(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " استعيذوا بالله من عذاب جهنم، واستعيذوا بالله من عذاب القبر، استعيذوا بالله من فتنة المسيح الدجال، واستعيذوا بالله من فتنة المحيا والممات ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَاسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، اسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَاسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «استعيذوا بالله من عذاب جهنم واستعيذوا بالله من عذاب القبر استعيذوا بالله من فتنة المسيح الدجال واستعيذوا بالله من فتنة المحيا والممات»”اللہ سے پناہ مانگو جہنم کے عذاب سے، اللہ سے پناہ مانگو قبر کے عذاب سے، اللہ سے پناہ مانگو مسیح دجال کے فتنے سے اور اللہ سے پناہ مانگو زندگی اور موت کے فتنے سے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 192 (590)، و مسند احمد (2/290) (تحفة الأشراف: 12753) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد، صفة الصلاة (163)
(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا هشام بن حسان، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من قال حين يمسي ثلاث مرات: اعوذ بكلمات الله التامات من شر ما خلق لم يضره حمة تلك الليلة ". قال سهيل: فكان اهلنا تعلموها فكانوا يقولونها كل ليلة، فلدغت جارية منهم , فلم تجد لها وجعا. قال ابو عيسى: هذا حسن مالك بن انس هذا الحديث، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وروى عبيد الله بن عمر وغير واحد هذا الحديث عن سهيل ولم يذكروا فيه عن ابي هريرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ قَالَ حِينَ يُمْسِي ثَلَاثَ مَرَّاتٍ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ لَمْ يَضُرَّهُ حُمَةٌ تِلْكَ اللَّيْلَةَ ". قَالَ سُهَيْلٌ: فَكَانَ أَهْلُنَا تَعَلَّمُوهَا فَكَانُوا يَقُولُونَهَا كُلَّ لَيْلَةٍ، فَلُدِغَتْ جَارِيَةٌ مِنْهُمْ , فَلَمْ تَجِدْ لَهَا وَجَعًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَى عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سُهَيْلٍ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے شام کے وقت تین مرتبہ «أعوذ بكلمات الله التامات من شر ما خلق» پڑھا، اسے اس رات کوئی بھی ڈنک مارنے والا جانور تکلیف نہیں پہنچا سکتا“۔ سہیل کہتے ہیں: میرے گھر والوں نے اسے سیکھا اور ہر رات اسے پڑھتے، پھر میرے گھر والوں میں سے ایک لونڈی کو کسی جانور نے ڈنک مارا تو اس ڈنک سے اسے کچھ بھی تکلیف محسوس نہ ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- مالک بن انس نے یہ سہیل بن ابی صالح سے، سہیل نے اپنے والد ابوصالح سے اور ابوصالح نے ابوہریرہ رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، ۳- عبیداللہ بن عمر اور دوسرے راویوں نے بھی یہ حدیث سہیل سے روایت کی ہے، لیکن اس میں ابوہریرہ رضی الله عنہ کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/عمل الیوم والیلة 192 (590)، و مسند احمد (2/290) (تحفة الأشراف: 1753) (صحیح)»
134. بَاب مِنْ أَدْعِيَةِ النَّبِيِّ ﷺ
134. باب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض دعاؤں کا بیان
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک دعا جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (سن کر) یاد کی ہے اسے میں برابر پڑھتا ہوں (وہ یہ ہے): «اللهم اجعلني أعظم شكرك وأكثر ذكرك وأتبع نصيحتك وأحفظ وصيتك»”اے اللہ مجھے ایسا بنا دے کہ میں کثرت سے تیرا شکر ادا کروں، زیادہ سے زیادہ تیرا ذکر کروں، تیری نصیحت کی اتباع کروں اور تیری نصیحت ہمیشہ یاد رکھوں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14937) (ضعیف) (سند میں ”فرج بن فضالة“ ضعیف ہیں)»
