(مرفوع) حدثنا ابو عمرو مسلم بن عمرو الحذاء المديني، قال: حدثني عبد الله بن نافع، عن حماد بن ابي حميد، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" خير الدعاء دعاء يوم عرفة، وخير ما قلت انا والنبيون من قبلي: لا إله إلا الله وحده لا شريك له , له الملك , وله الحمد , وهو على كل شيء قدير". قال ابو عيسى: هذا غريب من هذا الوجه، وحماد بن ابي حميد هو محمد بن ابي حميد , وهو ابو إبراهيم الانصاري المدني، وليس هو بالقوي عند اهل الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو مُسْلِمُ بْنُ عَمْرٍو الْحَذَّاءُ الْمَدِينِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ أَبِي حُمَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" خَيْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَخَيْرُ مَا قُلْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّونَ مِنْ قَبْلِي: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ , لَهُ الْمُلْكُ , وَلَهُ الْحَمْدُ , وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَحَمَّادُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ , وَهُوَ أَبُو إِبْرَاهِيمَ الْأَنْصَارِيُّ الْمَدَنِيُّ، وَلَيْسَ هُوَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ.
عبداللہ عمرو بن العاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے بہتر دعا عرفہ والے دن کی دعا ہے اور میں نے اب تک جو کچھ (بطور ذکر) کہا ہے اور مجھ سے پہلے جو دوسرے نبیوں نے کہا ہے ان میں سب سے بہتر دعا یہ ہے: «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير»”اللہ واحد کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے (ساری کائنات کی) بادشاہت ہے، اسی کے لیے ساری تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- حماد بن ابی حمیدیہ محمد بن ابی حمید ہیں اور ان کی کنیت ابوابراہیم انصاری مدنی ہے اور یہ محدثین کے نزدیک زیادہ قوی نہیں ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8698) (حسن) (سند میں حماد (محمد) بن ابی حمید ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے)»
قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (2598)، التعليق الرغيب (2 / 242)، الصحيحة (1503)
قال الشيخ زبير على زئي: (3585) إسناده ضعيف حماد بن أبى حميد ضعيف (تقدم:2151) وللحديث شواهد ضعيفة عند مالك (الموطأ 215/1،422،423) وغيره
(مرفوع) حدثنا محمد بن حميد، حدثنا علي بن ابي بكر، عن الجراح بن الضحاك الكندي، عن ابي شيبة، عن عبد الله بن عكيم، عن عمر بن الخطاب، قال: علمني رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" قل: اللهم اجعل سريرتي خيرا من علانيتي، واجعل علانيتي صالحة، اللهم إني اسالك من صالح ما تؤتي الناس من المال والاهل والولد غير الضال ولا المضل". قال ابو عيسى: هذا غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه وليس إسناده بالقوي.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنِ الْجَرَّاحِ بْنِ الضَّحَّاكِ الْكِنْدِيِّ، عَنْ أَبِي شَيْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُكَيْمٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" قُلْ: اللَّهُمَّ اجْعَلْ سَرِيرَتِي خَيْرًا مِنْ عَلَانِيَتِي، وَاجْعَلْ عَلَانِيَتِي صَالِحَةً، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ صَالِحِ مَا تُؤْتِي النَّاسَ مِنَ الْمَالِ وَالْأَهْلِ وَالْوَلَدِ غَيْرِ الضَّالِّ وَلَا الْمُضِلِّ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا، آپ نے فرمایا: ”کہو «اللهم اجعل سريرتي خيرا من علانيتي واجعل علانيتي صالحة اللهم إني أسألك من صالح ما تؤتي الناس من المال والأهل والولد غير الضال ولا المضل»”اے اللہ! میرا باطن میرے ظاہر سے اچھا کر دے اور میرے ظاہر کو نیک کر دے۔ اور لوگوں کو جو مال تو بیوی اور بچے کی شکل میں دیتا ہے ان میں سے اچھا مال دے جو نہ خود گمراہ ہوں اور نہ دوسروں کو گمراہ کریں۔“
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور اس کی سند قوی نہیں ہے۔
(مرفوع) حدثنا عقبة بن مكرم، حدثنا سعيد بن سفيان الجحدري، حدثنا عبد الله بن معدان، قال: اخبرني عاصم بن كليب الجرمي، عن ابيه، عن جده، قال: دخلت على النبي صلى الله عليه وسلم وهو يصلي وقد وضع يده اليسرى على فخذه اليسرى ووضع يده اليمنى على فخذه اليمنى، وقبض اصابعه وبسط السبابة وهو يقول: " يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك ". قال ابو عيسى: هذا غريب هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُفْيَانَ الْجَحْدَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَعْدَانَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ الْجَرْمِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي وَقَدْ وَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، وَقَبَضَ أَصَابِعَهُ وَبَسَطَ السَّبَّابَةَ وَهُوَ يَقُولُ: " يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ.
