(موقوف) حدثنا حدثنا إبراهيم بن يعقوب، حدثنا زيد بن حباب، حدثنا ميمون ابو عبد الله، حدثنا ثابت البناني، قال: قال لي انس بن مالك: " يا ثابت خذ عني , فإنك لن تاخذ عن احد اوثق مني، إني اخذته عن رسول الله صلى الله عليه وسلم عن جبريل، واخذه جبريل عن الله تعالى ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث زيد بن حباب.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، حَدَّثَنَا مَيْمُونٌ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، قَالَ: قَالَ لِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: " يَا ثَابِتُ خُذْ عَنِّي , فَإِنَّكَ لَنْ تَأْخُذَ عَنْ أَحَدٍ أَوْثَقَ مِنِّي، إِنِّي أَخَذْتُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ جِبْرِيلَ، وَأَخَذَهُ جِبْرِيلُ عَنِ اللَّهِ تَعَالَى ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ حُبَابٍ.
ثابت بنانی کا بیان ہے کہ مجھ سے انس بن مالک رضی الله عنہ نے کہا: اے ثابت مجھ سے علم دین حاصل کرو کیونکہ اس کے لیے تم مجھ سے زیادہ معتبر آدمی کسی کو نہیں پاؤ گے، میں نے اسے (براہ راست) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لیا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام سے اور جبرائیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے لیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف زید بن حباب کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 491) (ضعیف الإسناد) (سند میں میمون بن ابان مجہول الحال راوی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: (3831، 3832) إسناده ضعيف ميمون بن أبان: مستور (تق:7042) أى مجهول الحال، وثقه ابن حبان وحده
اس سند سے بھی انس رضی الله عنہ سے ابراہیم بن یعقوب والی حدیث ہی کی طرح حدیث مروی ہے، لیکن اس میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جبرائیل سے لیا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (ضعیف الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: *
قال الشيخ زبير على زئي: (3831، 3832) إسناده ضعيف ميمون بن أبان: مستور (تق:7042) أى مجهول الحال، وثقه ابن حبان وحده
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، عن ابي خلدة، قال: قلت لابي العالية , سمع انس من النبي صلى الله عليه وسلم قال: " خدمه عشر سنين ودعا له النبي صلى الله عليه وسلم , وكان له بستان يحمل في السنة الفاكهة مرتين، وكان فيها ريحان كان يجيء منه ريح المسك ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وابو خلدة اسمه: خالد بن دينار وهو ثقة عند اهل الحديث , وقد ادرك ابو خلدة انس بن مالك وروى عنه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ أَبِي خَلْدَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي الْعَالِيَةِ , سَمِعَ أَنَسٌ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " خَدَمَهُ عَشْرَ سِنِينَ وَدَعَا لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَكَانَ لَهُ بُسْتَانٌ يَحْمِلُ فِي السَّنَةِ الْفَاكِهَةَ مَرَّتَيْنِ، وَكَانَ فِيهَا رَيْحَانٌ كَانَ يَجِيءُ مِنْهُ رِيحُ الْمِسْكِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو خَلْدَةَ اسْمُهُ: خَالِدُ بْنُ دِينَارٍ وَهُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ , وَقَدْ أَدْرَكَ أَبُو خَلْدَةَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ وَرَوَى عَنْهُ.
ابوخلدہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوالعالیہ سے پوچھا: کیا انس رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا: انس رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال خدمت کی ہے اور آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی ہے، اور انس رضی الله عنہ کا ایک باغ تھا جو سال میں دو بار پھلتا تھا، اور اس میں ایک خوشبودار پودا تھا جس سے مشک کی بو آتی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- ابوخلدہ کا نام خالد بن دینار ہے اور وہ محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں اور ابوخلدہ نے انس بن مالک رضی الله عنہ کا زمانہ پایا ہے، اور انہوں نے ان سے روایت کی ہے۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ کے پاس اپنی چادر پھیلا دی، آپ نے اسے اٹھایا اور سمیٹ کر اسے میرے دل پر رکھ دیا، اس کے بعد سے میں کوئی چیز نہیں بھولا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابو موسى محمد بن المثنى، حدثنا عثمان بن عمر، حدثنا ابن ابي ذئب، عن سعيد المقبري، عن ابي هريرة، قال: قلت: يا رسول الله اسمع منك اشياء فلا احفظها، قال: " ابسط رداءك "، فبسطته فحدث حديثا كثيرا فما نسيت شيئا حدثني به. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، قد روي من غير وجه عن ابي هريرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَسْمَعُ مِنْكَ أَشْيَاءَ فَلَا أَحْفَظُهَا، قَالَ: " ابْسُطْ رِدَاءَكَ "، فَبَسَطْتُهُ فَحَدَّثَ حَدِيثًا كَثِيرًا فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا حَدَّثَنِي بِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں بہت سی چیزیں آپ سے سنتا ہوں لیکن انہیں یاد نہیں رکھ پاتا، آپ نے فرمایا: ”اپنی چادر پھیلاؤ“، تو میں نے اسے پھیلا دیا، پھر آپ نے بہت سے حدیثیں بیان فرمائیں، تو آپ نے جتنی بھی حدیثیں مجھ سے بیان فرمائیں میں ان میں سے کوئی بھی نہیں بھولا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور ابوہریرہ رضی الله عنہ سے کئی سندوں سے آئی ہے۔
(موقوف) حدثنا حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا يعلى بن عطاء، عن الوليد بن عبد الرحمن، عن ابن عمر، انه قال لابي هريرة: " يا ابا هريرة انت كنت الزمنا لرسول الله صلى الله عليه وسلم واحفظنا لحديثه ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ: " يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَنْتَ كُنْتَ أَلْزَمَنَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَحْفَظَنَا لِحَدِيثِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے کہا: ابوہریرہ! آپ ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہنے والے اور ہم سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں یاد رکھنے والے ہیں۔
(موقوف) حدثنا حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي، اخبرنا احمد بن ابي شعيب الحراني، اخبرنا محمد بن سلمة الحراني، عن محمد بن إسحاق، عن محمد بن إبراهيم، عن مالك بن ابي عامر، قال: جاء رجل إلى طلحة بن عبيد الله , فقال: يا ابا محمد ارايت هذا اليماني يعني ابا هريرة، اهو اعلم بحديث رسول الله صلى الله عليه وسلم منكم؟ نسمع منه ما لا نسمع منكم، او يقول على رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لم يقل؟ قال: " اما ان يكون سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لم نسمع فلا اشك , إلا انه سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لم نسمع , وذاك انه كان مسكينا لا شيء له، ضيفا لرسول الله صلى الله عليه وسلم، يده مع يد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكنا نحن اهل بيوتات وغنى وكنا ناتي رسول الله صلى الله عليه وسلم طرفي النهار، فلا اشك إلا انه سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لم نسمع , ولا نجد احدا فيه خير يقول على رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لم يقل ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث محمد بن إسحاق، وقد رواه يونس بن بكير، وغيره عن محمد بن إسحاق.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَبِي عَامِرٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ , فَقَالَ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ أَرَأَيْتَ هَذَا الْيَمَانِيَّ يَعْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ، أَهُوَ أَعْلَمُ بِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكُمْ؟ نَسْمَعُ مِنْهُ مَا لَا نَسْمَعُ مِنْكُمْ، أَوْ يَقُولُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَمْ يَقُلْ؟ قَالَ: " أَمَّا أَنْ يَكُونَ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَمْ نَسْمَعْ فَلَا أَشُكُّ , إِلَّا أَنَّهُ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَمْ نَسْمَعْ , وَذَاكَ أَنَّهُ كَانَ مِسْكِينًا لَا شَيْءَ لَهُ، ضَيْفًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَدُهُ مَعَ يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكُنَّا نَحْنُ أَهْلَ بُيُوتَاتٍ وَغِنًى وَكُنَّا نَأْتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَفَيِ النَّهَارِ، فَلَا أَشُكُّ إِلَّا أَنَّهُ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَمْ نَسْمَعْ , وَلَا نَجِدُ أَحَدًا فِيهِ خَيْرٌ يَقُولُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَمْ يَقُلْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، وَقَدْ رَوَاهُ يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، وَغَيْرُهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق.