قال الشيخ زبير على زئي: (3604/2) ضعيف حديث الفرج بن فضالة عن أبى سعيد عن أبى هريرة قال: ”دعاء حفظته من رسول الله صلى الله عليه وسلم لا أدعه: اللهّم اجعلني أعظم شكرك“ إلخ إسناد ضعيف/ فرج: ضعيف (تقدم:2210)
(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، اخبرنا ابو معاوية، اخبرنا الليث هو ابن ابي سليم، عن زياد، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من رجل يدعو الله بدعاء إلا استجيب له، فإما ان يعجل له في الدنيا، وإما ان يدخر له في الآخرة، وإما ان يكفر عنه من ذنوبه بقدر ما دعا، ما لم يدع بإثم , او قطيعة رحم , او يستعجل "، قالوا: يا رسول الله وكيف يستعجل؟ قال: " يقول: دعوت ربي فما استجاب لي ". قال ابو عيسى: هذا غريب هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ هُوَ ابْنُ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ رَجُلٍ يَدْعُو اللَّهَ بِدُعَاءٍ إِلَّا اسْتُجِيبَ لَهُ، فَإِمَّا أَنْ يُعَجَّلَ لَهُ فِي الدُّنْيَا، وَإِمَّا أَنْ يُدَّخَرَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ، وَإِمَّا أَنْ يُكَفَّرَ عَنْهُ مِنْ ذُنُوبِهِ بِقَدْرِ مَا دَعَا، مَا لَمْ يَدْعُ بِإِثْمٍ , أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ , أَوْ يَسْتَعْجِلُ "، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ يَسْتَعْجِلُ؟ قَالَ: " يَقُولُ: دَعَوْتُ رَبِّي فَمَا اسْتَجَابَ لِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بھی اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا مانگتا ہے اللہ اس کی دعا قبول کرتا ہے، یہ دعا یا تو دنیا ہی میں قبول ہو جاتی ہے یا یہ دعا اس کے نیک اعمال میں شامل ہو کر آخرت کے لیے ذخیرہ بن جاتی ہے، یا مانگی ہوئی دعا کے مطابق اس کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ مانگی گئی دعا کا تعلق کسی گناہ کے کام سے نہ ہو، نہ ہی قطع رحمی کے سلسلہ میں ہو اور نہ ہی جلد بازی سے کام لیا گیا ہو“، صحابہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! جلد بازی سے کام لینے کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: ”وہ یہ کہنے لگے کہ میں نے اپنے رب سے دعا کی لیکن اللہ نے میری دعا قبول نہیں کی“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12906) (صحیح) (سند میں ”لیث بن أبی سلیم“ ضعیف اور ”زیاد“ مجہول ہیں، اس لیے ”وإما أن يكفر عنه من ذنوبه بقدر ما دعا“ کا ٹکڑا صحیح نہیں ہے، لیکن بقیہ حدیث شواہد کی بنا پر صحیح ہے، الضعیفة 4483، وصحیح الجامع 5678، 5714)»
وضاحت: ۱؎: کسی بندے کی دعا اللہ تعالیٰ اپنی مصلحت کے مطابق دنیا ہی میں قبول کرتا ہے یا آخرت میں اس کے لیے ذخیرہ بنا دیتا ہے، بندے کو حکم ہے کہ بس دعا کرتا رہے، باقی اللہ پر ڈال دے۔
قال الشيخ زبير على زئي: (3604/3) ضعيف حديث الليث بن أبى سليم عن زياد عن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ”ما من رجل يدعو الله بدعاء الا استجب له“ سنده ضعيف، الليث ضعيف تقدم (218) وشيخه غير منسوب
(مرفوع) حدثنا يحيى، اخبرنا يعلى بن عبيد، قال: اخبرنا يحيى بن عبيد الله، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من عبد يرفع يديه حتى يبدو إبطه يسال الله مسالة إلا آتاها إياه ما لم يعجل "، قالوا: يا رسول الله وكيف عجلته؟ قال: " يقول: قد سالت وسالت ولم اعط شيئا ". وروى هذا الحديث الزهري، عن ابي عبيد مولى ابن ازهر، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " يستجاب لاحدكم ما لم يعجل، يقول: دعوت فلم يستجب لي ".