عاصم بن کلیب بن شہاب کے دادا شہاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ نماز پڑھا رہے تھے، آپ نے اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھا تھا، اور اپنا دایاں ہاتھ اپنی دائیں ران پر رکھا، انگلیاں بند کی تھیں (یعنی مٹھی باندھ رکھی تھی) اور «سبابہ»(شہادت کی انگلی) کھول رکھی تھی اور آپ یہ دعا کر رہے تھے: «يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك»”اے دلوں کے پھیرنے والے میرا دل اپنے دین پر جما دے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4848) (منکر) (اس سیاق سے یہ حدیث منکر ہے، سند میں ”عبداللہ بن معدان ابو سعدان“ لین الحدیث ہیں، اور یہ حدیث اس بابت دیگر صحیح احادیث کے برخلاف ہے)»
قال الشيخ الألباني: منكر بهذا السياق وانظر الأحاديث (291 - 293 و 2226 و 3588) // وهي في صحيح سنن الترمذي - باختصار السند بالأرقام الآتية (238 / 292 - 240 / 294 و 1739 / 2240 و 2792 / 3768) //
(مرفوع) حدثنا عبد الوارث بن عبد الصمد، حدثني ابي، حدثنا محمد بن سالم، حدثنا ثابت البناني، قال: قال لي: يا محمد إذا اشتكيت فضع يدك حيث تشتكي، وقل: " بسم الله، اعوذ بعزة الله وقدرته من شر ما اجد من وجعي هذا، ثم ارفع يدك ثم اعد ذلك وترا "، فإن انس بن مالك حدثني، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم حدثه بذلك. قال ابو عيسى: هذا حسن غريب هذا الوجه، ومحمد بن سالم هذا شيخ بصري.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَالِمٍ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، قَالَ: قَالَ لِي: يَا مُحَمَّدُ إِذَا اشْتَكَيْتَ فَضَعْ يَدَكَ حَيْثُ تَشْتَكِي، وَقُلْ: " بِسْمِ اللَّهِ، أَعُوذُ بِعِزَّةِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ مِنْ وَجَعِي هَذَا، ثُمَّ ارْفَعْ يَدَكَ ثُمَّ أَعِدْ ذَلِكَ وِتْرًا "، فَإِنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَنِي، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُ بِذَلِكَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سَالِمٍ هَذَا شَيْخٌ بَصْرِيٌّ.
