(مرفوع) حدثنا ابو هشام الرفاعي محمد بن يزيد الكوفي , حدثنا يحيى بن اليمان، حدثنا سفيان، عن زيد العمي، عن ابي إياس معاوية بن قرة، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الدعاء لا يرد بين الاذان والإقامة "، قالوا: فماذا نقول يا رسول الله؟ قال: " سلوا الله العافية في الدنيا والآخرة ". قال ابو عيسى: هذا حسن، وقد زاد يحيى بن اليمان في هذا الحديث هذا الحرف قالوا: فماذا نقول؟ قال: " سلوا الله العافية في الدنيا والآخرة ".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ، عَنْ أَبِي إِيَاسٍ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الدُّعَاءُ لَا يُرَدُّ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ "، قَالُوا: فَمَاذَا نَقُولُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " سَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ، وَقَدْ زَادَ يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ هَذَا الْحَرْفَ قَالُوا: فَمَاذَا نَقُولُ؟ قَالَ: " سَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ".
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اذان اور اقامت کے درمیان مانگی جانے والی دعا لوٹائی نہیں جاتی“، (یعنی قبول ہو جاتی ہے) لوگوں نے پوچھا: اس دوران ہم کون سی دعا مانگیں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”دنیا اور آخرت (دونوں) میں عافیت مانگو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے، یحییٰ بن ابان نے اس حدیث میں اس عبارت کا اضافہ کیا ہے کہ ان لوگوں نے عرض کیا کہ ہم کیا کہیں؟ آپ نے فرمایا: ”دنیا و آخرت میں عافیت (یعنی امن و سکون) مانگو“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 212 (منکر) حدیث کا پہلا فقرہ صحیح ہے، لیکن اس کے بعد کا قصہ ”منکر“ ہے اس لیے کہ سند میں یحیی بن الیمان اور زید العمی دونوں ضعیف راوی ہیں، اور قصے کا شاہد موجود نہیں ہے، تراجع الالبانی 140)»
قال الشيخ الألباني: منكر بهذا التمام، لكن قوله:
قال الشيخ زبير على زئي: (3594) إسناده ضعيف زيد العمي: ضعيف (تقدم:1442) وحديث أبى داود (521) يغني عنه
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3594
اردو حاشہ: نوٹ: حدیث کا پہلا فقرہ صحیح ہے، لیکن اس کے بعد کا قصہ ”منکر“ ہے اس لیے کہ سند میں یحیی بن الیمان اور زید العمی دونوں ضعیف راوی ہیں، اور قصے کا شاہد موجود نہیں ہے، تراجع الألبانی: 140)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3594
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 158
´اذان اور اقامت کے درمیانی وقت دعا قبول ہوتی ہے` «. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: لا يرد الدعاء بين الاذان والإقامة . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اذان اور اقامت کے درمیانی وقفہ میں دعا مسترد نہیں کی جاتی . . .“[بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 158]
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اذان اور اقامت کا درمیانی وقت انتہائی قیمتی ہوتا ہے۔ اس میں دعا قبول ہوتی ہے بشرطیکہ دیگر آداب و شرائط کا لحاظ بھی رکھا گیا ہو، باالخصوص صحت، عقیدہ، رزق حلال، صدق مقال اور اخلاص و یقین وغیرہ کامل ہو، لہٰذا اس وقت دعا وغیرہ میں مصروف رہنا چاہیے جبکہ دیکھا گیا ہے لوگ حتٰی کہ امام مسجد اور مساجد کے خادمین تک اس وقت کو ضائع کر دیتے ہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 158
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1343
´ذکر اور دعا کا بیان` سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اذان اور اقامت کے درمیان دعا رد نہیں کی جاتی۔“ اس کو نسائی وغیرہ نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1343»
تخریج: «أخرجه النسائي في الكبرٰي، حديث:9895، وابن حبان (الموارد)، حديث:296، وله طريق آخر عند الترمذي، الصلاة، حديث:212.»
تشریح: قبولیت دعا کے مختلف اوقات ہیں۔ ان میں سے ایک وقت اذان و اقامت کے درمیان کا ہے‘ اس لیے کہ نمازی کی اس مبارک وقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف مکمل توجہ ہوتی ہے اور وہ نماز کے انتظار میں ہوتا ہے‘ اس لیے اس وقت کو فضول باتوں میں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1343
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 521
´اذان اور اقامت کے درمیان دعا کرنے کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اذان اور اقامت کے درمیان دعا رد نہیں کی جاتی۔“[سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 521]
521. اردو حاشیہ: ➊ معلوم ہوا کہ یہ وقت انتہائی قیمتی ہوتا ہے۔ نماز دعا ذکر اور تلاوت میں مشغول رہ کر اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ جب کہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ حتیٰ کے مساجد کے خادمین تک اس وقت کو ضائع کر دیتے ہیں۔ ➋ اس وقت میں دعا مقبول ہوتی ہے۔ بشرطیکہ دیگر آداب وشرائط کا لحاظ بھی رکھا گیا ہو۔ بالخصوص صحت عقیدہ، رزق حلال، صدق مقال اور اخلاص و یقین کامل وغیرہ۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 521