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى، أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ عَبْدٍ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يَبْدُوَ إِبِطُهُ يَسْأَلُ اللَّهَ مَسْأَلَةً إِلَّا آتَاهَا إِيَّاهُ مَا لَمْ يَعْجَلْ "، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ عَجَلَتُهُ؟ قَالَ: " يَقُولُ: قَدْ سَأَلْتُ وَسَأَلْتُ وَلَمْ أُعْطَ شَيْئًا ". وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى ابْنِ أَزْهَرَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يُسْتَجَابُ لِأَحَدِكُمْ مَا لَمْ يَعْجَلْ، يَقُولُ: دَعَوْتُ فَلَمْ يُسْتَجَبْ لِي ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بندہ اپنے دونوں ہاتھوں کو اس طرح اٹھاتا ہے کہ اس کے بغل کا حصہ ظاہر ہو جاتا ہے پھر اللہ رب العالمین سے اپنی ضرورت مانگتا ہے تو اللہ اس کی ضرورت پوری کرتا ہے، شرط یہ ہے کہ اس نے جلد بازی سے کام نہ لیا ہو“، صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! جلد بازی سے کام لینے کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: ”وہ یہ کہنے لگے کہ میں نے مانگا اور باربار مانگا لیکن مجھے کچھ نہ دیا گیا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: زہری نے یہ حدیث ابن ازہر کے آزاد غلام ابو عبید سے اور ابو عبید نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، (اس کے الفاظ یوں ہیں) آپ نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک کہ وہ جلد بازی سے کام نہ لے۔ یعنی یہ کہنے لگے کہ میں نے دعا کی پھر بھی میری دعا قبول نہ ہوئی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14125) (صحیح) (سند میں ”یحییٰ بن عبید اللہ“ ضعیف راوی ہے، اور اس حدیث میں دونوں ہاتھ کے اٹھانے کا ذکر ہے، جو صحیح نہیں ہے، اور اصل حدیث صحیح ہے، اگلے سیاق وسند سے یہ حدیث صحیح ہے، الضعیفة 4483)»
وضاحت: ۱؎: اور مؤلف کی زہری کی روایت سے ابوہریرہ کی یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
قال الشيخ زبير على زئي: (3604/4) ضعيف جدًا حديث: ”ما من عبد يرفع يديه حتي يبدو إبطه“ إسناده ضعيف جداً، يحيي بن عبدالله: متروك (تقدم:1929)
(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، اخبرنا عمرو بن عون، اخبرنا ابو عوانة، عن عمر بن ابي سلمة، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لينظرن احدكم ما الذي يتمنى فإنه لا يدري ما يكتب له من امنيته ". قال ابو عيسى: هذا حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِيَنْظُرَنَّ أَحَدُكُمْ مَا الَّذِي يَتَمَنَّى فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي مَا يُكْتَبُ لَهُ مِنْ أُمْنِيَّتِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ.
ابوسلمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص یہ غور فکر کر لے کہ وہ کس چیز کی تمنا کر رہا ہے، کیونکہ اسے کچھ پتہ نہیں کہ اس کی آرزؤں میں سے کون سی آرزو و تمنا لکھ لی جائے گی (یا مقدر کر دی جائے گی)“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 19577) (ضعیف) (سند میں ”عمر بن ابی سلمہ بن عبد الرحمن“ ضعیف ہیں، اور ابو سلمہ بن عبد الرحمن تابعی ہیں، مسند احمد (2/357، 387) میں یہ حدیث گرچہ مرفوع متصل ہے، مگر عمر بن ابی سلمہ ہی کے واسطے سے ہے)»
وضاحت: ۱؎: یعنی تمنا و آرزو کرنے سے پہلے انسان یہ سوچ لے کہ اسے ایسی چیز کی تمنا کرنی چاہیئے جو اس کے لیے دنیا و آخرت دونوں جگہوں میں مفید اور کارآمد ہو۔
قال الشيخ زبير على زئي: (3604/6) ضعيف حديث أبى سلمة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”لينظرن أحدكم ماالذي يتمني“ إلخ إسناده ضعيف لإرساله
136. بَاب اللهم مَتِّعْنِي بِسَمْعِي إِلَخْ
136. باب: یہ دعا کرنا کہ میرے دونوں کانوں سے مجھے فائدہ پہنچا
