اللَّهِ فَمِنَّا مَنْ مَاتَ وَلَمْ يَأْكُلْ مِنْ أَجْرِهِ شَيْئًا، وَمِنَّا مَنْ أَيْنَعَتْ لَهُ ثَمَرَتُهُ فَهُوَ يَهْدِبُهَا، وَإِنَّ مُصْعَبَ بْنَ عُمَيْرٍ مَاتَ , وَلَمْ يَتْرُكْ إِلَّا ثَوْبًا كَانُوا إِذَا غَطَّوْا بِهِ رَأْسَهُ خَرَجَتْ رِجْلَاهُ، وَإِذَا غُطِّى بِهَا رِجْلَيْهِ خَرَجَ رَأْسُهُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " غَطُّوا رَأْسَهُ وَاجْعَلُوا عَلَى رِجْلَيْهِ الْإِذْخِرَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی ۱؎، ہم اللہ کی رضا کے خواہاں تھے تو ہمارا اجر اللہ پر ثابت ہو گیا ۲؎ چنانچہ ہم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ انہوں نے اپنے اجر میں سے (دنیا میں) کچھ بھی نہیں کھایا ۳؎ اور کچھ ایسے ہیں کہ ان کے امید کا درخت بار آور ہوا اور اس کے پھل وہ چن رہے ہیں، اور مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے ایسے وقت میں انتقال کیا کہ انہوں نے کوئی چیز نہیں چھوڑی سوائے ایک ایسے کپڑے کے جس سے جب ان کا سر ڈھانپا جاتا تو دونوں پیر کھل جاتے اور جب دونوں پیر ڈھانپے جاتے تو سر کھل جاتا، یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کا سر ڈھانپ دو اور ان کے پیروں پر اذخر گھاس ڈال دو ۴؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 27 (1276)، ومناقب الأنصار 45 (3897)، والمغازي 17 (4047)، و26 (4082)، والرقاق 7 (6432)، 16 (6448)، صحیح مسلم/الجنائز 13 (940)، سنن ابی داود/ الوصایا 11 (2876)، سنن النسائی/الجنائز 40 (1904) (تحفة الأشراف: 3514)، و مسند احمد (5/109، 112) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح أحكام الجنائز (57 - 58)
حدیث نمبر: 3853M
Save to word اعراب
ہم سے ہناد نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ابن ادریس نے بیان کیا، اور ابن ادریس نے اعمش سے، اعمش نے ابووائل شفیق بن سلمہ سے اور ابووائل نے خباب بن ارت رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی آپ کے حکم سے ہجرت کی، ورنہ ہجرت میں آپ کے ساتھ صرف ابوبکر رضی الله عنہ تھے، یا یہ مطلب ہے کہ ہم نے آپ کے آگے پیچھے ہجرت کی اور بالآخر سب مدینہ پہنچے۔
۲؎: یعنی اللہ کے اپنے اوپر آپ خود سے واجب کرنے پر، ورنہ آپ پر کون کوئی چیز واجب کر سکتا ہے، یا آپ نے ایسا اس لیے کہا کہ اللہ نے اس کا خود ہی وعدہ فرمایا ہے، اور اللہ کا وعدہ سچا پکا ہوتا ہے۔
۳؎: یعنی فتوحات سے قبل ہی ان کا انتقال ہو گیا تو اموال غنیمت سے استفادہ کرنے کا ان کو موقع نہیں ملا، ورنہ صحابہ نے خاص مال غنیمت کی نیت سے ہجرت نہیں کی تھی۔
۴؎: چونکہ مصعب کا انتقال فراخی ہونے سے پہلے ہوا تھا اس لیے سرکاری بیت المال میں بھی اتنی گنجائش نہیں تھی کہ ان کے کفن دفن کا انتظام کیا جاتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح أحكام الجنائز (57 - 58)
55. باب مَنَاقِبِ الْبَرَاءِ بْنِ مَالِكٍ رضى الله عنه
55. باب: براء بن مالک رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3854
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن ابي زياد، حدثنا سيار، حدثنا جعفر بن سليمان، حدثنا ثابت، وعلي بن زيد , عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كم من اشعث اغبر ذي طمرين لا يؤبه له لو اقسم على الله لابره منهم البراء بن مالك ". قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح حسن من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا سَيَّارٌ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، وَعَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَمْ مِنْ أَشْعَثَ أَغْبَرَ ذِي طِمْرَيْنِ لَا يُؤْبَهُ لَهُ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ مِنْهُمْ الْبَرَاءُ بْنُ مَالِكٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کتنے پراگندہ بال