مالک بن ابوعامر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے طلحہ بن عبیداللہ کے پاس آ کر کہا: اے ابو محمد! کیا یہ یمنی شخص یعنی ابوہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں کا آپ لوگوں سے زیادہ جانکار ہے، ہم اس سے ایسی حدیثیں سنتے ہیں جو آپ سے نہیں سنتے یا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسی بات گھڑ کر کہتا ہے جو آپ نے نہیں فرمائی، تو انہوں نے کہا: نہیں ایسی بات نہیں، واقعی ابوہریرہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی چیزیں سنی ہیں جو ہم نے آپ سے نہیں سنیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مسکین تھے، ان کے پاس کوئی چیز نہیں تھی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان رہتے تھے، ان کا ہاتھ (کھانے پینے میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کے ساتھ پڑتا تھا، اور ہم گھربار والے تھے اور مالدار لوگ تھے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صبح میں اور شام ہی میں آ پاتے تھے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی چیزیں سنی ہیں جو ہم نے نہیں سنیں، اور تم کوئی ایسا آدمی نہیں پاؤ گے جس میں کوئی خیر ہو اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف محمد بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اسے یونس بن بکیر نے اور ان کے علاوہ دوسرے راویوں نے بھی محمد بن اسحاق سے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5010) (ضعیف الإسناد) (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: (3837) إسناده ضعيف ابن إسحاق عنعن (تقدم:58)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کس قبیلہ سے ہو؟“ میں نے عرض کیا: میں قبیلہ دوس کا ہوں، آپ نے فرمایا: ”میں نہیں جانتا تھا کہ دوس میں کوئی ایسا آدمی بھی ہو گا جس میں خیر ہو گی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- ابوخلدہ کا نام خالد بن دینار ہے اور ابوالعالیہ کا نام رفیع ہے۔
(مرفوع) حدثنا عمران بن موسى القزاز، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا المهاجر، عن ابي العالية الرياحي، عن ابي هريرة، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم بتمرات، فقلت: يا رسول الله ادع الله فيهن بالبركة، فضمهن ثم دعا لي فيهن بالبركة، فقال لي: " خذهن واجعلهن في مزودك هذا، او في هذا المزود، كلما اردت ان تاخذ منه شيئا فادخل فيه يدك فخذه ولا تنثره نثرا، فقد حملت من ذلك التمر كذا وكذا من وسق في سبيل الله "، فكنا ناكل منه ونطعم وكان لا يفارق حقوي، حتى كان يوم قتل عثمان فإنه انقطع. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه، وقد روي هذا الحديث من غير هذا الوجه عن ابي هريرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى الْقَزَّازُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْمُهَاجِرُ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ الرِّيَاحِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمَرَاتٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ فِيهِنَّ بِالْبَرَكَةِ، فَضَمَّهُنَّ ثُمَّ دَعَا لِي فِيهِنَّ بِالْبَرَكَةِ، فَقَالَ لِي: " خُذْهُنَّ وَاجْعَلْهُنَّ فِي مِزْوَدِكَ هَذَا، أَوْ فِي هَذَا الْمِزْوَدِ، كُلَّمَا أَرَدْتَ أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُ شَيْئًا فَأَدْخِلْ فِيهِ يَدَكَ فَخُذْهُ وَلَا تَنْثُرْهُ نَثْرًا، فَقَدْ حَمَلْتُ مِنْ ذَلِكَ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا مِنْ وَسْقٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ "، فَكُنَّا نَأْكُلُ مِنْهُ وَنُطْعِمُ وَكَانَ لَا يُفَارِقُ حِقْوِي، حَتَّى كَانَ يَوْمُ قَتْلِ عُثْمَانَ فَإِنَّهُ انْقَطَعَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ کھجوریں لے کر حاضر ہوا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان میں برکت کی دعا فرما دیجئیے، تو آپ نے انہیں اکٹھا کیا پھر ان میں برکت کی دعا کی اور فرمایا: ”انہیں لے جاؤ اور اپنے توشہ دان میں رکھ لو اور جب تم اس میں سے کچھ لینے کا ارادہ کرو تو اس میں اپنا ہاتھ ڈال کر لے لو، اسے بکھیرو نہیں چنانچہ ہم نے اس میں سے اتنے اتنے وسق اللہ کی راہ میں دیئے اور ہم اس میں سے کھاتے تھے اور کھلاتے بھی تھے ۱؎ اور وہ (تھیلی) کبھی میری کمر سے جدا نہیں ہوتی تھی، یہاں تک کہ جس دن عثمان رضی الله عنہ قتل کئے گئے تو وہ ٹوٹ کر (کہیں) گر گئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- یہ حدیث ابوہریرہ رضی الله عنہ سے دوسری سندوں سے آئی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12893) (صحیح) (شواہد کی بنا پر صحیح ہے، الصحیحة: 3963، تراجع الالبانی 227)»
وضاحت: ۱؎: خیر و برکت کی دعا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی مقبول بارگاہ الٰہی آدمی کے لیے کر سکتے ہیں؟ ثابت ہوا کہ ابوہریرہ رضی الله عنہ مقبول بارگاہ الٰہی تھے۔
(موقوف) حدثنا حدثنا احمد بن سعيد المرابطي، حدثنا روح بن عبادة، حدثنا اسامة بن زيد، عن عبد الله بن رافع، قال: قلت لابي هريرة: لم كنيت ابا هريرة؟ قال: اما تفرق مني؟ قلت: بلى والله إني لاهابك، قال: " كنت ارعى غنم اهلي وكانت لي هريرة صغيرة , فكنت اضعها بالليل في شجرة، فإذا كان النهار ذهبت بها معي , فلعبت بها , فكنوني ابا هريرة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْمُرَابِطِيُّ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي هُرَيْرَةَ: لِمَ كُنِّيتَ أَبَا هُرَيْرَةَ؟ قَالَ: أَمَا تَفْرَقُ مِنِّي؟ قُلْتُ: بَلَى وَاللَّهِ إِنِّي لَأَهَابُكَ، قَالَ: " كُنْتُ أَرْعَى غَنَمَ أَهْلِي وَكَانَتْ لِي هُرَيْرَةٌ صَغِيرَةٌ , فَكُنْتُ أَضَعُهَا بِاللَّيْلِ فِي شَجَرَةٍ، فَإِذَا كَانَ النَّهَارُ ذَهَبْتُ بِهَا مَعِي , فَلَعِبْتُ بِهَا , فَكَنَّوْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن رافع کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے پوچھا: آپ کی کنیت ابوہریرہ کیوں پڑی؟ تو انہوں نے کہا: کیا تم مجھ سے ڈرتے نہیں ہو؟ میں نے کہا: کیوں نہیں؟ قسم اللہ کی! میں آپ سے ڈرتا ہوں، پھر انہوں نے کہا: میں اپنے گھر والوں کی بکریاں چراتا تھا، میری ایک چھوٹی سی بلی تھی میں اس کو رات میں ایک درخت پر بٹھا دیتا اور دن میں اسے اپنے ساتھ لے جاتا، اور اس سے کھیلتا، تو لوگوں نے میری کنیت ابوہریرہ رکھ دی۔