ثابت بنانی اپنے شاگرد محمد بن سالم سے کہتے ہیں کہ جب تمہیں درد ہو تو جہاں درد اور تکلیف ہو وہاں ہاتھ رکھو پھر پڑھو: «بسم الله أعوذ بعزة الله وقدرته من شر ما أجد من وجعي هذا»”اللہ کے نام سے اللہ کی عزت و قدرت کے سہارے میں اپنی اس تکلیف کے شر سے جو میں محسوس کر رہا ہوں پناہ چاہتا ہوں“۔، پھر (درد کی جگہ سے) ہاتھ ہٹا لو پھر ایسے ہی طاق (تین یا پانچ یا سات) بار کرو، کیونکہ انس بن مالک نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایسا ہی بیان کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، اور محمد بن سالم یہ بصریٰ شیخ ہیں۔
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ دعا سکھائی: «اللهم هذا استقبال ليلك واستدبار نهارك وأصوات دعاتك وحضور صلواتك أسألك أن تغفر لي»”اے اللہ! یہ تیری رات کے آنے اور تیرے دن کے جانے کا وقت ہے اور تجھے یاد کرنے کی آوازوں اور تیری نماز کے لیے پہنچنے کا وقت ہے میں (ایسے وقت میں) اپنی مغفرت کے لیے تجھ سے درخواست کرتا ہوں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- حفصہ بنت ابی کثیر کو ہم نہیں جانتے اور نہ ہی ہم ان کے باپ کو جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 39 (530) (تحفة الأشراف: 18246) (ضعیف) (سند میں ابوکثیر لین الحدیث راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الكلم الطيب (76 / 35)، ضعيف أبي داود (85) // (105 / 530) //، المشكاة (669)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بھی کوئی بندہ خلوص دل سے «لا إله إلا الله» کہے گا اور کبائر سے بچتا رہے گا تو اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جائیں گے، اور یہ کلمہ «لا إله إلا الله» عرش تک جا پہنچے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا احمد بن بشير , وابو اسامة , عن مسعر، عن زياد بن علاقة، عن عمه، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " اللهم إني اعوذ بك من منكرات الاخلاق , والاعمال , والاهواء ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب، وعم زياد بن علاقة هو قطبة بن مالك صاحب النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ , وَأَبُو أُسَامَةَ , عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، عَنْ عَمِّهِ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ مُنْكَرَاتِ الْأَخْلَاقِ , وَالْأَعْمَالِ , وَالْأَهْوَاءِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَعَمُّ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ هُوَ قُطْبَةُ بْنُ مَالِكٍ صَاحِبُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
زیاد بن علاقہ کے چچا قطبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من منكرات الأخلاق والأعمال والأهواء»”اے اللہ! میں تجھ سے بری عادتوں، برے کاموں اور بری خواہشوں سے پناہ مانگتا ہوں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ۲- اور زیاد بن علاقہ کے چچا کا نام قطبہ بن مالک ہے اور یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن إبراهيم الدورقي، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، حدثنا الحجاج بن ابي عثمان، عن ابي الزبير، عن عون بن عبد الله، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: بينما نحن نصلي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذ قال رجل من القوم: الله اكبر كبيرا، والحمد لله كثيرا، وسبحان الله بكرة واصيلا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من القائل كذا وكذا "، فقال رجل من القوم: انا يا رسول الله، قال: " عجبت لها فتحت لها ابواب السماء ". قال ابن عمر: ما تركتهن منذ سمعتهن من رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح غريب هذا الوجه، وحجاج بن ابي عثمان هو حجاج بن ميسرة الصواف , ويكنى: ابا الصلت، وهو ثقة عند اهل الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ نُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا، وَسُبْحَانَ اللَّهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنِ الْقَائِلُ كَذَا وَكَذَا "، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " عَجِبْتُ لَهَا فُتِحَتْ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ ". قَالَ ابْنُ عُمَرَ: مَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ، وَحَجَّاجُ بْنُ أَبِي عُثْمَانَ هُوَ حَجَّاجُ بْنُ مَيْسَرَةَ الصَّوَّافُ , وَيُكْنَى: أَبَا الصَّلْتِ، وَهُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک بار ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے ۱؎، اسی دوران ایک شخص نے کہا: «الله أكبر كبيرا والحمد لله كثيرا وسبحان الله بكرة وأصيلا»”اللہ بہت بڑائی والا ہے، اور ساری تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اور پاکی ہے اللہ تعالیٰ کے لیے صبح و شام“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سنا تو) پوچھا: ”ایسا ایسا کس نے کہا ہے؟“ لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: میں نے کہا ہے، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”میں اس کلمے کو سن کر حیرت میں پڑ گیا، اس کلمے کے لیے آسمان کے دروازے کھولے گئے“۔ ابن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے میں نے ان کا پڑھنا کبھی نہیں چھوڑا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- حجاج بن ابی عثمان یہ حجاج بن میسرہ صواف ہیں، ان کی کنیت ابوصلت ہے اور یہ محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔
فائدہ ۱؎: ”نماز پڑھ رہے تھے“ سے مراد: ہم لوگ نماز شروع کر چکے تھے، اتنے میں وہ آدمی آیا اور دعا ثناء کی جگہ اس نے یہی کلمات کہے، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تقریر (تصدیق) کر دی، تو گویا ثناء کی دیگر دعاؤں کے ساتھ یہ دعا بھی ایک ثناء ہے، امام نسائی دعا ثناء کے باب ہی میں اس حدیث کو لاتے ہیں، اس لیے بعض علماء کا یہ کہنا کہ «سبحانک اللہم …» کے سواء ثنا کی بابت منقول ساری دعائیں سنن و نوافل سے تعلق رکھتی ہیں، صحیح نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 27 (601)، سنن النسائی/الافتتاح 8 (886) (تحفة الأشراف: 7369)، و مسند احمد (2/14) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا احمد بن إبراهيم الدورقي، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، اخبرنا الجريري، عن ابي عبد الله الجسري، عن عبد الله بن الصامت، عن ابي ذر رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم عاده او ان ابا ذر عاد رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: بابي انت وامي يا رسول الله، اي الكلام احب إلى الله عز وجل؟ قال: " ما اصطفى الله لملائكته سبحان ربي وبحمده سبحان ربي وبحمده ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَسْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَادَهُ أَوْ أَنَّ أَبَا ذَرٍّ عَادَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْكَلَامِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؟ قَالَ: " مَا اصْطَفَى اللَّهُ لِمَلَائِكَتِهِ سُبْحَانَ رَبِّي وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ رَبِّي وَبِحَمْدِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی عیادت کی (یہاں راوی کو شبہ ہو گیا) یا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عیادت کی، تو انہوں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، اے اللہ کے رسول! کون سا کلام اللہ کو زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا: ”وہ کلام جو اللہ نے اپنے فرشتوں کے لیے منتخب فرمایا ہے (اور وہ یہ ہے) «سبحان ربي وبحمده سبحان ربي وبحمده»”میرا رب پاک ہے اور تعریف ہے اسی کے لیے، میرا رب پاک ہے اور ہر طرح کی حمد اسی کے لیے زیبا ہے“۔
(مرفوع) حدثنا ابو هشام الرفاعي محمد بن يزيد الكوفي , حدثنا يحيى بن اليمان، حدثنا سفيان، عن زيد العمي، عن ابي إياس معاوية بن قرة، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الدعاء لا يرد بين الاذان والإقامة "، قالوا: فماذا نقول يا رسول الله؟ قال: " سلوا الله العافية في الدنيا والآخرة ". قال ابو عيسى: هذا حسن، وقد زاد يحيى بن اليمان في هذا الحديث هذا الحرف قالوا: فماذا نقول؟ قال: " سلوا الله العافية في الدنيا والآخرة ".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ، عَنْ أَبِي إِيَاسٍ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الدُّعَاءُ لَا يُرَدُّ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ "، قَالُوا: فَمَاذَا نَقُولُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " سَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ، وَقَدْ زَادَ يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ هَذَا الْحَرْفَ قَالُوا: فَمَاذَا نَقُولُ؟ قَالَ: " سَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ".
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اذان اور اقامت کے درمیان مانگی جانے والی دعا لوٹائی نہیں جاتی“، (یعنی قبول ہو جاتی ہے) لوگوں نے پوچھا: اس دوران ہم کون سی دعا مانگیں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”دنیا اور آخرت (دونوں) میں عافیت مانگو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے، یحییٰ بن ابان نے اس حدیث میں اس عبارت کا اضافہ کیا ہے کہ ان لوگوں نے عرض کیا کہ ہم کیا کہیں؟ آپ نے فرمایا: ”دنیا و آخرت میں عافیت (یعنی امن و سکون) مانگو“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 212 (منکر) حدیث کا پہلا فقرہ صحیح ہے، لیکن اس کے بعد کا قصہ ”منکر“ ہے اس لیے کہ سند میں یحیی بن الیمان اور زید العمی دونوں ضعیف راوی ہیں، اور قصے کا شاہد موجود نہیں ہے، تراجع الالبانی 140)»
قال الشيخ الألباني: منكر بهذا التمام، لكن قوله:
قال الشيخ زبير على زئي: (3594) إسناده ضعيف زيد العمي: ضعيف (تقدم:1442) وحديث أبى داود (521) يغني عنه