غبار آلود اور پرانے کپڑے والے ہیں کہ جن کی کوئی پرواہ نہیں کرتا ایسے ہیں کہ اگر اللہ کے بھروسہ پر قسم کھا لیں تو اللہ ان کی قسم کو سچی کر دے ۱؎، انہیں میں سے براء بن مالک ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 275، و1101)، و مسند احمد (3/145) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ ان کے اللہ تعالیٰ کے نہایت محبوب ہونے کی دلیل ہے، اور یہ محبوبیت یونہی حاصل ہو جاتی، بلکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی اور احکامات کی صدق دل اور فدائیت کے ساتھ بجا آوری کرتے ہیں، اس لیے ان کو یہ مقام حاصل ہو جاتا ہے، اور ان میں براء بن مالک بھی تھے، رضی الله عنہ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (6239)، تخريج المشكلة (125)
56. باب فِي مَنَاقِبِ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ رضى الله عنه
56. باب: ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3855
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا موسى بن عبد الرحمن الكندي، حدثنا ابو يحيى الحماني، عن بريد بن عبد الله بن ابي بردة، عن ابي بردة، عن ابي موسى، عن النبي صلى الله عليه وسلم , انه قال: " يا ابا موسى لقد اعطيت مزمارا من مزامير آل داود ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب حسن صحيح، وفي الباب عن بريدة , وابي هريرة , وانس.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى الْحِمَّانِيُّ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّهُ قَالَ: " يَا أَبَا مُوسَى لَقَدْ أُعْطِيتَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ عَنْ بُرَيْدَةَ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَأَنَسٍ.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوموسیٰ تمہیں آل داود کی خوش الحانیوں (اچھی آوازوں) میں سے ایک خوش الحانی دی گئی ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- اس باب میں بریدہ، ابوہریرہ اور انس رضی الله عنہم سے احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل القرآن 31 (5048)، صحیح مسلم/المسافرین 34 (793) (تحفة الأشراف: 9068) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ایک بار اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور عائشہ رضی الله عنہا ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کے گھر کے پاس سے گزرے ابوموسیٰ نہایت خوش الحانی سے قرآن کی تلاوت کر رہے تھے، صبح کو اسی واقعہ پر آپ نے ان کی بابت یہ فرمایا، «مزمار» (بانسری) گرچہ ایک آلہ ہے جس کے ذریعہ اچھی آواز نکالی جاتی ہے، مگر یہاں صرف اچھی آواز مراد ہے، داود علیہ السلام اپنی کتاب زبور کی تلاوت اس خوش الحانی سے فرماتے کہ اڑتی ہوئی چڑیاں فضا میں رک کر آپ کی تلاوت سننے لگتی تھیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3856
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن بزيع، حدثنا الفضيل بن سليمان، حدثنا ابو حازم، عن سهل بن سعد، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يحفر الخندق، ونحن ننقل التراب فيمر بنا، فقال: " اللهم لا عيش إلا عيش الآخرة فاغفر للانصار والمهاجره ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه، وابو حازم اسمه: سلمة بن دينار الاعرج الزاهد، قال: وفي الباب عن انس بن مالك.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَحْفِرُ الْخَنْدَقَ، وَنَحْنُ نَنْقُلُ التُّرَابَ فَيَمُرُّ بِنَا، فَقَالَ: " اللَّهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشَ الْآخِرَةِ فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَهْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو حَازِمٍ اسْمُهُ: سَلَمَةُ بْنُ دِينَارٍ الْأَعْرَجُ الزَّاهِدُ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ.
سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ خندق کھود رہے تھے اور ہم مٹی ڈھو رہے تھے، آپ نے ہمیں دیکھا تو فرمایا: «اللهم لا عيش إلا عيش الآخره فاغفر للأنصار والمهاجره» اے اللہ زندگی تو آخرت ہی کی زندگی ہے، تو انصار و مہاجرین کی مغفرت فرما ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،
۲- اس باب میں انس بن مالک سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/مناقب الأنصار 9 (3797)، والمغازي 29 (4098)، والرقاق 1 (6414) (تحفة الأشراف: 4737) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: صاحب تحفہ الأحوذی نے اس حدیث پر باب مناقب سہل بن سعد کا عنوان لگایا ہے، اور یہی مناسب ہے، کہ اس حدیث کا تعلق ابوموسیٰ رضی الله عنہ سے کسی طرح نہیں ہے، اور اس میں تمام مہاجرین و انصار صحابہ کی منقبت کا بیان ہے، جو خاص طور پر خندق کھودنے میں شریک تھے، رضی الله عنہم اجمعین۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3857
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول: " اللهم لا عيش إلا عيش الآخره فاكرم الانصار والمهاجره ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب، وقد روي من غير وجه عن انس رضي الله عنه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشَ الْآخِرَهْ فَأَكْرِمْ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَهْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: «اللهم لا عيش إلا عيش الآخره فأكرم الأنصار والمهاجره» بار الٰہا زندگی تو آخرت کی زندگی ہے، تو انصار و مہاجرین کی تکریم فرما ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- انس رضی الله عنہ سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/مناقب الأنصار 9 (3795)، والرقاق 1 (6413)، صحیح مسلم/الجھاد 44 (1805) (تحفة الأشراف: 1246) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث اگلی حدیث کے استشہاد میں لائے ہیں، یہی اس باب سے اس کی مناسبت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
58. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ مَنْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَحِبَهُ
58. باب:: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے اور آپ کے ساتھ رہنے والوں کے مناقب و فضائل کا بیان​
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3858
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا يحيى بن حبيب بن عربي، حدثنا موسى بن إبراهيم بن كثير الانصاري، قال: سمعت طلحة بن خراش، يقول: سمعت جابر بن عبد الله، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " لا تمس النار مسلما رآني , او راى من رآني ". قال طلحة: فقد رايت جابر بن عبد الله، وقال موسى: وقد رايت طلحة، قال يحيى: وقال لي موسى: وقد رايتني ونحن نرجو الله. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث موسى بن إبراهيم الانصاري، وروى علي بن المديني، وغير واحد من اهل الحديث، عن موسى هذا الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ الْأَنْصَارِيُّ، قَال: سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي , أَوْ رَأَى مَنْ رَآنِي ". قَالَ طَلْحَةُ: فَقَدْ رَأَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، وَقَالَ مُوسَى: وَقَدْ رَأَيْتُ طَلْحَةَ، قَالَ يَحْيَى: وَقَالَ لِيّ مُوسَى: وَقَدْ رَأَيْتُنِي وَنَحْنُ نَرْجُو اللَّهَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُوسَى بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْأَنْصَارِيِّ، وَرَوَى عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ، عَنْ مُوسَى هَذَا الْحَدِيثَ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جہنم کی آگ کسی ایسے مسلمان کو نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا، یا کسی ایسے شخص کو دیکھا جس نے مجھے دیکھا ہے، طلحہ (راوی حدیث) نے کہا: تو میں نے جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کو دیکھا ہے اور موسیٰ نے کہا: میں نے طلحہ کو دیکھا ہے اور یحییٰ نے کہا کہ مجھ سے موسیٰ (راوی حدیث) نے کہا: اور تم نے مجھے دیکھا ہے اور ہم سب اللہ سے نجات کے امیدوار ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف موسیٰ بن ابراہیم انصاری کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- اس حدیث کو علی بن مدینی نے اور محدثین میں سے کئی اور لوگوں نے بھی موسیٰ سے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 2288) (ضعیف) (سند میں موسیٰ بن ابراہیم انصاری صدوق ہیں، لیکن احادیث کی روایت میں غلطی کرتے ہیں، گرچہ حدیث کی تحسین ترمذی نے کی ہے، اور ضیاء مقدسی نے اسے احادیث مختارہ میں ذکر کیا ہے، اور البانی نے بھی مشکاة کی پہلی تحقیق میں اس کی تحسین کی تھی، لیکن ضعیف الترمذی میں اسے ضعیف قرار دیا، حدیث میں نکارہ بھی ہے کہ اس میں سارے صحابہ اور صحابہ کے تابعین سب کے بارے میں عذاب جہنم کی نفی موجود ہے، جب کہ اس عموم پر کوئی اور دلیل نہیں ہے، اس لیے یہ حدیث منکر بھی قرار پائے گی، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الالبانی 359)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6004 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (6277) //

Previous    23    24    25    26    27    28    29    30    31    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.