(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، اخبرنا جابر بن نوح، قال: اخبرنا محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعو فيقول: " اللهم متعني بسمعي وبصري , واجعلهما الوارث مني , وانصرني على من يظلمني , وخذ منه بثاري ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا جَابِرُ بْنُ نُوحٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو فَيَقُولُ: " اللَّهُمَّ مَتِّعْنِي بِسَمْعِي وَبَصَرِي , وَاجْعَلْهُمَا الْوَارِثَ مِنِّي , وَانْصُرْنِي عَلَى مَنْ يَظْلِمُنِي , وَخُذْ مِنْهُ بِثَأْرِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا میں یہ کہتے تھے: «اللهم متعني بسمعي وبصري واجعلهما الوارث مني وانصرني على من يظلمني وخذ منه بثأري»”اے اللہ! مجھے اپنے دونوں کانوں اور دونوں آنکھوں سے فائدہ پہنچا، اور ان دونوں کو میرے لیے باقی رکھ اور مجھ پر ظلم ڈھانے والوں کے خلاف میری مدد فرما، اور ظالم سے تو میرا بدلہ لے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابو داود سليمان بن الاشعث السجزي، حدثنا قطن البصري، اخبرنا جعفر بن سليمان، عن ثابت، عن انس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ليسال احدكم ربه حاجته كلها حتى يسال شسع نعله إذا انقطع ". قال ابو عيسى: هذا غريب، وروى غير واحد هذا الحديث عن جعفر بن سليمان، عن ثابت البناني، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ولم يذكروا فيه عن انس.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ الْأَشْعَثِ السِّجْزِيُّ، حَدَّثَنَا قَطَنٌ الْبَصْرِيُّ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِيَسْأَلْ أَحَدُكُمْ رَبَّهُ حَاجَتَهُ كُلَّهَا حَتَّى يَسْأَلَ شِسْعَ نَعْلِهِ إِذَا انْقَطَعَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ، وَرَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ أَنَسٍ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک اپنی ساری حاجتیں اور ضرورتیں اپنے رب سے مانگے، یہاں تک کہ جوتے کا تسمہ اگر ٹوٹ جائے تو اسے بھی اللہ ہی سے مانگے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- کئی اور راویوں نے یہ حدیث جعفر بن سلیمان سے اور جعفر نے ثابت بنانی کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، لیکن اس روایت میں انس رضی الله عنہ کے واسطہ کا ذکر نہیں ہے (یعنی مرسلاً روایت کی ہے جو آگے آ رہی ہے)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 276) (ضعیف) (اس روایت کا مرسل (بدون ذکر انس) ہونا ہی زیادہ صحیح ہے، اس کے راوی ”قطن بن نسیر“ روایت میں غلطیاں کر جاتے تھے، یہ انہی کی غلطی ہے کہ مرفوعا روایت کر سنن الدارمی/ ہے ملاحظہ ہو: الضعیفة رقم: 1362)»
(مرفوع) حدثنا صالح بن عبد الله، اخبرنا جعفر بن سليمان، عن ثابت البناني ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:"ليسال احدكم ربه حاجته حتى يساله الملح، وحتى يساله شسع نعله إذا انقطع" وهذا اصح من حديث قطن عن جعفر بن سليمان.(مرفوع) حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:"لِيَسْأَلْ أَحَدُكُمْ رَبَّهُ حَاجَتَهُ حَتَّى يَسْأَلَهُ الْمِلْحَ، وَحَتَّى يَسْأَلَهُ شِسْعَ نَعْلِهِ إِذَا انْقَطَعَ" وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ قَطَنٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ.
ثابت بنانی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک اپنی ضرورت اپنے رب سے مانگے، یہاں تک کہ نمک اور اپنے جوتے کا ٹوٹا ہوا تسمہ بھی اسی سے طلب کرے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ روایت قطن کی مذکورہ روایت سے جسے وہ جعفر بن سلیمان سے روایت کرتے ہیں زیادہ صحیح ہے (یعنی: اس کا مرسل ہونا زیادہ صحیح ہے)۔